(میڈیا واچ ڈاگ) – میرے ساتھ چلو گی؟

فرمان نواز  ہفتہ 18 اکتوبر 2014
 جیسے ہی میں نے پلٹ کردیکھا وہ آدمی بھاگ گیا، پھر مجھے اندازہ ہوا کہ موصوف مجھے لڑکی سمجھ بیٹھے تھے۔ فوٹو فائل

جیسے ہی میں نے پلٹ کردیکھا وہ آدمی بھاگ گیا، پھر مجھے اندازہ ہوا کہ موصوف مجھے لڑکی سمجھ بیٹھے تھے۔ فوٹو فائل

1995 کی بات ہے جب میں اسلامیہ کالج پشاور سے ایف ایس سی کر رہاتھا۔ اس وقت میرے پاس ہلکے چمکدار کپڑے کا ایک جوڑا تھاجو میں نے رات سونے کیلئے مخصوص کر کے رکھا تھا۔ایک رات تقریباََ 9 بجے مجھے جلدی میں دوسرے ہاسٹل جانا پڑا ۔ میں وہی چمکیلا جوڑا پہنا ہوا تھا ، سردی سے بچنے کیلئے میں نے اپنے ساتھ چادر لے لی۔ شارٹ کٹ لینے کیلئے میں کچے راستے پر چل پڑا کہ تھوڑی دیر بعد اچانک پیچھے اندھیرے سے ایک نوجوان کی آواز آئی ’’ ما سرہ زے‘‘ میرے ساتھ چلو گی؟ میں سمجھا میرا کوئی دوست ہوگا، لیکن جیسے ہی میں نے پلٹ کردیکھا وہ آدمی بھاگ گیا، پھر مجھے اندازہ ہوا کہ موصوف مجھے لڑکی سمجھ بیٹھے تھے۔ پہلے تو میں بڑا حیران ہوا پھر شُکر ادا کیا کہ موصوف نے صرف آواز دینے پر ہی اکتفا کیا اور کوئی حرکت کرنے سے باز رہے۔ میں نے یہ بات مذاق کے طور پر لی اور دوستوں کو سُنا کر بہت سارے مردانہ کمینٹس وصول کئے۔

لیکن پچھلے دنوں فیس بک پر خیبر نیوز چینل کے میزبان یوسف جان کی ویڈیو دیکھی تو احساس ہوا کہ معاشرے میں عورت کیلئے گھر سے نکلنا کتناتکلیف دہ ہے۔ یوسف جان نے میک اپ کرکے برقع پہنا ہے اور ایک یونیورسٹی کے باہر روڈ پر جا کر کھڑا ہو گیا۔ سب سے پہلے ایک کالج کا لڑکا اُس کے پاس آکر ساتھ چلنے کی دعوت دیتا ہے حلانکہ یوسف جان کسی آنٹی سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ پھر اس کے بعد تو یوسف جان کے پیچھے مردوں کی لائن لگ جاتی ہے ۔ گاڑیاں آکر رکتی ہیں اور مرد اپنے ہوس کا کھلم کھلا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔

ہم تو مغرب کے معاشروں پر لعن طعن کرتے ہیں لیکن یہ کیا ہمار توا اپنا معاشرہ لعنت بھجنے کے قابل ہے۔ اگر مغرب کا معاشرہ اتنا خراب ہوتا تو آج ہم مغربی ممالک کی سفارتخانوں کے باہر قطار لگا کر ویزوں کیلئے کھڑے نہ ہوتے۔ یوسف جان کی ہمت کی وجہ سے جس معاشرے کی صرف ویڈیو دیکھ کر ہم خوف ذدہ ہو جاتے ہیں ، ہماری عورتیں اس معاشرے میں زندگی بسر کرتی ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ عورتوں کو کتنا عجیب لگتا ہوگا نا جب ’’ ایک اسلامی معاشرے ‘‘ میں اس انہیں روز مختلف لفظوں ، جملوں اور نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

درحقیقت اصل معاشرہ تو عورتیں ہی دیکھتی ہیں۔ نہ صرف سڑک پر بلکہ گھر وں کے اندر  بھی اکثر عورتیں غیر محفوظ ہیں۔ یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ عورتوں کا غیر مہذب لباس مردوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے لیکن یوسف جان نے تو کالا برقع پہنا تھا اس کے باوجود مرد وں کی نظر اُس سے ہٹ نہیں رہی تھی۔مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ راہ چلتی عورتوں کو تنگ کرکے مردوں کو کیا ملتا ہے؟ یہ عمل تو مدینے میں یہودی کیا کرتے تھے۔

ہم میں کتنے ایسے مرد ہیں جو دفتر میں عورتوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور روز اپنی کولیگس کے متعلق اُن کو کچھ سننے کو نہ ملتا ہو۔دفتر میں جس کمرے میں کوئی عورت کولیگ کام کرتی ہو اور دیگر مرد اس کے بارے میں نہ سوچیں ایسا ہو نہیں سکتا۔

میں صحافت کا شوق رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک ا سکول میں پڑھاتا بھی ہوں۔اسکول کالج جاتی لڑکیوں کو جو مسائل درپیش ہوتے ہیں اگر وہ یہ باتیں گھر جا کر بتائیں تو یقیناًمرد اپنی بہن بیٹی کا گھر سے نکلنا بند کر دیں۔ نہ تو ہمارے ملک پر کسی دشمن ملک کا قبضہ ہے اور نہ یہاں کفار سڑکوں پر دندناتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے باوجود والدین بیٹوں کے گھر سے باہر نکلنے پر ڈرتے ہیں اور اس کی وجہ چند وہ افراد ہیں جنہوں نے مرد ذات کو بدنام کر رکھا ہے۔ دنیا تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کرتی جارہی ہے اور ہم ابھی تک مرد اور عورت کی تفریق میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اپنی سوچ کو وسعت دیں عورت کھیلنے کی چیز نہیں بلکہ قدرت کا تحفہ ہے ، اسے عزت دیں ، اس کے تحفظ کو یقینی بنائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ کل کو آپ کی اپنی بہن یا بیٹی معاشرے کی اس روش کا شکار ہوجائے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔