(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - دارالامان سے ایک خط

شہباز علی خان  جمعرات 16 اکتوبر 2014
مجھے خود پتہ نہیں چلاکہ کب ہماری بات چیت کا سلسلہ شروع ہو گیااور معاملات آپ سے تم اور تم سے تو تک پہنچ گئے۔ فوٹو فائل

مجھے خود پتہ نہیں چلاکہ کب ہماری بات چیت کا سلسلہ شروع ہو گیااور معاملات آپ سے تم اور تم سے تو تک پہنچ گئے۔ فوٹو فائل

میری بدبختی کا آغاز اس شام ہوا جب میں ایم ایس سی میں اچھے نمبروں سے پاس ہونے کی خوشی میں سرشار تھی اور سب لوگوں سے مبارکباد یں وصول کررہی تھی کہ میرے فون پر ایک رانگ کال آئی اور میرے منع کرنے پر اس نے مہذب انداز سے فون بند کر دیا مگر کچھ دنوں بعد اسی نمبر سے کبھی مذہبی تو کبھی عام سے میسجز آنے لگے، میں نے ایک ماہ تک کوئی رپلائی نہیں کیا۔ پھر ایک دن میں نے میسج کیا کہ وہ مجھے تنگ نہ کرے اور بس اس کے بعد جیسے ہی رات ہوتی اس کے میسجز آنا شروع ہوجاتے۔ مجھے خود پتہ نہیں چلاکہ کب ہماری بات چیت کا سلسلہ شروع ہو گیااور معاملات آپ سے تم اور تم سے تو تک پہنچ گئے۔

اس نے اپنے بارے میں جو نقشہ کھینچا وہ اس قدر جذباتی تھا کہ میں اس میں بہتی چلی گئی کہ وہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہے ،مقامی اسپتال میں ملازمت کرتا ہے اس کے والدین میں شروع سے ہی نہیں بنی اور وہ بچپن میں محبت اور پیار سے محروم رہا آج اسکے پاس سب کچھ ہے اگر کمی ہے تو ایک ساتھی کی جو اس کی جذباتی محرومیوں کو دور کر سکے۔

مگر آج پتہ چلا کہ وہ تو اس کی ایک چال تھی ۔ہمیں بات کرتے کرتے کافی ماہ گزر گئے تھے او ر ایک دن اس نے شادی کے لئے مجھے پروپوز کردیا۔میں حیرت زدہ رہ گئی، لیکن میں اس کے چنگل میں اس طرح پھنس چکی تھی کہ وہ جو مجھے دکھاتا وہی مجھے صحیح لگتا۔ میری اپنی عقل نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا تھا، مجھے علم تھا کہ میرے والدین ذات برادری کے شکنجوں کی وجہ سے میری اس سے شادی پر راضی نہیں ہونگے۔ لہذا ایک دن ہم نے کورٹ میرج کرلی اس نے مجھے دو دن تک ایک درمیانے درجے کے ہوٹل میں رکھا اور پھر مجھے پہلا جھٹکا تب لگا جب اس نے کہا کہ میں اپنے والدین کے گھرچلی جاؤں کیونکہ وہ کچھ گھریلو مسائل کی وجہ سے فی الحال مجھے اپنے گھر نہیں لے جا سکتا ہے ۔بحث نے جب زیادہ طول پکڑا تو وہ ایک دو روز کا وعدہ کر کے مجھے چھوڑ کر چلا گیا، دو دن انتظار کیا وہ نہ آیا تومیں دارلاامان چلی گئی۔

جہاں مجھے علم ہوا کہ میرے والدین نے اس لڑکے پر مجھے اغواء کرنے کا پرچہ کٹوادیا ہے اور پولیس نے جگہ جگہ ہماری تلاش میں چھاپے مارنا شروع کردیئے ہیں۔ اسی دوران مجھ پر یہ خبر سن کر آسمان ٹوٹ پڑا کہ میرا مجازی خدا پہلے سے شادی شدہ، دو بچوں کا باپ اور ایک میڈیکل ا سٹور پر سیلز مین ہے ۔ میری زندگی کے تاریک سائے اس وقت سیاہ رات میں بدل گئے جب میرے والدین مجھے زبردستی اٹھا کر گھر لے گئے اور خاندان کے بڑوں نے مجھے بہت مار۔میرے بخت کی سیاہی نے میری بڑی بہن کی منگنی بھی تڑوا دی تھی اور دو چھوٹی بہنیں ایک بھائی کے ہونے والے رشتوں پر بھی سوالیہ نشان پڑ چکا تھا ۔

مختصر یہ کہ جو گھر کا نہیں ہوتا وہ گھاٹ کا بھی نہیں رہتا اسی دوران میرے مجازی خدا نے مقدمے ،پولیس اور میرے خاندان کے ڈر سے مجھے طلاق بجھوا دی، اگلے تین ماہ مجھے با مشکل گھر والوں نے برداشت کیا گیا اور پھر ایک نفسیاتی علاج کے اسپتال سے ہو کر اب میں پھر دارالامان میں ہوں۔ ملازمت کی بڑی کوشش کی مگر یہ چھوٹا سا شہر ہے اور میرا اعمال نامہ میرے ساتھ، زندوں میں ہوں نہ مردوں میں۔ وہ کیاکہتے ہیں کہ ایک غم کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو۔

صاحب ،آپ کیا سمجھے میری داستان ختم ہو گئی؟ ٹھہریں ۔آپ سارے نازیبا القابات مجھے دینے میں کسی حد تک حق بجانب ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر میرے والد اپنی اعلی تعلیم یافتہ، خوبصورت بیٹی کا رشتہ اپنے میٹرک پاس بنک میں ملازم آفس بوائے بھتیجے اور میری والدہ اپنے پرائمری پاس بھانجے سے کرنے کی ضد نہ کرتے کیونکہ ہماری برادری میں دور دور تک ان سے بڑھ کر پڑھا لکھا کوئی نہیں ہے اور برادری سے باہر شادی ایسے ہی ہے جیسے دو مختلف مذاہب کا جوڑنا،تو شاید میں بھی اس راستے پر نہ چلتی جس نے مجھے تاریک راہوں کا مسافر بنا دیا۔

آپ کو میری باتیں بری لگی ہوں تو معذرت ۔اور ساتھ ہی شکریہ کہ آپ نے میری ساری باتیں برداشت کیں، مگر میری ایک التجا ہے کہ میرا خط کسی اخباریا ٹی وی والوں کو ضرور بھیجیں تاکہ کوئی اور ریحانہ تباہ ہونے سے بچ جائے یا شاید کسی ریحانہ کے والدین کو بھی کچھ سبق مل جائے۔

فقط؛
ریحانہ ( دارلا امان)

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

شہباز علی خان

شہباز علی خان

آپ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹر ہیں، اور فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔