چند تاثرات

امجد اسلام امجد  جمعرات 16 اکتوبر 2014
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

میرا بھارت کا پہلا سفر راجندر ملہوترہ کے جشن بہار مشاعرے کے حوالے سے 1981ء میں ہوا تھا تب سے اب تک میں تقریباً دس بار اس ہمسایہ سرزمین کی یاترا اور وہاں کے لوگوں سے ملاقاتیں اور باتیں کر چکا ہوں، یوں اس حوالے سے اب وہاں کے احباب کی فہرست خاصی طویل ہو چکی ہے بلاشبہ ان میں سے بیشتر لوگ ادب یا فنون لطیفہ سے متعلق ہیں لیکن اس دوران میں بہت سے طلبہ و طالبات اور معاشرے کے عام افراد سے بھی گاہے گاہے تبادلہ خیال کا موقع ملتا رہا ہے اور یوں وہاں کے سیاسی اور معاشرتی ماحول اور میڈیا کے رجحانات سے بھی آگاہی حاصل ہوتی رہی ہے۔

جس کا اظہار میں اپنے سفر ناموں اور کالموں میں کرتا رہا ہوں سو اسی روایت کو نبھاتے ہوئے میں اپنے حالیہ سفر بھارت میں مرتب ہونے والے چند نمایاں تاثرات میں بھی اپنے قارئین کو شامل کر رہا ہوں واضح رہے کہ یہ میرے ذاتی تاثرات ہیں اور صرف انھی مناظر تک محدود ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے ان سات دنوں میں میرے رابطے میں آئے یا رہے۔ ابتدا نریندر مودی کی جیت کی وجوہات اس سے متعلق عمومی ردعمل اور اس کی ان تقاریر سے کرتے ہیں جو اس نے مہاراشٹر کے ضمنی الیکشن کے دوران کیں اور جنھیں ہمارے دھرنوں کی طرح وہاں کے میڈیا نے براہ راست ٹیلی کاسٹ کیا۔

مڈل کلاس اور پڑھے لکھے طبقے کے خیال میں مودی کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ کانگریس کی گزشتہ حکومت کی خراب اور غیر تسلی بخش کارکردگی ہے نہ کہ اس کے پروگرام یا شخصیت کی مقبولیت (جس طرح ہمارے یہاں بھی بہت سے لوگ حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کی کامیابی کو (دھاندلی کے الزامات سے قطع نظر) پی پی پی کے پانچ سالہ دور کی ناکامی کے ردعمل سے تعبیر کرتے ہیں) ۔

میرے علم میں نہیں کہ بھارت میں ہمارے پیمرا جیسے کسی ادارے کا نام کیا ہے اور وہ اپنا کام کس قانون اور ضابطے کے تحت سرانجام دیتا ہے لیکن یہ طے ہے کہ پورے بھارت میں کسی پاکستانی چینل کے پروگرام براہ راست دکھانے کی اجازت نہیں ہے گزشتہ کچھ عرصے سے ایک بھارتی  ٹی وی نیٹ ورک نے پاکستانی پرائیویٹ چینلز کے ڈرامے  ایک نجی چینل سے دکھانے شروع کیے ہیں جنہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ان ڈراموں کے موضوعات‘ معیار اور پیش کش کے حوالے سے میں اپنے تحفظات کا اکثر و بیشتر اظہار کرتا رہتا ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ فنون لطیفہ کے حوالے سے اتنی کھلی فضا اور ایسی زبردست فلم انڈسٹری رکھنے کے باوجود بھارت کے ٹی وی ڈراموں کا معیار (مستثنیات سے قطع نظر) اس قدر گھٹیا ہے کہ ہمارے ان عمومی طور پر بی کلاس ڈراموں نے بھی وہاں کی پبلک کو اپنے پیچھے لگا لیا ہے (کم و بیش یہی صورت حال کچھ عرصہ قبل ہمارے یہاں ترکی کے اردو میں ڈب کیے ہوئے ڈراموں سے پیش آئی تھی) کچھ اندر کے لوگوں نے بتایا کہ پی ٹی وی سے بھی اس سلسلے میں بات کی گئی تھی مگر اس کے افسران کی روایتی عدم دلچسپی اور حکومتی سرخ فیتے کے معروف چکروں کے باعث بات آگے نہیں بڑھ سکی۔

اگر ایسا ہو جاتا تو شاید بھارتی ناظرین پاکستانی معاشرے کے مثبت پہلوؤں سے بہتر ڈراموں کے ذریعے نہ صرف زیادہ آگاہ ہوتے بلکہ ان کی وساطت سے نفرت کی اس دیوار میں بھی بڑے بڑے شگاف ڈالے جا سکتے تھے جس کو وہاں کے نیوز اور کرنٹ افیئرز کے چینل دن رات اٹھانے میں لگے ہوئے ہیں اگرچہ یہ آگ دونوں طرف لگی ہوئی ہے مگر بھارتی میڈیا کے یک طرفہ پروپیگنڈے اور پاکستان کے موقف تک عدم رسائی کے باعث وہاں کی پبلک تصویر کا صرف یہی روپ دیکھ پاتی ہے جو اسے دکھایا جاتا ہے اور یوں امن کی امید ایک حقیقت ہونے کے باوجود اس آگ کا ایندھن بن کر غلط فہمیوں کی راکھ کا ڈھیر بنتی چلی جاتی ہے، بدقسمتی سے ہمارا میڈیا اور بالخصوص بیشتر پرائیویٹ نیوز چینلز بھی اسی آگ کے شعلوں کو ہوا دینے میں عافیت محسوس کرتے ہیں کہ سمندر کی طرح اس کیڑے کا رزق بھی آگ میں لکھا گیا ہے۔

انڈین ٹی وی چینلز کی یہ پاکستان دشمنی اور سرکاری شہ پر کی جانے والی یہ الزام تراشیاں اپنی جگہ لیکن ان سے قطع نظر جو بات انتہائی لائق توجہ ہے وہ ان کے دفاتر اور اسٹوڈیوز کا ماحول ہے، ہمارے یہاں  پرائیویٹ نیٹ ورک  کے پاس اپنے باقاعدہ Purpose Built اور معیاری اسٹوڈیوز یا خوبصورت اور باقاعدہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سے دفاتر نہ ہونے کے برابر ہیں، اکثر بڑے  نیٹ ورک بھی عمومی طور پر کرائے کی عمارتوں‘ کام چلاؤ اسٹوڈیوز اور دوسرے یا تیسرے درجے کے انتہائی کم سہولیات کے حامل دفاتر سے گزارا کرتے ہیں جب کہ بھارت کے بیشتر چھوٹے ٹی وی چینلز بھی سہولیات اور ماحول کے اعتبار سے بہت اعلیٰ درجے کے ہیں۔

ایک اور بات جو اس بار بھی مشاہدے میں آئی وہ وہاں کے سیاسی رہنماؤں کے لباس اور طور اطوار کی سادگی ہے وہ لوگ نہ ہمارے لیڈروں کی  طرح بڑی بڑی کوٹھیاں‘ شاندار کاریں اور فرعونوں کو شرمانے والے حفاظتی اسکواڈ استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی انھیں بیش قیمت امپورٹڈ کپڑوں ٹائیوں‘ جوتوں‘ موبائیلوں اور گھڑیوں کا کامپلکس ہے۔ بیگم اختر ایوارڈ والی تقریب کے مہمان خاص کلچر کے منسٹر آف اسٹیٹ شری پدنائیک تھے وہ اس خاموشی اور انکسار کے ساتھ آئے اور سمٹ سکڑ کر میرے ساتھ والی نشست پر بیٹھ گئے کہ بہت دیر تک مجھے پتہ ہی نہیں چل سکا کہ یہ جو عام سے کرتے پاجامے اور بنڈی میں ملبوس چپل پہنے ہوئے عاجز سا بندہ ہے۔

یہ اس ملک کا مرکزی وزیر بھی ہوسکتا ہے۔ کم و بیش یہی صورت حال اگلے روز کے مہمان خصوصی کلچر ڈیپارٹمنٹ کے ڈی جی کے ضمن میں پیش آئی موصوف ایک عام سی پتلون قمیض میں ملبوس ایک پروقار مگر سادہ سی بیگم کے ساتھ آئے نہ کوئی دھوم دھڑکا ہوا اور نہ ہی (Stage) اسٹیج سے القابات کی وہ بارش جو ہمارے اٹھارویں گریڈ کے افسروں کے بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے جب کہ ہمارے مہاراجوں ان کے راج کماروں اور راج کماریوں کے پروٹوکول دیکھنے کے لائق ہیں۔

اب چلتے چلتے وہاں کے اردو ادب اور زبان کی صورت حال سے متعلق بھی ایک تاثر۔ اردو وہاں کی 24 سرکاری اور صوبائی زبانوں میں سے صرف ایک صوبے مقبوضہ کشمیر کی زبان ہے (جو عالمی قوانین کے مطابق ایک متنازعہ علاقہ ہے) سو اگر وہاں اردو زبان اس کا ادب اور ادیب اگر برے حالوں میں ہوں تو اس کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے بلاشبہ اردو زبان کو بھارت میں پیچ در پیچ مسائل کا سامنا ہے لیکن کیا وطن عزیز میں قومی اور سرکاری زبان کہلانے کے باوجود ہر حوالے سے اسے اتنی بھی اہمیت حاصل ہے جو بھارت کی صوبائی زبانوں کو انگریزی کے بعد حاصل ہے؟ میں اپنے اندر اس سوالیہ تاثر کی تفصیل میں جانے کی ہمت نہیں پاتا۔ فیصلہ آپ خود کیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔