(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - آہ یہ بے بسی

ماجد چاھم  بدھ 15 اکتوبر 2014
بوجھل قدموں کے ساتھ وہ گھر کے راستے پر یہ سوچتے ہوئے بڑھ رہا تھا کہ وہ سحر کب آئی گی جب اِن وعدؤں کی تکمیل ہوگی۔ فوٹو اے پی

بوجھل قدموں کے ساتھ وہ گھر کے راستے پر یہ سوچتے ہوئے بڑھ رہا تھا کہ وہ سحر کب آئی گی جب اِن وعدؤں کی تکمیل ہوگی۔ فوٹو اے پی

بھولا آپنی کمر پہ اِینٹوں کا بوجھ لادے سوچوں کے بھنور میں گردش کرتا آہستہ آہستہ بوجھل قدوموں کے ساتھ سیڑھیاں چڑھ رہا تھا، دْکھ بھرے خیالات دھوئیں کے ہیولے کی طرح اْس کے ذہن سے گزر رہے تھے کہ کب وہ وقت آئے گا جب وہ اپنے سیلاب میں بہہ جانے والے گھر کو ازسرِنو تعمیر کر پائے گا۔ اسی لمحے ٹھنڈی آہ بھرتے بھولا کو خیال آیا کہ کس کیلئے گھر بنائے؟ پانی کی خوفناک لہرے تو اْس کی بیوی اور بچے کو اپنے سنگ بہا لے گئیں تھیں ،اَب وہ اور بوڑھی ماں ہی تو گھر میں رہ گئے تھے۔ ابھی اِنہی سوچوں میں کھویا ہوا تھا کہ مَلک صاحب کی آواز آئی ،اوئے بھْولے کہاں مر گیا ہے جلدی آ مستری “ویلا” بیٹھا ہے۔

شام کی کالی چادر نے دِن کے اْجالے کو آپنی آغوش میں لینا شروع کیا تو بھولے نے ہاتھ پاؤں دھوتے ہوئے اور ملک صاحب سے پیسوں کی درخواست کی جس کو سْنتے ہی ملک صاحب نے ماتھے کے بل گہرے کرتے ہوئے بھولا کو 500 دیئے تو بھولے نے التجا بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ملک صاحب کل عید ہے اور پانچ “دیہاڑیوں” کے 1500 بنتے ہیں۔ ملک صاحب مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے بولے اوئے تو نے اِتنے پیسیوں کا کیا کرنا ہے تیرے گھر میں اَب بچا ہی کون ہے بس تْو اور تیرں بوڑھی ماں،چل بھاگ جا۔

بوجھل قدموں اور بے بس جذبات کے ساتھ وہ گھر کے راستے پر یہ سوچتے بڑھ رہا تھا کہ کیسے سیلاب کے دِنوں میں علاقے کے نام نہاد سیاستدان اْس کے ساتھ تصویریں بنوا رہے تھے ،مدد کے بلندوبانگ وعدے کر رہے تھے کیا وہ سب جھوٹ تھے؟  بھولا اس سحر کے انتظار میں تھا جب اِن وعدؤں کی تکمیل ہو گی۔

گھر میں داخل ہوتے ہوئے جِس کی چار دیواری کی بس نشانیاں ہی رہ گئی تھی کھلے آسمان نیچے چارپائی پہ بیٹھی اْس کی ماں کی آواز آئی’’ میرا محمد شفیق پْتر آ گیا ‘‘سارے دِن کا بھولا شام کو محمد شفیق بَن جاتا تھا کیوں کے وہ تو بھولا ہی تو تھا سارے گاؤں کا بھولا۔

رات کے کھانے کے بعد سیاہ اندھیرے میں اپنی چارپائی پہ لیٹا درد بھری بے رنگ آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھتے بھولا 500 کے حساب میں مگن تھا کہ کیسے کل عید کا دِن گزارے گا ۔دو سو کی کل کی ہانڈی، پچاس روپے مولوی صاحب کی خدمت میں، سو روپیہ مرنے والوں کے ثواب لئے مسجد میں۔ نیند آج جیسے کوسوں دور تھی کبھی بیوی اور بچے کی یاد جو اْس کی سانسوں کو اور گہرا کر جاتی تو کبھی ملک صاحب کی طرف رہنے والا ہزار روپیہ جو اْس کو بِے بسی کا طعنہ دے جاتا۔

اِسی کشمکش میں سورج کی کِرنوں نے رات کے آندھیرے کو آن گھیرا اور مسجد سے عید کی تکبیروں کی صدا آنے لگی ۔ وہ اْٹھا اور عید کی نماز کو چل دیا۔نماز سے فارغ ہو کے سب ایک دوسرے کے گلے مِل رہے تھے اور بھولا لاچار و بے بسی کی تصویر بنے کھڑا سوچ رہا تھا کہ غریب ہونا بھی کِتنا حقیر ہے، ایسے میں ملک صاحب کی آواز اْس کے کانوں میں پڑی جو فخریہ انداز میں آواز بلند کر کر کے دوسروں کو بتا رہے تھے کہ پورے پچاس ہزار کا بکرا لے کے آیا ہوں، بس اللہ پاک قربانی قبول کرے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔