وسوسوں میں مبتلا قوم

نصرت جاوید  بدھ 15 اکتوبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

کافی چھوٹی عمر سے میری والدہ نے مجھے سورج نکلنے سے بہت پہلے جاگ اُٹھنے کی عادت ڈال دی تھی۔ گھر سے ملحقہ مسجد میں فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد میں پرانے لاہور کے دروازوں کے باہر بسائے باغ میں چلا جاتا۔ کسی ورزش سے اپنے جسم کو کسرتی بنانے کا شوق تو کبھی لاحق نہ ہوا بس پھولوں سے بھرے قطعات کے گرد گھومتا رہتا۔

اُن دنوں ہفتے میں دو ایک بار کوئی خاتون جسے میں کسی بھی حوالے سے نہیں جانا کرتا تھا مجھے گلی کی نکڑ پر کھڑے ہو کر کسی نہ کسی طرح اپنی طرف متوجہ کرتی۔ میں جب اس کے پاس جاتا تو بڑی عاجزی اور لجاجت کے ساتھ وہ مجھے کپڑے میں لپٹا کوئی کاغذ دیتی۔ اس کی خواہش یہ ہوتی کہ میں اسے باغ میں موجود کسی بلند درخت کی سب سے اونچی شاخ پر لٹکا دوں۔ میں بہت خوشی سے اس کا یہ کام کر دیتا۔ ایک دن مگر جب میں نے اپنی والدہ سے ایسے واقعات کا ذکر کیا تو وہ گھبرا کر تلملا اُٹھیں۔ بڑی تفصیل سے انھوں نے مجھے سمجھانا شروع کر دیا کہ کاغذوں میں لپٹے کاغذ تعویز ہوتے ہیں۔ ان پر کچھ ’’عمل‘‘ کیے ہوتے ہیں جن میں سے چند ایک بہت ’’بھاری‘‘ بھی ہوا کرتے ہیں۔ مجھے تو انھیں چھونے سے بھی کترانا چاہیے کیونکہ بھاری عمل ’’اُلٹ‘‘ کر بہت نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

میری سادہ لوح والدہ کے مقابلے میں ابّاجی ضرورت سے زیادہ عقل پرست ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے بہت شدت سے یہ بھاشن دینا شروع کر دیا کہ مجھے خود سے مدد کی طالب ’’بے وقوف‘‘ عورتوں کو سختی سے سمجھانا چاہیے کہ جادو ٹونے ایک فضول چیز ہوتے ہیں۔ خدا نے آپ کو سوچنے کی صلاحیت اسی لیے بخشی ہے کہ آپ خود پر آئی مشکلات کی اصل وجوہات کو جان لینے کے بعد ان کے اوپائے کی کوئی صورت نکالیں۔ میری والدہ ابّاجی کے جلال کے سامنے تو خاموش رہیں مگر ان کے دائیں بائیں ہوتے ہی سرگوشی میں دو تین بار دہرایا کہ ’’جادو برحق مگر کرنے والا کافر‘‘ اور میں اگر جادو کی اہمیت اور حقیقت کو جاننا چاہتا ہوں تو مولوی صاحب سے یہ پوچھوں کہ کلام پاک میں آئے ’’چاروں قُل‘‘ کن حالات میں نازل ہوئے تھے۔

اتنے برس گزرنے کے باوجود جادو برحق مگر کرنے والا کافر والا فقرہ کبھی میرے ذہن سے غائب نہیں ہوا۔ اگرچہ میں شاید اپنے والد کے مقابلے میں ضرورت سے کہیں زیادہ عقل پرست واقعہ ہوا ہوں۔ اس عقل پرستی کی بدولت عراق، ایران اور لبنان میں اپنے قیام کے دوران میں نے دریافت کیا کہ وہاں کی ثقافتی روایات میں ’’چاروں قُل‘‘ اس انداز میں لوگوں کی روزمرہّ زندگی کا حصہ نہیں بنے جیسے ہمارے ہاں نظر آتا ہے۔ اپنی اس دریافت کے بعد میں نے خود سے یہ بھی طے کر لیا کہ چونکہ ہماری روزمرہّ زندگی میں ہندو عقائد کی بہت ساری باقیات اب بھی بڑی توانائی سے موجود ہیں اس لیے جادو ٹونہ اور اس کے تدارک کے نسخے ہمیں ہر وقت درکار ہوتے ہیں۔

گزشتہ چند دنوں سے لیکن میرے اندر بیٹھا نام نہاد عقل پرست شخص بڑی سنجیدگی سے اس سوال پر غور کرنا شروع ہو گیا ہے کہ کہیں ہماری قوم کے کسی دشمن نے بحیثیت مجموعی واقعی ہماری قوم کو کسی ٹونے کا نشانہ تو نہیں بنا دیا۔ میرے ذہن میں پہلے پہل یہ سوال ان دنوں میں آیا جب خونی چاند والے گرہن کے بارے میں اپنے بہت سارے پڑھے لکھے لوگوں کو حد سے زیادہ متفکر پایا۔ ان کی فکر مندی نے مجھے اپنی ماں کے بتائے ’’چاروں قُل‘‘ بھی یاد دلا دیے۔ میں ان پر غور کرتے اس آیت پر اٹک کر رہ گیا جس میں اس شیطان سے ربّ کی پناہ مانگی جاتی ہے جو انسانوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کر دیتا ہے۔

وسوسہ یقینا ایک ڈرا دینے والا رویہ ہے جو انسان کو حقائق سے پوری طرح کاٹ کر انجانے دشمنوں کے خوف میں مبتلا کر کے عملی طور پر مفلوج بنا دیتا ہے۔ انجانے خوف سے مفلوج ہوئے انسانوں کی کیفیات ہمارے منیر نیازی نے بہت مہارت اور خوب صورتی کے ساتھ اپنی شاعری میں بیان کر دی ہیں۔ مجھے خدا نے ان جیسی صلاحیتوں سے نہیں نوازا۔ وسوسوں سے بھرے اپنی قوم کے دلوں پر غور کرتا ہوں تو خون کھول اُٹھتا ہے اور کبھی کبھار شدید مایوسی اور بے بسی کا احساس مجھے مفلوج بنا ڈالتا ہے۔

ان دنوں یہ کیفیت ملالہ کی وجہ سے بھی شدید تر ہو رہی ہے۔ ہم سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ میڈیا میں ایک شےHype ہوا کرتی ہے۔ سوات پر جن دنوں ملا فضل اللہ کا راج تھا تو یہ دُنیا کے لیے اسی طرح ایک بڑی اسٹوری تھی جیسے ان دنوں داعش کے کارنامے ہیں۔ ایسے حالات میں گل مکئی کے نام سے لکھے بلاگ نے بی بی سی کی بدولت کافی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ اس کے بعد سادی سی حقیقت یہ بھی رہی کہ اسکول سے آتی ایک وین کو چوراہے میں روک کر ملالہ کون ہے پکارا گیا اس بچی نے اپنی شناخت کروائی تو اسے گولی کا نشانہ بنا دیا گیا۔ کئی دن موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا رہنے کے بعد ملالہ بچ گئی۔ اس کی ذات اور کہانی دُنیا کے لیے مزاحمت کی علامت ہے۔ اس علامت کو نوبل پرائز سے نوازے جانا بھی کوئی حیرت کی بات نہیں۔

کسی بھی ملک کی کسی شخصیت کو یہ انعام ملتا ہے تو وہ بڑی ذہانت اور یکسوئی کے ساتھ اسے اپنے بارے میں Feel Good جذبات پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ پاکستان جیسے بے وسیلہ ملک کے لیے تو بہت ضروری ہے کہ ہم عالمی طور پر تسلیم شدہ ملالہ جیسی علامت کو اپنی اجتماعی بھلائی کے لیے کسی نہ کسی طرح استعمال کریں۔ سیدھی سادی حقیقتوں کو جان کر اجتماعی فلاح کے راستوں پر چلنے کے بجائے ہمیں مگر وسوسوں نے گھیر رکھا ہے۔ کئی مہینے تو ہم اس وسوسے میں مبتلا رہے کہ شاید پاکستان کے دشمنوں نے ہمیں اور اسلام کو بدنام کرنے کے لیے ملالہ کو ’’ایجاد‘‘ کیا اور پھر اسے ’’مشہوری‘‘ دلوانے کے لیے گولی مارنے والا ’’ڈراما‘‘ رچایا۔ اس کے نام سے کرسٹینا لیمب سے پھر ایک ’’زہر بھری‘‘ کتاب لکھوائی گئی اور اب اسے نوبل انعام دے کر اور زیادہ اہم بنا دیا گیا ہے۔

ملالہ کے بارے میں جو وسوسے میں نے بیان کیے ہیں وہ ہمارے معاشرے کے ٹھیک ٹھاک پڑھے لکھے لوگوں نے پھیلائے ہیں۔ سوشل میڈیا پران دنوں سب سے مقبول یہ ’’خدشہ‘‘ بھی ہے کہ ملالہ کو نوبل انعام سے نوازنے کے بعد اسے مستقبل میں کسی وقت پاکستانی سیاست میں حصہ لینے کے لیے ’’لانچ‘‘ کر دیا جائے گا تا کہ وہ جب اقتدار میں آئے تو پاکستان کے دشمنوں کے ایجنڈے کی بھرپور تکمیل کر سکے۔ خدارا مجھے کوئی اب یہ بات سادہ لفظوں میں سمجھا ہی دے کہ پاکستان اور اسلام کے دشمنوں کا ’’اصل ایجنڈا‘‘ کیا ہے اور ان میں سے کون سا ایسا نکتہ باقی رہ گیا ہے جس پر ہم پہلے ہی سے عمل نہیں کر رہے۔ ملالہ کے ہمارے سیاسی اُفق پر لانچ ہوئے بغیر۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔