امریکا یاترا

کامران جیلانی  بدھ 15 اکتوبر 2014

امریکا کے غیر متاثر کن اور بے صرف دورے کو عجلت میں ختم کر کے واپس وطن روانہ ہونے والے وزیر اعظم کو غالباً بعد میں علم ہوا ہو گا کہ وہ ایک نئی تاریخ رقم کر کے امریکا سے روانہ ہوئے ہیں، انھوں نے نیویارک میں اپنے ہی خلاف اپنے ہی ہم وطنوں کے ایک بہت  بڑے مظاہرے کا سامنا کیا اور پریشان نظر آئے لیکن مظاہرے کے موقعے پر حفاظتی ذمے داریوں پر مامور امریکی پولیس اہلکار حیران تھے۔

آخرکار ایک پولیس اہلکار سے صبر نہ ہو سکا اور اس نے مظاہرین سوال کیا کہ وہ کس کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ حاضرین میں سے ایک نوجوان نے جواب دیا کہ  اپنے وزیر اعظم کے خلاف، پولیس اہلکار کی حیرانی مزید بڑھی اس  نے سوال کیا کہ اپنے ہی وزیر اعظم کے خلاف کیوں مظاہرہ کر رہے ہو، نوجوان نے جواب دیا کرپشن کا الزام ہے۔ پولیس اہلکار کے چہرے پر حیرت کا طوفان نظر آیا اور اس نے بے اختیار پوچھا ،  تو پھر وزیر اعظم کیسے بن گیا، اب وہ نوجوان امریکی پولیس اہلکار کو کیسے سمجھاتا کہ پاکستان میں ہر چیز ممکن ہے وہاں جعلی ڈگری والا نہ صرف وزیر تعلیم بلکہ اسپیکر بھی بن سکتا ہے۔ ہرنادہندہ اور ٹیکس چور الیکشن لڑ سکتا ہے،  صدر تک بن سکتا ہے لیکن نوجوان کیسے بتاتا وہ تو خود پولیس اہلکار کے سوالوں پر شرمندہ تھا وہ یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ہم مجبور اور بدقسمت تارکین وطن ہیں جو اپنے ہی وزیر اعظم کے خلاف مظاہرہ کر کے دیگر کمیونیٹیز کو اپنی جگ ہنسائی کا موقع دے رہے ہیں۔

اس کے برعکس ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے وزیر اعظم نریندر سنگھ مودی کا نیویارک میں بھارتی تارکین وطن تاریخی استقبال کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے، بہرحال عزت اور ذلت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف ملک میں عوامی سطح پر ملنے والی ہزیمت سے دو چار دن محفوظ رہنے کے لیے امریکا آئے تو انھیں تارکین وطن پاکستانیوں کی طرف سے ہزیمت اور اذیت سے دوچار کرنے والا احتجاج دیکھنے کو ملا۔

اس تاثر کو اس وقت تقویت ملی جب وزیر اعظم  سے صرف امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے ملاقات کی اور صدر بارک اوباما سے ملنا تو خواب کی بات، امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری تک نے ملنے کی زحمت نہ کی۔ اس کے برعکس بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کا نہ صرف امریکا میں مقیم بھارتی کمیونٹی نے شایان شان استقبال کیا بلکہ صدر بارک اوباما نے ان سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے جس ہوٹل میں قیام کیا وہاں دورہ امریکا کے موقعے پر پرویز مشرف سے سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے بھی ملاقات کی تھی اور بعدازاں پرویز مشرف کو کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات کا اعزاز بخشا تھا یہی نہیں پرویز مشرف امریکی ذرایع ابلاغ کے لیے بھی ہمیشہ ہی سب سے اہم عالمی لیڈر رہے۔ یہ صدر بش ہی تھے جنھوں نے پرویز مشرف کو ہمیشہ بہادر اور دور اندیش شخص قرار دیا۔

2001ء نومبر میں اس ویلڈ روف اسٹوریا ہوٹل میں منعقدہ عشائیہ کے بعد پاکستان میں متعین رہنے والی سابق امریکی سفیر اینڈی جے چیمبرلین نے قرار دیا تھا کہ مشرف ایک دل آویز شخصیت کے مالک ہیں اور وہ محفل میں ایک فاتح ہیرو کی طرح نظر آتے ہیں۔ پرویز مشرف کے حوالے سے ایک انکشاف سابق صدر بش کے سابق پریس سیکریٹری ایری فلیشر نے کیا، انھوں نے بتایا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ایک ملاقات سے قبل پرویز مشرف کو خبردار کر دیا گیا تھا کہ وہ صدر بش کے سامنے F-16 کا مسئلہ نہ اٹھائیں کیونکہ مسٹر بش کا جواب نفی میں ہو گا لیکن پرویز مشرف نے پھر بھی سوال اٹھایا جواب نہ میں ضرور ملا لیکن مسٹر بش نے بعد ازاں کہا کہ مجھے یہی بات پسند ہے کہ پرویز مشرف جو چاہتے ہیں وہ کرتے ہیں اور جو دماغ میں ہوتا ہے وہ ہی کہتے ہیں۔

یہ تھے مشرف جن کی قائدانہ صلاحیتوں کا ایک عالم متعرف رہا جب کہ اپنے ہی ہم وطنوں نے اسے آمر آمر کہہ کر متنازع بنا دیا۔ جس جنرل کو غیرملکی جامعات اور ادارے ایک لیکچر کے ایک لاکھ ڈالر ادا کرتے تھے اسے اس کے ہم وطنوں نے ہی جمہوریت کے نام پر اسٹیٹس کو کو مسلط کرنے والے نادہندہ اور ناخواندہ سیاسی پتلوں کو سر پر بٹھایا جو امریکی ذرایع ابلاغ کے سامنے گفتگو کرنے کے لیے چار جملے انگریزی کے ایک صفحے پر لکھ کر لاتے ہیں، میں یہاں انگریزی کو بنیادی قابلیت کی نشانی قرار نہیں دیتا یہ ایک اضافی خصوصیت ہے جس سے بھارتی وزیر اعظم نریندرسنگھ مودی بھی محروم ہیں لیکن ان کی سیاسی بصیرت اور دور اندیشی دیکھیے  کہ انھوں نے امریکی صدر اوباما سے ملاقات سے زیادہ اہمیت صف اول کی بین الاقوامی امریکی کمپنیوں کے سربراہان سے تفصیلی ملاقات کو دی تا کہ ان کمپنیوں کو بھارت میں اپنی سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لیے نئی ترغیبات پیش کی جا سکیں۔

ان بین الاقوامی کمپنیوں کے سربراہان میں پیپسی کمپنی کے بھارتی نژاد سی ای او اندرا نوائی، سرچ انجن گوگل کے چیئرمین ایرک شمڈ اور سٹی گروپ کے چیف مائیکل کوربٹ قابل ذکر تھے جنھیں وزیراعظم مودی نے یقین دلایا کہ ان کا ملک اوپن مائینڈڈ ہے اور ہم تبدیلی چاہتے ہیں تا کہ بھارت کو مزید سرمایہ کار دوست ملک بنایا جا سکے۔ انھوں نے تمام سربراہان کے سامنے حکومت کے ترجیحاتی شعبہ جات کی فہرست رکھی اور کمپنیوں پر زور دیا کہ وہ Infrastructure development کے مواقعوں سے استفادہ کریں اس سے نہ صرف روزگار کے وسیع مواقعے پیدا ہونگے بلکہ ہمارے شہریوں کا طرز زندگی بھی بلند ہو گا۔

واضح رہے کہ یہ کمپنیاں پہلے سے بھارت میں موجود ہیں لیکن بھارتی وزیراعظم مسٹر مودی چاہتے تھے کہ سب کمپنیاں اپنے کاروبار اور سرمایہ کاری کا دائرہ مزید وسیع کریں۔ بعدازاں وزیراعظم مودی نے 6 بین الاقوامی کمپنیوں کے سربراہان سے ایک ایک گھنٹے کی علیحدہ علیحدہ ملاقات کی ان میں جہاز بنانے والی معروف کمپنی بوئنگ، کے کے آر، بلیک رول، آئی بی ایم، جنرل الیکٹرک اور گولڈ مین ساشے کے سی ای اوز شامل تھے۔

وزیراعظم مودی نے اپنے 5 روز قیام کے دوران زیادہ تر سرمایہ کار کمپنیوں کے سربراہان سے ملاقاتوں پر زور رکھا۔ جس سے ان کی دور اندیشی اور ملک کی ترقی کی فکر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے برخلاف ہمارے وزیراعظم نواز شریف نے صرف مسلم لیگ (ن) نیویارک کے رہنماؤں اور کارکنوں سے ملاقات کو ترجیح دی، تاہم یہ اطلاع ضرور گردش کرتی رہی کہ انھوں نے ہوٹل میں ایک مصروف بھارتی بزنس ٹائیکون سے خفیہ ملاقات کی ممکن ہے یہ وہ ہی بزنس ٹائیکون ہیں جن سے وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے دورہ بھارت کے موقعے پر محض اپنے ذاتی کاروباری مفادات کے لیے ملاقات کی تھی۔

بھارتی امریکی حلقوں  اور امریکی تھنک ٹینک سے تعلق رکھنے والے دانشوروں نے وزیراعظم مودی کے دورہ امریکا کو خصوصی اہمیت دی اور اسے کامیاب قرار دیا جب کہ وزیراعظم نواز شریف کے دورہ امریکا کا کہیں ذکر نہیں تھا، ہم سے کسی نے پوچھا کہ نواز شریف کے دورہ امریکا پر آپ کیا تبصرہ لکھ رہے ہیں تو ہم نے صرف اتنا ہی جواب دیا کہ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔