(پاکستان ایک نظر میں) - صرف پولیو ہی متازعہ کیوں؟

محمد نعیم  جمعرات 16 اکتوبر 2014
کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ ہم کو ڈاکٹر نے کوئی دوا دی ہو اور ہم نے اس کو استعمال کرنے سے قبل کسی عالم دین کو دکھایا ہو۔ اگر مرض کا خاتمہ کرنا ہے تو علما کے فتوے سے زیادہ اِس مہم کے حوالے سے لوگوں کے دلوں میں موجود خدشات کے خاتمے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ ہم کو ڈاکٹر نے کوئی دوا دی ہو اور ہم نے اس کو استعمال کرنے سے قبل کسی عالم دین کو دکھایا ہو۔ اگر مرض کا خاتمہ کرنا ہے تو علما کے فتوے سے زیادہ اِس مہم کے حوالے سے لوگوں کے دلوں میں موجود خدشات کے خاتمے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

1998 میں عالمی ادارہ صحت WHOاور یونیسف نے پاکستان میں انسداد پولیو مہم کے تحت قطروں کی صورت میں ویکسین پلانا شروع کی۔ تب سے لے کر اب تک پاکستان کے مختلف طبقات میں ’’پولیو ویکسین‘‘کے حوالے سے مختلف شکوک و شہبات پائے جا رہے ہیں۔ جو پولیو کے قطروں کے خلاف ایک مہم اور پروپیگنڈے کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ جس کے باعث اب تک پاکستان سے پولیو جیسی خطرناک اور اپاہج بنانے والی بیماری کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔

خاتمہ تو دور کی بات ہے سال 2014میں پولیو کیسز میں مزید اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ جس کے باعث عالمی برادری بھی تشویش میں مبتلا ہے۔ اب تو کئی ماہ سے پاکستان سے دیگر ممالک کے لیے سفر کرنے والوں کے لیے پولیو کی ویکسین پینا لازم قرار دے دیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اگر کسی دوسرے ملک کا بھی باشندہ اگر پاکستان میں کچھ وقت گزارتا ہے تو واپسی کے سفر سے قبل اس کے لیے بھی پولیو کی ویکسین پینا ضروری ہے۔ کیوں کہ ڈبلیو ایچ او کے نظر میں پاکستان سے پولیو کے وائرس دیگرایسے ممالک میں بھی منتقل ہو رہے ہیں جنہیں پولیو فری قرار دیا جا چکا ہے۔

پاکستان میں انسداد پولیو مہم پہلے ہی سے موجود شکوک و شبہات کے باعث کافی سست روی سے چل رہی تھی۔ لیکن ایبٹ آبادآپریشن کے لیے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ذریعے ایک جعلی ویکسی نیشن مہم چلانے کے بعد صورتحال بہت زیادہ خطرناک ہو چکی ہے۔

نیشنل پولیو سیل کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں پولیو کیسوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال اب تک 184سے زائد کیس سامنے آ چکے ہیں۔ جن میں سے گزشتہ ماہ ایک ہی دن میں 10کیسز سامنے آنا خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ گزشتہ برس پاکستان میں پولیو کے 93کیس رپورٹ ہوئے، اور2012میں یہ تعداد صرف54رہ گئی تھی۔ 

پولیو کیسز کے اس بڑھتے ہوئے تناسب کو اگر ایبٹ آباد آپریشن کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی ویکسی نیشن مہم کی آڑ میں کی گئی امریکی جاسوسی کی مہم جوئی کے بعد انسداد پولیو مہم کئی بار تعطل کا شکار ہو چکی ہے اور پولیو ورکرز پر ہونے والے ہلاکت خیز حملوں کا آغاز اور اس میں شدت بھی اسی واقعے کے بعد آئی ہے۔ یوں پاکستان کو پوری دنیا میں پولیو کے پھیلاو کا دوش دینے والے عالمی ادارے اور بین الاقوامی برادری اگر اس بات کو تسلیم کر لے تو اچھا ہو گا کہ انسداد پولیو مہم کو شدت پسندوں سے زیادہ امریکہ کی پاکستان میں مداخلت نے متاثر کیا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت مزید عالمی پابندیوں اور دباو سے بچنے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے اور ڈبلیو ایچ او اس حوالے سے کن سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ستمبر کے اواخر میں WHO کی جانب سے کراچی میں سندھ و بلوچستان کے علماء اور دینی رسائل و جرائد کے مدیران کے لیے پولیوویکسین کے متعلق ایک آگاہی پروگرام منعقد کیا گیا۔ وفاق المدارس العربیہ کے ناظم اعلیٰ قاری حنیف جالندھری کی زیر صدارت اس دوروزہ اجلاس میں راقم نے بھی شرکت کی۔

اجلاس میں ایک عام تاثر کی کلی طور پر نفی کی گئی اور علماء نے WHO کے نمائندگان پر یہ واضح کیا کہ انسداد پولیو مہم میں مذہبی عناصر رکاوٹ نہیں بلکہ عوام کے خدشات طبی نوعیت کے ہیں۔ اجلاس میں علماء نے یہ بھی واضح کیا کہ نائیجریا، امریکہ سمیت مختلف ممالک کے طبی محققین کی جانب سے منظر عام پر آنے والی تحقیقات نے پولیو ویکسین میں بانجھ پن، ایڈز اور پولیو سمیت دیگر خطرناک بیماریوں کا سبب قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی لوگوں میں پولیو ویکسین کے حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں۔ لیکن دیکھنے میں آ رہا ہے کہ WHO، یونیسف اور حکومت پاکستان عوامی اطمینان کے لیے صرف فتوے لینے پر ہی اکتفا کر رہی ہے۔ اجلاس میں علماء وصحافیوں نے یہ تجاویز بھی دیں کہ پولیو کے حوالے سے ملک کے ناموڈاکٹرز کے انٹرویوز الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں دیئے جائیں۔ اجلاس میں ایک قابل ذکر تجویز یہ بھی دی گئی کہ چونکہ پاکستان میں مختلف دینی جماعتوں کے رفاہی ادارے موجود ہیں اور مختلف حادثات و آفات میں ان کی امدادی و بحالی کی سرگرمیاں بہت تیز ہوتی ہیں۔ عوام بھی ان دینی این جی اوز پر اعتماد بھی کرتی ہے۔اگر پولیو ویکسینیشن کی مہم ان رفاہی اداروں کے تحت چلائی جائے تو عوامی شکوک و شبہات کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں بھی کئی ماہرین اس بات کی تجویز دے چکے ہیں کہ پولیو کی ویکسین کو قطروں کے بجائے انجکشن کی صورت میں دیا جائے اس طرح یہ زیادہ موثر ہو گی۔ 

کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ ہم کو ڈاکٹر نے کوئی دوا دی ہو اور ہم نے اس کو استعمال کرنے سے قبل کسی عالم دین کو دکھایا ہو۔ یا کبھی کوئی دینی مسئلہ پوچھنے ہم کسی ڈاکٹر کے پاس گئے ہوں؟اگر عام معاملات میں ایسا نہیں ہے تو پولیو کے حوالے سے حکومت یہ مہم کیوں چلا رہی ہے۔میں ٹی وی کی اسکرین پر نظر دوڑاتا ہوں تو کوئی بڑے عالم دین ہاتھ میں پولیو کی وائل پکڑے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ آپ اپنے بچوں کو پولیو کی قطرے ضرور پلائیں۔ ریڈیو و اخبارات میں بھی یہی سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے۔ ادویات کے محفوظ یا مضر ہونے کے حوالے سے بتانا ڈاکٹرز کا کام ہے۔ جب ٹوتھ پیسٹ کے اشتہار میں ڈاکٹر آ کر بتاتا ہے کہ اس پیسٹ میں فلاں چیز سے آپ کے دانت محفوظ و مضبوط ہوں گے۔ صابن کے اشتہار میں ڈاکٹر بتاتا ہے کہ کون سا صابن آپ کو جراثیم سے پاک رکھے گا۔ تو پھر پولیو جیسی خطرناک بیماری کے حوالے سے کسی اشتہار میں ڈاکٹر کیوں نظر نہیں آتے؟۔

2 اکتوبر کے روزنامہ ایکسپریس و دیگر اخبارات میں اسلام آباد میں ہونے والی بین الاقوامی علماء کانفرنس کا فتویٰ آدھے صفحے پر شایع کیا گیا۔ پولیو سے متعلق اس فتویٰ کا اشتہار یقیناًبہت زیادہ لاگت کا ہو گا۔ تاہم اک ذرہ سی غلطی بسا اوقات پوری تحریر سے اعتماد کو ختم کر دیتی ہے۔اس فتوے میں بھی کچھ ایسا ہی پایا گیا ہے۔مفتی عدنان کاکاخیل کے نام کے سامنے دستخط کسی اور مفتی صاحب کے تھے، جبکہ مولانا عباس کے سامنے محمد اسماعیل کے دستخط تھے۔ حالانکہ ڈبلیو ایچ او، یونیسیف کے نمائندوں کو دعوۃا اکیڈیمی کراچی میں منعقدہ ایک پروگرام میں ان غلطیوں کے بارے میں آگاہ بھی کیا جا چکا ہے۔لیکن لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی تصحیح کی کوشش نہیں کی گئی۔

پولیو کی بیماری عالمی سطح کا نہایت ہی ایک سنگین معاملہ ہے۔ پولیو سے پاک معاشرہ ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں کی صحت کے لیے ضروری ہے۔اس مہم کو نہایت ہی منظم اور مربوط اندازمیں چلایا جانا چاہئے۔ محکمہ صحت ، حکومت پاکستان سمیت انسداد پولیو کے عالمی اداروں کو اس بیماری سے بچاو کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا اس مہم کو کامیاب بنانے کے لیے انفرادی و اجتماعی طور پر معاشرے میں موجود تمام خدشات، تحفظات کو دور کرنے کے لیے تمام این جی اووز، سیاسی، مذہبی، سماجی، معاشرتی ، انسانی ، جماعتوں سمیت معاشرے کے ہر فرد کو باہمی اشتراک و تعاون کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔ ایسا کر کے ہی ہم پاکستان کو پولیو فری ملک بنا سکتے ہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

محمد نعیم

محمد نعیم

بلاگر کالم نگار اور رکن کراچی یونین آف جرنلسٹ ہیں۔ کراچی اپ ڈیٹس میں بحیثیت سب ایڈیٹر کام کررہے ہیں اور بلاگز کے ذریعے تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔ ٹوئٹر پررابطہ naeemtabssum@

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔