(خیالی پلاؤ) - غزل؛ ابھی اُسکا حساب باقی ہے

ثاقب عباس  بدھ 15 اکتوبر 2014
ابھی اُسکا حساب باقی ہے، جب تک کتاب میں گلاب باقی ہے۔ فوٹو فائل

ابھی اُسکا حساب باقی ہے، جب تک کتاب میں گلاب باقی ہے۔ فوٹو فائل

ابھی اُسکا حساب باقی ہے
جب تک کتاب میں گلاب باقی ہے

پہلے چہرے سے پردہ ہٹنے دو
ابھی رُخ پے نقاب باقی ہے

مجھ کو سو جانے دو لوگوں
میرا ایک خواب باقی ہے

مت کھینچو مجھے مئے خانے سے
ٹہرو ابھی شراب باقی ہے

یہ زمین بہت پیا سی ہے
یہاں پر ایک حساب با قی ہے

میں ایک صحرا ہوں اور کچھ نہیں
بس ایک سراب باقی ہے

اپنے اندر سے بدل گیا ہوں میں
باہر ایک انقلاب باقی ہے

ستارے تو ٹوٹ کے گر جاتے ہیں
کوئی ہے تو آفتاب باقی ہے

یہ داستاں ختم ہونے والی ہے
اور ابھی ایک کتاب باقی ہے

برسو پہلے ایک سوال کیا تھا آبرؔ
میں منتظر ہوں اُس کا جواب باقی ہے!

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے غزل لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی  تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔