’’ادب و ثقافت معاشرے کی ترجیح نہیں رہی‘‘، کراچی میں4روزہ اردو کانفرنس کا افتتاح

اسٹاف رپورٹر  جمعـء 17 اکتوبر 2014
آرٹس کونسل کے صدرمحمد احمد شاہ نے افتتاحی اجلاس میں ساتویں عالمی اردو کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی،  فوٹو : ایکسپریس

آرٹس کونسل کے صدرمحمد احمد شاہ نے افتتاحی اجلاس میں ساتویں عالمی اردو کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی، فوٹو : ایکسپریس

کراچی: آرٹس کونسل میں 4 روزہ ساتویں عالمی اردوکانفرنس شروع ہوگئی۔

کانفرنس میں پڑوسی ملک بھارت اورایران کے علاوہ دنیا بھر سے ادیب، دانشور اور شعرا شریک ہیں، کانفرنس کا افتتاحی اجلاس جمعرات کی شام آرٹس کونسل کے سبزہ زار پر ہوا ’’زبان وادب کی صورتحال آج کے تناظرمیں‘‘ کے موضوع پر منعقدہ افتتاحی اجلاس کی مجلس صدارت میں معروف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی،انتظارحسین،ضیا محی الدین،افتخارعارف، پروفیسر سحرانصاری،ابراہیم محمد،عبداللہ حسین،رضاعلی عابدی ، مستنصرحسین تارڑ، عطاالحق قاسمی اورامینہ سید شریک تھیں، اجلاس سے پیرزادہ قاسم رضاصدیقی، بھارتی پروفیسر قاضی افضال حسین اور انتظارحسین نے خطاب کیا۔

آرٹس کونسل کے صدرمحمد احمد شاہ نے افتتاحی اجلاس میں ساتویں عالمی اردو کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی ، پیر زادہ قاسم رضا صدیقی نے خطاب میں کہا کہ آرٹس کونسل کے تحت مسلسل 7 برس سے ہونے والی یہ اردوکانفرنس دنیا بھر میں زبان و ادب کا بڑا حوالہ بن چکی ہے، مستقبل میں آنے والوں کی یہ ذمے داری ہے کہ اس روایت کو قائم رکھیں، معاشرے نے ترجیحات تبدیل کرلی ہیں، معاشرے میں زبان وادب کا وہ مقام نہیں رہا جوکسی مہذب معاشرے کی پہچان ہوتا ہے ادب و ثقافت ترجیحات میں شامل نہیں رہی اور یہ معاشرے کا فیصلہ ہے اگر ایساہی ہوتا رہا تو ہماری دانشورانہ سوجھ بوجھ کم ہوجائے گی، دنیامیں زبان و ادب کے حوالے سے جورونقیں تھیں اسے برقراررکھنے کی ضرورت ہے اگر ایسانہ کیا گیا تو تاریخ بتاتی ہے کہ معاشرہ بے روح ہوجائے گا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردوکے استاد قاضی افضال حسین نے کہاکہ زبان انسانی کی ’’خلقی‘‘ کے علاوہ ’’معاشرتی‘‘ ضرورت بھی ہے زبان صرف ہمارا اظہار نہیں کرتی بلکہ ہمیں بیان بھی کرتی ہے انھوں نے ’’داغ‘‘ کے اس شعر’’اردو ہے جس کانام ہم ہی جانتے ہیں داغ …سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے‘‘ کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ہمارا جہاں وہی ہے جس جگہ برصغیرکی اردو بولی جاتی ہے ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں زبان وادب ہی کی نہیں بلکہ انسان کی تعریف (تصور) بھی بدل رہا ہے انسان کی تعریف بشر دوست نہیں رہی۔

معروف ادیب انتظارحسین نے کہا کہ انھیں پہلی کانفرنس کے انعقاد کا سن کر تعجب ہوا تھا کہ کراچی کے ماحول میں یہ کیسے ممکن ہوگا انھوں نے مرزا غالب کے ایک خط کا حوالہ دیا جس میں غالب نے لکھا تھا کہ قلعے میں مشاعرہ توہوگیا لیکن آئندہ برس نہیں معلوم کہ معاشرہ ہوگا یا نہیں اورآئندہ برس1857کی جنگ آزادی چھڑگئی تاہم کراچی میں مسلسل7سال سے دھماکوں اور بدامنی میں بھی اردو کانفرنس جاری رہی اس قحط الرجال میں بھی لوگ ادب پر گفتگو کررہے ہیں اب یہ کانفرنس کراچی سے پھیل کر لاہور اور اسلام آباد جاپہنچی ہے اردوکانفرنس سے ہم نے اسلامی دنیا میں نئی مثال قائم کی ہے اسلامی دنیا سے اچھی خبریں نہیں آرہی لیکن ہم نے یہاں ایک چراغ جلایا ہے ۔

افتتاحی اجلاس میں تعارفی کلمات ادا کرتے ہوئے آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ نے کہاکہ ہر زبان کچھ تہذیبی قدروں کو جنم دیتی ہے ہم نے بھی یہ 4 روزہ ثقافتی اجتماع منعقد کیا ہے فیض احمد فیض اور صادقین جیسی شخصیات یہاں سے وابستہ رہی ہیں ہماراکام اس دورمیں ایسے لوگوں کوجمع کرنا اور ان کے ذریعے اپنی تہذیب کو روشناس کرانا ہے، ڈاکٹر ہما میر نے کہاکہ آرٹس کونسل فن کی خدمت کررہا ہے یہاں اب ڈرامہ، تھیٹر، موسیقی، میلے اورفنی سرگرمیاں عام سی بات ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔