افغان حکومت: طالبان اور پاکستان

ایڈیٹوریل  جمعرات 16 اکتوبر 2014
امن لشکر پر یہ حملہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل بھی کئی بار اسے نشانہ بنایا گیا۔ فوٹو فائل

امن لشکر پر یہ حملہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل بھی کئی بار اسے نشانہ بنایا گیا۔ فوٹو فائل

خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ میں امن کمیٹی کے اجلاس میں خود کش حملے کے نتیجے میں7 افراد جاں بحق 19زخمی ہو گئے۔ صدر ممنون حسین‘ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف‘ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف‘ گورنر اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواپرویز خٹک‘ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور سراج الحق سمیت دیگر نے دھماکے کی مذمت کی ہے۔ دوسری جانب مہمند ایجنسی کی تحصیل صافی میں نا معلوم افراد نے رات کے وقت امن کمیٹی کی چوکی پر حملہ کر دیا ۔

جس سے ایک رضا کار ہلاک اور دوسرا زخمی ہو گیا۔ جنوبی وزیرستان میں ایف سی کا قافلہ انگور اڈہ سے وانا کی جانب جا رہا تھا کہ سڑک کنارے نصب بارودی مواد کے دو دھماکوں سے دس ایف سی اہلکار زخمی ہوگئے۔ یہ واقعات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دہشت گرد اب بھی اس علاقے میں موجود اور اپنی تخریبی کارروائیاں کر کے امن و امان کا مسئلہ پیدا کر رہے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب میں فوج نے دہشت گردوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا اور ان کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تباہ کر دیا ہے مگر جس انداز میں دہشت گرد اب بھی اس علاقے میں اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں۔

اس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ ان کے خاتمے کے لیے بڑے پیمانے پر اور طویل عرصے تک جنگ لڑنا پڑے گی۔ امن لشکر کے اجلاس پر حملہ دہشت گردوں کی جانب سے ان پرامن لوگوں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش ہے جو دہشت گردی کے خلاف حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ امن لشکر پر یہ حملہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل بھی کئی بار اسے نشانہ بنایا گیا۔ سیکیورٹی اداروں پر بھی حملوں کا سلسلہ جاری ہے اپنی ان تمام کارروائیوں کے باوجود دہشت گرد نہ تو سیکیورٹی اداروں ہی کا عزم متزلزل کر سکے اور نہ حکومت سے تعاون کرنے والے لوگوں کو امن کے راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔

دوسری جانب نئی افغان حکومت نے افغانستان میں قیام امن کے لیے افغان طالبان سے بات چیت کے آغاز کا عندیہ دیا اور اس سلسلے میں پاکستان سے مدد مانگی ہے۔ اطلاعات کے مطابق افغان صدر اشرف غنی نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان نئی افغان ’’نیشنل یونٹی حکومت‘‘ اور طالبان کے درمیان مفاہمت کے سلسلے میں بات چیت کے آغاز کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ افغان حکومت کا خیال ہے کہ افغان طالبان سے بات چیت کے سلسلے میں پاکستان ان کے ساتھ اپنے ماضی کے روابط استعمال میں لا کر کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات افغان حکومت کا داخلی معاملہ ہے اگر وہ بغیر کسی دباؤ کے قومی وقار اور خودمختاری کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھے تو وہ اس مسئلے کو خود بہتر طور پر حل کر سکتی ہے۔

پاکستان خود اپنے علاقے میں حکومت کے خلاف برسرپیکار طالبان گروہوں سے نبرد آزمائی میں مصروف ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ افغانستان سمیت پورے خطے میں امن کا خواہاں ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے افغان حکومت کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی بارہا کوشش کی ہے مگر ماضی کی افغان حکومت جس کے صدر حامد کرزئی تھے‘ نے مثبت کردار ادا کرنے کے  بجائے پاکستان پر الزامات کا سلسلہ شروع کر دیا اور بات چیت کے عمل کو کبھی آگے نہیں بڑھنے دیا، ان کا کردار اس سلسلے میں منفی رہا۔ ماضی میں افغان طالبان نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا کے ساتھ قیام امن کے لیے ابتدائی نوعیت کی بات چیت کا آغاز کیا تو حامد کرزئی نے مذاکرات کے آغاز کے لیے افغان طالبان کی جانب سے دوحہ میں دفتر کھولنے کے عمل پر اعتراضات اٹھانے شروع کر دیے۔

ان کے اس منفی کردار کے باعث بات چیت کا عمل آگے نہ بڑھ سکا۔ جب حامد کرزئی نے یہ محسوس کیا کہ طالبان ان کی حکومت کے لیے مسلسل خطرہ ہیں اور وہ کسی بھی طرح ان پر قابو پانے کی سکت نہیں رکھتے تو انھوں نے ان کے ساتھ بات چیت کی کوشش کی اور اس سلسلے میں پاکستانی حکومت سے بھی مدد مانگی جس کے جواب میں پاکستان نے خطے میں قیام امن کے لیے مثبت کردار ادا کرتے ہوئے اپنی جیلوں میں اسیر کئی طالبان قیدیوں کو رہا کر دیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مفاہمتی عمل کے لیے ساز گار ماحول قائم ہو سکے تاہم طالبان کو یہ محسوس ہوا کہ افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ کرزئی حکومت ایک کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہی تھی اور اصل طاقت امریکا کے پاس تھی اس لیے انھوں نے امریکا کو ہی اصل فریق سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ بات چیت کا عمل شروع کیا۔

کرزئی حکومت کو بھی جلد ہی اپنی بے بسی اور کم مائیگی کا احساس ہوگیا تو اس نے قیام امن کی کوششوں کو آگے بڑھانے کے بجائے پاکستان پر الزامات کا ہتھکنڈا استعمال کرتے ہوئے انھیں سبوتاژ کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ افغانستان میں دیر پا امن کا قیام وسیع ترمفاہمتی عمل کی کامیابی ہی سے ممکن ہے لہٰذا اب نئی افغان حکومت نے طالبان سے مذاکرات کے لیے پاکستان سے تعاون مانگنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے تو یہ قابل تحسین ہے مگر اسے ان تمام غلط فہمیوں کا ازالہ اور ان رکاوٹوں کو ختم کرنا ہو گا جو سابق کرزئی حکومت نے پیدا کی تھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔