لا آف یونیورس اور معاشی غلام عوام

خالد گورایا  جمعـء 17 اکتوبر 2014
k_goraya@yahoo.com

[email protected]

کائنات کا ہر ذرہ اور بڑا جسم لا آف یونیورس کے تابع ہے ۔ تمام اشیا ترتیب و ترکیب اور منظم طریقے سے حرکت و عمل کررہی ہیں ۔ ترتیب Classification سے جو شے یا جسم انحراف کرتا ہے وہ اپنا مقام، شکل،عمل ساخت کھو بیٹھتا ہے ۔ یعنی سابقہ خصوصیات کھو دیتا ہے ۔ کرہ ارض پر ہر شے دورانیہ اپنی ساخت وبناوٹ کے مطابق پورا کر رہی ہے ۔ (1) انسان اپنے داخلی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے خارجی دنیا میں تبدیلیاں پیدا کرتا ہے ۔(2) جب خارجی اشیا انسانی داخلی تقاضوں کے مطابق پورا نہیں اترتیں تو انسان جدوجہد کرکے خارجی دنیا میں مزید تبدیلیاں پیدا کرکے اپنے داخلی تقاضوں کو پورا کرتا ہے ۔

(3) انسان جب خارجی دنیا میں تبدیلیاں پیدا کرتا ہے اور اس دوران انسان کے نظریات،خیالات، تصورات بھی تبدیل ہوجاتے ہیں اس طرح گود در گود انسان کے نظریات تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔ (4)۔ خارجی دنیا اور داخلی تقاضوں کے درمیان نظریات، خیالات، تصورات میں توازن برقرار نہ رہے تو انسان یا معاشرے ’’غیر یقینیت‘‘ کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ ان معاشروں میں انسان ’’تجرباتی تخلیق‘‘ کے عمل سے بھی کٹ جاتا ہے کیونکہ غیر ضروری ماضی کے تصوری، خیالی، روایت کے کلچر میں انسان صدیوں پیچھے تصوری دنیا میں رہ رہا ہوتا ہے اور اس کا جسم گود درگود عمل کرتا ہوا صدیوں آگے آچکا ہوتا ہے۔ کائنات میں ہر شے حرکت پذیر ہے ۔ خدا کچھ بھی عدم سے وجود میں لاسکتا ہے ۔ انسان کا مقام ’’اشرف المخلوقات‘‘ ہونے کی وجہ سے انسان صرف ’’تجرباتی تخلیق‘‘ ہی کرسکتا ہے ۔ خدا کی پیدا کردہ کائنات میں انسان اپنے حواسوں سے مشاہدہ اور تجربہ حاصل کرتا ہے ۔

میری گود میں میری اولاد، اس طرح گود در گود زندگی منتقل ہو رہی ہے ۔ ہر جاندار اپنی نفی ہونے سے قبل اپنی گود کا عمل پورا کرتا ہے ۔  لا آف یونیورس میں کرہ ارض پر ہر نوع کو اس کی بقا اور زندہ رہنے کی ضمانت دی گئی ہے ۔  آگ پر دیگچی کا ڈھکن بھاپ کی قوت سے ہلتا تھا ۔ ہزاروں انسانوں نے اس عمل کو دیکھا ہوگا ۔ 1698ء میں تھامس سیورے نے بھاپ کی قوت کو استعمال کرتے ہوئے بھاپ انجن ایجاد کیا ۔ 1712 میں تھامس نیوکومن نے بھاپ انجن کو مزید بہتر بنایا ۔ اس بھاپ پمپ سے کانوں کے اندر سے پانی کھینچنے کا کام لیا جاتا تھا ۔ پھر جیمز واٹ نے 1764ء میں پہلے سے بہتر بھاپ انجن تیار کرلیا ۔

1781ء میں ہورن بلوور نے مزید بہتر بھاپ انجن بنایا ۔ 1803ء میں رچرڈ ٹریوی تھک نے بھاپ کی قوت سے ریل کا انجن چلایا اور 1829ء میں جارج اسٹیفن سن پہلے سے بہتر انجن، ریل گاڑی اور پٹری بناکر ریل گاڑی کی صنعت کی بنیاد رکھی۔ جب بھاپ انجن کو 1712ء میں تھامس نیوکرمن نے مزید بہتر بنایا تو اس کے بعد 1733ء میں جون کے (Kay) فلائنگ شٹل ایجاد کرلیا اور ایڈمنٹر کارٹ رائٹ نے 1785-86ء میں بھاپ کھڈی ایجاد کر کے کپڑے کے صنعتی کلچر کی بنیاد رکھی ۔

انسان کائنات میں تمام معلوم حیاتیات سے بڑھ کر اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہے ۔ اس کے باوجود دنیا کے تمام معاشروں یا ملکوں میں چند لوگ تمام تر اعلیٰ زندگی کی سہولتوں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اکثریتی عوام غربت زدہ زندگی گزار رہے ہیں کیا یہ قانون قدرت ہے؟ صنعتی کلچر کی گود سے صنعتکاروں نے جنم لیا ۔ جاگیرداروں کے مقابلے میں معاشروں میں صنعتکار تیزی سے امیر ہوتے چلے گئے اور سرمایہ کی قوت سے ریاستی کردار میں داخل ہوتے گئے ۔ جمہوری کلچر کے رواج پانے کا فائدہ بھی جاگیرداروں، سرمایہ کاروں  نے حاصل کیا ۔ اب سرمایہ کار، جاگیردار، گروہ بندیوں یا پارٹیوں کی شکل میں آمنے سامنے آتے ہیں اور پھر الیکشن میں ایک دوسرے پر الزامات لگاکر عوام کی حمایت عوام کے معاشی و سماجی مسائل حل کرنے کے وعدوں سے حاصل کرتے ہیں اور ریاست پر قبضہ یعنی ریاستی یا ملکی وسائل و قانون پر قابض ہوکر اکثریتی عوام کی خوشحالی نفی در نفی کرتے ہیں غربت لا آف یونیورس یا قدرت کی طرف سے نہیں ہے ۔

بادشاہی، نوابی، سرداری، جاگیرداری سسٹم نے عوام کو معاشی غلام بنالیا ۔ اس معاشی غلامی کے خلاف 27 اگست 1789ء کو فرانس کی قومی اسمبلی نے انسانی حقوق کا اعلان The Declaration of the right of Man کردیا تھا۔ حکمران عوام سے جبراً ٹیکس لے کر عیاشیاں کر رہے تھے ۔ ان کا خاتمہ کردیا گیا ۔ فرانس کے ریاستی انتظامی و سیاسی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں کی گئیں ۔ فرانسیسی کیتھولک کلیسا نے جو جائیدادیں اور معاشی غلام رکھے ہوئے تھے ان کا خاتمہ کردیا گیا ۔ اس کے بعد انقلاب آنے پر  پادریوں اور جاگیرداروں نے اس سسٹم کی شدید مخالفت شروع کردی۔

مگر21 ستمبر 1792 کو قومی کنونشن منعقد ہوا۔ اس نے بادشاہت کا خاتمہ کردیا اور فرانس میں ملی جلی ٹرائیکی (سرمایہ کاروں+ جاگیرداروں) جمہوریت کے کلچر کا آغاز ہوا۔ اور اس کلچر کی وجہ سے گروہی کلچر نے سیاسی پارٹی کلچر کو جنم دیا ۔ اور پھر پارٹیوں کی باہمی کشمکش نے عوام کو تقسیم کردیا ۔ کسانوں کو رائے دہندگی کا حق حاصل ہوا ۔ فرانس کے اس جمہوری انقلاب سے اب تک 222(دو سو بائیس سال) سال ہوچکے ۔ عوام کے اسی حق رائے دہی کی بنیاد پر جاگیردار اور سرمایہ کار منتخب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر قانون سازی کرکے اپنے طبقے کے لیے تمام معاشی تحفظ حاصل کرلیتے ہیں اور عوام کی معاشی خوشحالی کی نفی کردیتے ہیں ۔ قدرت نے تمام انسانوں کو آزاد پیدا کیا ہے کہ وہ قدرت کی پیدا کردہ زمین پر تمام وسائل سے اپنی اپنی محنت کے مطابق وسائل حاصل کریں ۔ جو جتنی پیداواری محنت، خدمتی (سروس) محنت کرے اسے اسی نسبت سے معاوضہ ملنا چاہیے ۔

موجودہ ٹرائیکی جمہوری کلچر دراصل لا آف یونیورس کی نفی کرتا ہے ۔ فرانس میں 21 ستمبر 1792ء سے اکتوبر 2014ء تک 222 سالوں کے دوران فرانس پر حکمران سرمایہ کار یا امیر ہی چلے آرہے ہیں ۔ پاکستانیوں نے ہر سیاستدان پر اعتماد کیا اور اسے کندھوں پر بٹھا کر اقتدار تک پہنچایا لیکن ہر لیڈر نے اپنا ٹرائیکی کردار ادا کیا ۔ عوام کی خوشحالی کی مسلسل نفی کے نتیجے میں آج پورے ملک کی معیشت تباہ ہوچکی ہے ۔ عوام کے نام پر ملکی اور غیر ملکی قرضے لے کر ہر حکومت کھاتی رہی ہے ۔ منصوبہ بندیوں سے عوامی خوشحالی کی بجائے بدحالی بڑھ رہی ہے ۔ پارٹیوں کی شکلوں میں عوام کی تقسیم در تقسیم کی جا رہی ہے اور عوام کا ملک گیر اتحاد ختم کردیا گیا ہے ۔

بلدیاتی الیکشن ہوں، صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے الیکشن ہوں اگر سرمایہ کاروں، جاگیرداروں کے کردار کو نکال باہر نہ پھینکا گیا تو عوام اور ملک کو تباہی سے بچانا ممکن نہیں ہوگا ۔ ٹرائیکی لیڈروں کے اثاثے بیرونی ملکوں میں ہیں ان تمام لیڈروں سے وطن اور عوام پرستی کی توقع کرنا فضول ہے ۔ جب تک عوام اختیارات اور اقتدار کے مالک خود نہیں ہوں گے اس وقت تک ترقی ہونا ناممکن ہے سرمایہ دارانہ سسٹم میں جس میں کم سے کم لگا کر زیادہ سے زیادہ ’’زر‘‘ بڑھانے کا نظریہ ہو ۔جب  جاگیردار صرف وہی کاشت کرتا ہے جس پر اسے بیرونی منڈی سے زیادہ نفع ملتا ہے تو ملک کیسے ترقی کرے گا۔

عوامی حکومت میں عوام صرف وہی پلاننگ کریں گے جس میں عوام کے لیے ہی پیداوار بڑھانا مقصد ہو تاہم  صنعتی کلچر کو صرف عوام کو پیداوار زیادہ سے زیادہ دینے سے فروغ مل سکتا ہے ہر سطح پر عوام کی حاکمیت اور عوامی اقتدار ہی عوامی معاشی خوشحالی کی ضمانت دے سکتا ہے ۔ ان پڑھ ،  کورے ، جاہل ، نیک ، ایماندار اور وطن پرست عوام ہر گھر میں ہر گلی میں ہر شہر میں جب تک اقتدار میں براہ راست اور اختیارات کے مالک خود نہیں ہوں گے اس وقت تک کوئی فرشتہ عوام کو خوشحالی دینے نہیں آئے گا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔