اسلامی مزاحمت کے کارنامے (آخری حصہ)

صابر کربلائی  جمعرات 16 اکتوبر 2014

غزہ پر اسرائیلی مسلط کردہ اکیاون روزہ جنگ کے اختتام پر بہت سے اسرائیلیوں کا اعتراف ہے کہ صیہونی نظام کے فوج کی پرانی جنگیں اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی ہیں۔ اب ان کی فوجیں اپنی زمین پر جنگ نہیں لڑیں گی بلکہ اپنے مفادات اور ہم وطنوں سے پرے کہیں دور دشمن کی سرزمین پر ہوں گی جس میں دشمن کو نقصان اٹھانا پڑے گا جب کہ اندرونی محاذ نہایت پرامن اور پرسکون رہے گا اب کوئی خطرہ وہاں چھو کر بھی نہیں گزرے گا اور نہ ہی راکٹوں کی زد میں رہیں گے۔

یہاں تک کہ بم کے ٹکڑے بھی ان تک نہیں پہنچیں گے اور جنگ کی دھوم دھام سے بھی بے خبر رہیں گے اور اس کے بارے میں آگاہی ذرایع ابلاغ سے حاصل کریں گے یوں اس کے داخلی محاذ محفوظ رہیں گے اور انھیں طاقت پہنچائیں گے اور مزید دشمنی کے لیے انھیں عزم اور حوصلہ فراہم کریں گے، مگر اسرائیل کی طرف سے غزہ کی پٹی پر چھیڑی جانے والی51 روزہ جنگ نے صیہونی دشمن کے اندازوں اور تخمینوں پر پانی پھیر دیا۔ گزشتہ اسرائیلی جنگوں میں اسرائیلی باشندے چیختے چلاتے ہوئے اپنی حکومت اور فوجی حکام سے مطالبہ کیا کرتے تھے کہ ان فضولیات کو بند کر کے ہر قسم کی فوجی مہم جوئی سے ہاتھ اٹھائیں اور حقائق سے پردہ اٹھائیں۔

جب کہ مزاحمتی تحریک کے لیے موجودہ صورت حال قدیم حالت سے بالکل مختلف ہے، اب اس کے بازو میں طاقت آئی ہے، اس کے مٹھی محکم اور مضبوط ہے اس کے پاس کافی اسلحہ ہے اور اب مزید وار کرنے اور دشمن کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت بھی موجود ہے، اب فلسطینی مزاحمت مزید اس بات کے لیے تیار نہیں کہ جنگ اپنے میدان میں لڑی جائے، اب جنگ کی ہولناکیوں کو دشمن کی سرزمین پر منتقل کرنے کی طاقت موجود ہے، اب ڈسنے والے سانپوں کو دشمنوں کے بلوں میں چھوڑنے کی قدرت بھی موجود ہے، تا کہ دشمن بھی سختیوں اور مشکلات کا مزہ اٹھائیں، خوف اور پریشانیوں میں مبتلا رہیں اور اپنی قیادت پر زور ڈالیں کہ جلد از جلد جنگ بندی کر کے کسی حل تک پہنچا جائے جس سے انھیں آرام و سکون مل سکے اور فوج و حکومت کی وجہ سے چھن جانے والے امن و سکون دوبارہ میسر آ سکے۔

اسرائیل کے عسکری تجزیہ نگار، عاموس ہرئیل انھی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنی فوج پر تنقید کرتا ہے کہ وہ اب بھی نابینا ہے اور تمیز کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے، سیل کی طرح ہوائیں مارتا ہے جب کہ اس کے پاس کوئی خاص ہدف نہیں جس پر بمباری کرے، حتیٰ اسرائیلی افواج کو فلسطینی مزاحمت کے راکٹ لانچروں اور راکٹ فائر کرنے کے مقامات کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے لہذا صیہونی افواج نے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا جس کی وجہ سے شہریوں کی اموات کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔

اسرائیلی ٹی وی چینل ٹو کی خاتون نیوز کاسٹر نے کہا کہ ان (اسرائیل) کی حکومت اور فوج نے اسرائیل کے عوام کو گمراہ کیا ہے جب کہ انھیں کہا گیا تھا کہ اب غزہ تنہا ہے اور وہاں تک پہنچ نہیں سکتے، حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل ہی ہے جو بم اور میزائل برسا رہا ہے، جب کہ دنیا والے سن نہیں پا رہے ہیں، اخبار ہارتس کا کہنا ہے: غزہ کے شہروں پر برسنے والے میزائیلی حملوں کے جاری رہنے کی وجہ سے ملک کو سنگین اقتصادی نقصانات لاحق ہوئے ہیں اخبار کا مزید کہنا ہے کہ میزائیلی حملوں کے منفی اثرات اسرائیلی اسٹاک ایکسچینج پر بھی ظاہر ہوئے ہیں۔

اخبار مزید لکھتا ہے کہ اب ملک کے دیگر علاقے بھی فلسطینی مزاحمت کاروں کے میزائلوں کی زد پر آئے ہیں اور مزاحمت کاروں کے میزائل کسی پیشگی اطلاع کے بغیر معقول توقعات کے ساتھ ملک کے ہر کونے تک پہنچ رہے ہیں اب پورا اسرائیل القسام کے میزائلوں کے ا ہداف پر ہے۔ جب کہ آہنی گنبد والے اینٹی میزائل سسٹم ملک کے شمال، مرکز اور جنوبی علاقوں پر داغے جانے والے میزائلوں کو روکنے میں ناکام ہو رہے ہیں، جب کہ لوگوں کی توقعات ہیں کہ یہ سسٹم آنے والے تمام میزائلوں کو تباہ کر دیں گے اور کوئی بھی میزائل اس کی زد سے بچ نہیں سکتا۔

اخبار نے آہنی گنبد والے سسٹم (جاسوسی اور نگرانی کے نظام)  پر اربوں ڈالر خرچ کرنے والی اسرائیلی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ سب ہوائی باتیں تھیں جو غزہ پر اسرائیلی حملوں کے جواب میں بہہ گئیں، اور غاصب اسرائیل کے تمام شہروں پر بارش کی طرح میزائل برستے رہے جو کہ گزشتہ جنگوں کی تاریخ کے برخلاف ایک حقیقت ہے۔

اخبار نے مزید لکھا ہے، ملک کا آدھا حصہ خطرات کی زد میں رہا ہے اور جنگ کے دنوں میں 30 لاکھ اسرائیلی رات کو اپنے گھروں میں آرام سے سو نہیں سکتے تھے اور نہ معمول کی زندگی گزار سکتے تھے، جب کہ یہ وہی لوگ ہیں جو ٹیکس اور دیگر ذرایع سے امن کے حصول کے لیے حکومت کے تمام اخراجات کو فراہم کرتے ہیں، یہ ان باتوں میں سے چند ایک ہیں جو خفیہ یا اعلانیہ اظہار کرتے ہیں، وہ درد، تکلیف کا احساس کرتے ہیں اور شکایتوں اور ناراضگی کے اظہار کرتے ہیں۔

حرکت جہاد اسلامی فلسطین کے مسلح ونگ القدس فورس نے اسرائیل ’’ثابت قدم پہاڑ‘‘ نامی اسرائیلی آپریشن جو کہ غزہ پر چڑھائی کے لیے رکھا گیا تھا اس کے خلاف اپنی فلسطینی مزاحمتی آپریشن کا نام ’’البنیان المرصوص‘‘  رکھا۔ یقینا’’ القدس فورس‘‘ نے اس نام کو قرآنی آیت سے برکت حاصل کرنے کے لیے رکھا تھا اور خدا ہی ہے جو بازو سے بازو ملانے والوں، کاندھے سے کاندھے ملانے والوں، آپس میں تعاون اور مدد کرنے والوں، اتحاد و اتفاق قائم رکھنے والوں، اور وہ لوگ جو کلمہ واحدہ کے تحت جمع ہو گئے، باہمی مضبوط عزم  و ارادے کا اظہار کرنیوالوں اور وہ لوگ جن کی جانیں یکجان ہو گیئں ان کی روحیں بلندی کے ارفع منازل پا لیں اور ہر اختلاف اور نااتفاقی سے بالاتر ہونے کی نصرت فرماتا ہے مگر خدا کی نصرت اور امداد انھیں نصیب نہ ہو گی جنہوں نے اختلاف کی آگ بھڑکائی اور جھگڑے اور فساد میں پڑ گئے، تفرقہ اور نزاع میں الجھے، اس طرح باہم لڑنے جھگڑنے والے بھائیوں کو بھی یہ فیض نہیں مل سکتا۔

صیہونی جارحیت پہاڑ ’’البنیان المرصوص‘‘  کی صداقت اور حقانیت کو ثابت کرتی ہے اور البنیان المرصوص پر فرض ہے کہ اس کی صحیح مصداق بنے رہے کیونکہ اس کے بغیر جارحیت اور مظالم کا سدباب ممکن نہیں۔ اور اس کے بغیر دشمن کا سامنا کرنے کی طاقت نہیں اسی وجہ سے فلسطینی مزاحمت کی تمام جماعتوں نے اس پر اتفاق کیا، کیونکہ مزاحمتی تحریکیں دشمن کی جارحیت کو روکنے کے لیے یکجا ہوگئیں اسی مقصد کے حصول کے لیے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیا گیا، اب فلسطینی قوم کو متحد ہوکر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے، اسی وجہ سے دشمن کو غزہ لوہے کا چنا ثابت ہوا اور اسرائیل کی تمام تر جارحیت کے باوجود مزاحمت’’ البنیان المرصوص‘‘ اس کے لیے فولادی دیوار بن کر ابھرا اور انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا نصیب ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔