سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا

نصرت جاوید  جمعرات 16 اکتوبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

فقرہ تو یہ ایک زمانے میں بہت مشہور وکیل اور دانشوراے۔کے۔بروہی کے نسبتاً غیر معروف بھائی نے ادا کیا تھا مگر مشہوری اس کی فیض احمد فیض کے حوالے سے ہوئی تھی۔ ہوا یوں تھا کہ اپنی عادت کے عین مطابق چند دانشور حضرات شام کی ایک محفل میں یک جا بیٹھے ملکی حالات پر گفتگو کررہے تھے۔ ہر شخص پاکستان کے حالات کے بارے میں کافی متفکر تھا اور مستقبل کی اپنے اپنے تجزیے کے مطابق تاریک سے تاریک تر تصویر دکھا رہا تھا۔

ایک خاص کلائمکس پر پہنچ کر چھوٹے بروہی صاحب نے انتہائی سنجیدگی سے اعلان کردیا کہ ان کے پاس ان سب کے مقابلے میں ایک ہولناک خبر موجود ہے۔ حاضرین چونکنا ہوکر خاموش بیٹھ گئے تو انھوں نے کندھے اُچکا کر اعلان کردیا کہ  پاکستان میں سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا۔آج دوپہر تک مجھے اپنی تمام تر کاوشوں کے باوجود اس کالم کے لیے کوئی موضوع نہیں مل رہا تھا۔ تھک کر بستر پر جا لیٹا تو اچانک وہ اداسی یاد آگئی جس نے پیر کی شام سے اسلام آباد پر سرما کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے مسلط کر رکھی ہے۔

یہ اداسی اس رونق کے مقابلے میں اور زیادہ پریشان کن محسوس ہوئی جو 14اگست سے رچائے دھرنوں کی وجہ سے اس شہر میں موجود رہی۔ ان دھرنوں کی وجہ سے ’’گو نواز گو‘‘ کی کیفیت میں نے ذاتی طور پر تو کبھی محسوس نہیں کی۔ مگر بہت سارے تبصرہ نگاروں کی بدولت اکثر یہ گماں ضرور ہوجاتا کہ پاکستان بدل گیا ہے۔ نچلے اور متوسط طبقات کے نوجوان اپنی بھرپور توانائی کے ساتھ Status Quoکے بارے میں بنیادی سوالات کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان سوالات کی وجہ سے کم از کم ’’پرانی سیاست گری‘‘ کے مارے افراد کی زبانیں گنگ ہوگئی ہیں۔ حکمران اقتدار کے ایوانوں میں تو موجود ہیں مگر محصور اور مفلوج ہوئے نظر آرہے ہیں۔ انھیں ایک بند گلی سے نکلنے کے راستے ہی نہیں مل رہے۔

پیر کی شام سے اس شہر میں پھیلی اداسی نے مگر یہ سوچنے پر بھی مجبور کردیا کہ حکمران تو اقتدار کے ایوانوں میں اسی طرح موجود ہیں۔ دھرنے والے البتہ بکھرگئے ہیں۔ اپنی تحریک کے باقاعدہ اختتام کے اعلان کی ہمت مگر انھوں نے نہیں دکھائی۔ ’’باجوکی گلی‘‘ سے نکلنے کے لیے عذر بلکہ یہ تراشا ہے کہ اب وہ پاکستان کے شہر شہر جاکر لوگوں کو حکمرانوں کے خلاف حتمی ضرب لگانے کو تیار کریں گے۔ جلسے ان کے فیصل آباد، میانوالی اور ملتان میں یقینا بہت شاندار ہوئے۔ میں نے ذاتی طورپر ’’شاندار جلسوں‘‘ کی کہانیاں اپنے بچپن سے کافی سن رکھی ہیں۔ میرے محلے کے بزرگوں کی اکثریت عطاء اللہ شاہ بخاری کے جلسوں کا بہت ذکر کیا کرتی تھی۔

سنا ہے لاہور میں زیادہ تر وہ شاہ محمد غوث کے مزار کے سامنے والے باغ میں عشاء کی نماز کے بعد شروع ہوتے اور فجر تک جاری رہتے۔ عطاء اللہ شاہ بخاری اور ان کی مجلسِ احرار کا ذکر البتہ میں نے اپنے اسکول میں پڑھائی تحریکِ پاکستان کے حوالے سے کبھی نہیں پڑھا۔ اپنے تئیں اندازہ بس یہ لگایا کہ قائدِ اعظم کی تمام تر مشقت کے باوجود 1946ء تک پنجاب پر جاگیرداروں کی نمایندہ سمجھے جانے والی یونینسٹ پارٹی راج کرتی رہی۔ ’’پھر تازہ خبر آئی اور خضر ساڈا بھائی‘‘ بن گیا اور مسلم یونینیسٹوں کی اکثریت مسلم لیگی ہوگئی۔ جلسوں اور جلوسوں کا حقیقی اثر میں نے 1970ء میں دیکھا۔ ’’ہر انسان‘‘ ان دنوں روٹی، کپڑا اور مکان مانگا کرتا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے یہ سب فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ ان دنوں کے مشرقی پاکستان میں کیا ہو رہا تھا اس کے بارے میں میری عمر کے نوجوان زیادہ تر لاعلم رہے۔ بس اتنا یاد ہے کہ 16دسمبر 1971ء ہوا تھا۔ ملک دو حصوں میں بٹ گیا۔ بھٹو ’’نئے پاکستان‘‘ کے وزیر اعظم بن گئے۔ مگر جب میں کل وقتی صحافی ہوا تو 1977ء آگیا۔ جلسے، جلوس، پتھراؤ، لاٹھی چارج، آنسو گیس، فائرنگ اور کرفیو وغیرہ۔ یہ سب ملک میں ’’نظامِ مصطفیٰؐ‘‘ کا تقاضہ کرنے کے نام پر ہمارا مقدر نظر آرہا تھا۔ مگر انجام میں ملے جنرل ضیاء الحق اور ان کے اسلامی جہاد سے بھرپور گیارہ سال۔

ضیاء الحق کے بھرپور جلال کے دنوں میں اپریل 1986ء بھی آیا۔ اس سال کے دس اپریل کی صبح لاہور ایئرپورٹ پر میں بھی موجود تھا۔ بحیثیت رپورٹر محترمہ بے نظیر بھٹو کے ٹرک پر بھی چڑھ گیا۔ ریگل چوک پہنچ کر چاروں طرف نظر دوڑا کر ہجوم کی تعداد کا تعین کرنا چاہا تو ذہن جواب دے گیا۔ یہ جلوس مغرب کے وقت مینارِ پاکستان پہنچا۔ بی بی نے اپنی تقریر کے اختتام پر ’’ضیاء رہے یا جاوے‘‘ کا نعرہ بلند کیا تو ’’جاوے۔جاوے‘‘ کی تکرار سے زمین لرز اُٹھی۔ 3مئی 1986ء تک میں پنجاب کے کئی شہروں اور قصبوں سے گزر کر ملتان پہنچ کر بھی یہی تکرار سنتا رہا۔ ضیاء مگر اگست 1988ء میں گیا اور وہ بھی کسی تحریک کی بدولت نہیں ایک فضائی حادثے کی وجہ سے۔

1986ء کے تجربات کی بدولت میں عدلیہ بحالی تحریک کے ابتدائی دنوں میں کوئی خاص پُراُمید نہیں تھا۔ ہمارے ملک میں لیکن اب 24/7آچکا تھا۔ ٹی وی اسکرینوں پر رونق لگ گئی۔ مجھے بھی بالآخر شبہ ہونے لگا کہ ’’پاکستان بدل گیا ہے‘‘۔ آج مگر جب اکیلے بیٹھ کر سوچتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ گیم تو 2008ء کے انتخابات تک جنرل پرویز مشرف ہی کے ہاتھ میں رہی تھی۔ موصوف نے ایمرجنسی لگائی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کو اپنی شرائط پر انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ کیا۔ انتخابات کے بعد موصوف گیم نہ سنبھال پائے تو اصل وجہ اس کی یہ تھی کہ واشنگٹن والوں کو یقین ہوگیا کہ گڈ اور بیڈ طالبان کے نام پر ان کے ساتھ ڈبل گیم ہو رہی ہے۔ وہ گئے تو سکون کا ایک لمحہ صدر زرداری کو بھی نصیب نہ ہوا۔ مگر ایوانِ صدر میں موصوف نے پانچ سال پورے کیے اور بڑے اہتمام کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوئے۔

افتخار چوہدری نے اپنی بحالی کے بعد رونق تو خوب لگائے رکھی مگر دن پھرے نہیں غریبوں کے۔ سسٹم جسے ان دنوں Status Quo کہا جارہا ہے ویسے کا ویسے ہی رہا۔ اور پھر تبدیلی اور انقلاب کی علامت بن کر عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری 14اگست2014 کی رات اسلام آباد تشریف لے آئے۔ شوروغوغا تو بہت رہا مگر ایمپائر کی اُنگلی نہ اُٹھی اب ان دونوں کو شہر شہر جاکر ایک اور حملے کی تیاری کرنا پڑ رہی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آغاز سرما کی اداسی اس کی ذمے دار ہو۔ مگر یہ کالم میں صرف چھوٹے بروہی کا ایجاد کردہ وہ فقرہ جو فیض احمد فیض کے نام سے منسوب ہوکر مشہور ہوا دہرانے کی خاطر لکھ رہا ہوں۔ میرے لیے سب سے زیادہ پریشان کن خبر یہی ہے کہ ’’پاکستان میں سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا‘‘۔ ہمارا سسٹم جسے ان دنوں Status Quo کہا جا رہا ہے مار کھا کھا کر بہت ڈھیٹ ہوچکا ہے۔ اس سسٹم کی Surviving Skillsسے تو بلکہ اب خوف آنے لگا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔