ملالہ یوسف زئی کو سلام

محمد عارف شاہ  بدھ 15 اکتوبر 2014

دیر سے سہی، بالآخر وقت آ گیا ہے کہ قوم دو ٹوک فیصلہ کرے کہ اس نے متفقہ آئین میں اپنے جس وطن کو ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ قرار دیا ہے، وہاں وحشت، دہشت اور طاقت کا راج قائم ہونا ہے یا پرامن عوام کا اور یہ بھی کہ ناجائز دولت اور سماجی پسماندگی کے زور پر قائم کرنا ہے؟ یا آئین کے عین مطابق انتخابات کراکر یعنی آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی حقیقی عملداری سے۔ سوال یہ ہے کہ اچانک یہ وقت کیسے آن پہنچا کہ اب قوم ایک دو ٹوک فیصلہ کر ڈالے؟ جواب اس کا ایک ’’آہنی لڑکی‘‘ ہے۔ نام اس کا ملالہ ہے، جو ساری دنیا میں امن و عمل، جرأت، تعلیم، انسانی شعور، مزاحمت، حقوق نسواں کی جدوجہد اور ٹیکنالوجی کی مدد سے موثر ترین ابلاغ کی علامت بن کر طلوع ہوئی۔ وحشت و دہشت کی لپیٹ میں آئی حسین و جمیل وادیٔ سوات کی حصول تعلیم کے جذبے سے سرشار 17 سالہ ملالہ یوسف زئی پاکستان کی وہ مایہ ناز بیٹی ہے جس نے 11 سال کی عمر میں انتہائی گھمبیر صورتحال میں جب اس کے علاقے میں لڑکیوں کے اسکول بند کر دیے گئے، تعلیم کے لیے اپنی کمٹمنٹ کو ہمالہ سے بلند اپنے شعور کو عمل (موثر ترین ابلاغ) میں ڈھال دیا۔

گھر بیٹھے اس کے ٹیکنالوجی (کمپیوٹر) کے اعلیٰ ترین استعمال نے ساری دنیا کو بتایا کہ اگر ہمارے ملک میں ایک سر پھرا انتہا پسند گروپ اپنی تشریح کے مطابق من مانا اسلام نافذ کرنے کے لیے دہشت گرد  ہو گیا ہے تو اسی سوات میں 11 سالہ ملالہ بھی ہے۔ اس باعزم ننھی طالبہ نے اپنے شعور سے دنیا کو  بتایا کہ اس کے علاقے میں بچیوں پر تعلیم کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں اور لڑکیوں کے اسکول بم دھماکوں سے مسمار کیے جا رہے ہیں۔ جب ریاست کے اندر ریاست بنانے کے پر خطر عمل کو روکنے کے لیے ایک طرف پاک افواج کے بہادر جوان اور افسر بین الاقوامی سازشوں اور انتہا پسندوں سے نبرد آزما تھے تو دوسری جانب ملالہ اپنے گھر میں مورچہ بند پوری دنیا میں پرامن و پرکیف سوات میں ڈھائی جانیوالی قیامت کو بے نقاب کر رہی تھی۔

جنہوں نے بھی ملالہ کو شہید کرنے کی سازش تیار کی اور اس پر عملدرآمد بھی، وہ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ملالہ نے جو آواز بلند کی ہے وہ حصول علم کے فرض و حق کی صدا ہے، جو ہر مومن اور مومنہ پر فرض ہے اور ان کا حق بھی۔ یہ قرآن کریم کا پہلا درس، کل انسانیت کے لیے۔ ملالہ ایک مسلم معاشرے میں اس کی مبلغہ ہے۔ اس کا مطلب ہے وہ قوم کے لیے پڑھی لکھی مائیں تیار کرنے کی راہ پر ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو تعمیر ملت کی راہ ہے، جو صراط مستقیم ہے۔ گویا پاکستانی معاشرے میں جہالت کے اندھیرے دور کر کے تنگ و تاریک دماغوں کو منور اور فراخ کرنے کی راہ، جسے ملالہ نے جنگ و جدل کے ماحول میں اپنے شعور سے نکالا اور ساری دنیا کو دکھایا۔

اس کی فولادی طاقت اور اس کے دبدبے کا اندازہ تو اب ہوا کہ ’اسٹیٹس کو‘ کی جمود پرست طاقت، جس کا ہتھیار فقط دہشت ہے، تین سال سے ملالہ کے شعور سے خوفزدہ چلی آ رہی ہے۔ یہ اپنی جنگی صلاحیت اور تمام تر جہالت کے ساتھ کس قدر بزدل ہے، اتنی کہ وہ ملالہ یوسف زئی کا وجود اپنے اجارہ دارانہ نظام کے لیے مستقل خطرہ تصور کیے ہوئے ہے۔ ملالہ اور اس کی ہم جماعتوں کائنات اور شازیہ کے خون بہنے سے رت بدل گئی ہے۔ پاکستان کی آہنی بیٹی نے جس شعور سے جو ابلاغ کیا صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا پر اس کے اثرات جتنے گہرے ہیں اتنے ہی مثبت بھی اور جتنے مثبت ہیں اتنے ہی دور رس بھی۔ اس نے تعلیم کے لیے وہ کیا جو پاکستان کی کوئی حکومت نہ کر سکی۔

اس بات کو ایک طرف رکھ دیجیے کہ ملالہ یوسف زئی کو نوبل انعام ملنا چاہیے تھا کہ نہیں اور چند لمحوں کے لیے اس بحث کو بھی چھوڑدیں کہ آیا ملالہ نے ایسا کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ اسے نوبل پرائز جیسے اعزاز سے نوازا گیا۔ آپ صرف یہ بتائیے کہ ملالہ کو انعام ملنے سے آخر کس کی نیک نامی ہوئی؟ کیا اس انعام سے میرے اور آپ کے پاکستان کی عزت و توقیر میں اضافہ نہیں ہوا؟ آپ لاکھ اختلاف کریں لیکن اس بات سے کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ملالہ کو ملنے والا انعام پاکستان کے لیے ایک اعزاز ہے۔ کیا آج کے بعد جب جب اس انعام کے حوالے سے پاکستان کا ذکر آئے گا تو یہ نہ کہا جائے گا کہ یہ وہ ملک ہے۔

جس کی ایک سترہ سالہ لڑکی نے یہ انعام جیت کر تاریخ رقم کی تھی؟ مجھے اس بات میں ذرہ بھر بھی شبہ نہیں کہ ایدھی صاحب ملالہ سے زیادہ اس انعام کے حقدار تھے اور مجھے ملالہ کے انعام ملنے پر حیرت بھی ہے اور میں مسلسل سوچ ہی رہا ہوں کہ آیا اسے کس خدمت کے عوض اس انعام سے سرفراز کیا گیا مگر اب جب کہ اسے یہ انعام مل گیا ہے تو میری حب الوطنی اس بات کی متقاضی ہے کہ میں اس کا کھلے دل سے اقرار کروں اور ایک پاکستانی ہونے کے ناتے اس بات پر فخر کروں کہ جو ممالک ہمیں دہشت گرد ریاست کا طعنہ مارتے نہیں تھکتے تھے آج خود انھوں نے اس ملک کی ایک شہری کو امن کا عالمی ایوارڈ دے کر اپنے ہی موقف کی نفی کر دی ہے۔

مجھے اور آپ کو مکمل حق حاصل ہے کہ ہم ملک میں رہتے ہوئے کسی بھی معاملے پر اختلاف کر سکتے ہیں، ایک دوسرے پر تنقید کر سکتے ہیں اور اپنے نظریات کے پرچار کے لیے تحریک بھی چلا سکتے  ہیں مگر جب بات ہمارے ملک، ہماری قوم اور ہماری ریاست کی عالمی سطح پر نمایندگی کی ہو، اس کے امیج کی ہو تو ہمیں اپنے رویے پر نظر ثانی کرنی چاہیے کہ ایسے معاملات میں اختلافات، مخالفت اور تنقید کسی فرد کی نہیں قوم کی جگ ہنسائی کا سبب بنتی ہے۔

آپ فیس بک اور ٹوئیٹر پر ملالہ یوسف زئی کو جتنا بُرا بھلا کہیں، اس سے نہ ان کو کوئی فرق پڑے گا اور نہ ہی آپ کچھ بدل سکیں گے ہاں مگر اس سے پاکستان کا پوری دنیا میں یہ امیج جائے گا کہ یہ وہ قوم ہے جو اپنی ایک شہری، اپنی ایک بیٹی کو ذلیل کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ یہ وہ قوم ہے جو اپنے ملک کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والوں کو گالیوں اور زہریلے جملوں سے شکریہ کہتی ہے۔ آپ انفرادی طور پر لاکھ اختلاف کریں آپکو حق ہے مگر اپنے اس اختلاف کو اپنے ملک کی بدنامی کا باعث نہ بننے دیں۔ خدارا اپنی ذات کے کھوکھلے خولوں سے نکل کر ایک قوم کی طرح عمل کیجیے۔ ایک گھر کے اندر لاکھ لڑائیاں اور اختلافات ہوں مگر جب آپ اس گند کو اپنے گھر سے باہر نکالیں گے تو یقین کیجیے نہ گھر کی عزت رہے گی اور نہ گھر والوں کی۔

وادی سوات سے طلوع ہونیوالے تبدیلی کے اس سورج نے عالمی رہنماؤں کو بھی پیغام دیا ہے کہ پاکستان میں ان ہی کی پیدا کردہ انتہا پسندی اور پہلے سے موجود خوفناک روایت پسندی کو تبدیل کرنے کا راستہ ابلاغ اور تعلیم ہیں۔ اس کا استعمال کرو، اگر دنیا کو پرامن اور مہذب بنانا ہے۔ اور پاکستان کو ایسے خطرات سے باہر نکالنا ہے جو عالمی سیاست کے سوداگروں کے نزدیک ان کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے۔

صرف اور صرف تعلیم و ابلاغ کی طرف آؤ۔ سماج کے لیے تعلیم مسلسل اور ابلاغ مسلسل دونوں اور حکمرانوں کے لیے ابلاغ مسلسل، جس پر تم نہ آئے تو ایک اور نسل کی بربادی کے بعد دوسری اور دوسری نہیں تو تیسری نسل نے آنا ہی ہے کہ یہ ہی راہ انسانیت ہے اور ہمیں بھی آیندہ الیکشن میں ایک ایسی حکومت لانا ہو گی جو تعلیم کی اہمیت سے آگاہ ہو اور اس کے پروگرام میں تعلیم اولین ایجنڈا ہو نہ کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63کی روح کے برعکس افراد ہم پر ’’ہمارے نمایندے‘‘ بنا کر مسلط کر دیے جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔