(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - ریویو؛ ’’حیدر‘‘

علی راج  جمعـء 17 اکتوبر 2014
ہمارا خطّہ بدل رہا ہے اورحیدر اسی سلسلے کی ایک بلند و بانگ آواز ہے۔  فوٹو؛ حیدر فیس بک پیج

ہمارا خطّہ بدل رہا ہے اورحیدر اسی سلسلے کی ایک بلند و بانگ آواز ہے۔ فوٹو؛ حیدر فیس بک پیج

2 اکتوبر کو دنیا بھر کے سینماؤں کی زینت بننے اور پاکستانی سینماؤں سے تا حال غائب رہنے والی فلم حیدر نے اپنے نام کے ساتھ پورا پوراانصاف کیا ہے۔ بشارت پیر کی جنم بھومی اور پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کے پیر کے سب سے بڑے طوق کشمیر کے پیراہے میں فلمائی جانے والی یہ کہانی ایک عام فلم بین کے لئے دیر ہضم ضرور مگر آسود ہضم ہرگز نہیں ہوگی۔پیر اور وشال بھردواج نے جس طرح سولہویں صدی عیسوی ڈنمارک پر مبنی شیکسپیر کے شہرۂ آفاق کھیل ’ہیملٹ‘ کو 1995 کے لہولہان کشمیر سے ضم کیا ہے،دونوں بے پناہ دادوتحسین کے لائق ہیں۔


حیدرکی خاص بات یہ ہے کے شیکسپیرکے دلدادہ قارئین کو بھی فلم اْتنا ہی متاثر کرے گی جتنا ایک عام حساس آدمی کو۔ فلم کی کہانی کشمیر میں جاری مسلح جدوجہد کے پس منظر میں ڈاکٹر حلال میر کی چوکھٹ سے شروع ہوتی ہے۔ ڈاکٹر میر کو بھارتی فوج مجاہدین کی امداد کرنے پر اْٹھا کر لے جاتی ہے اس دوران اْن کا جواں سال بیٹاحیدرمیر علی گڑہ میں زیرِتعلیم ہوتا ہے۔ وطن لوٹنے پر وہ اپنی ماں غزالہ میر کو اپنے چچا خرم میر کے ہمراہ ر نگ رلیوں میں مصروف پاتا ہے۔ یہاں سے شروع ہوتی ہے حیدر کی جانب سے اپنے والد کی کھوج اور موت کی خبر ملنے پر اْن کا انتقام لینے کی انہونی داستان۔

فوٹو؛ حیدر فیس بک پیج

فلم کے تمام کردار نہایت جاندار ہیں جنہیں قدآور اداکاروں نے بخوبی نبھایا ہے۔ جہاں شاہد کپور کے کردار میں ایڈورڈ نورٹن اور ایل پچینو کے مشہورِزمانہ کرداروں کی جھلک نظر آتی ہے، وہیں شردھا کپور کا خریدا گیالال مفلر فلم کے آخر تک حیرت انگیز منزلیں طے کرتا ہے۔ تبو،کے کے مینن اور عرفان خان نے اپنے اپنے حصّے کا حق کمال طریقے سے ادا کیا ہے۔

فوٹو؛ حیدر فیس بک پیج

حیدر جہاں بالی ووڈ کے تیز رفتار تجارتی رجحان کو پاش پاش کرتی ہے وہیں کشمیر کی تصویر کو بالائے طاق سے نکال کر عالمی منظر نامے پر چسپاں کرتی ہے۔ جہاں اس کی باریکیاں ہمیں لاپتہ بلوچوں کے پیاروں کی آہیں یاد کراتی ہیں وہیں مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑتی بھی ہیں ۔
حیدر کا اسکرپٹ، اس کی ہدایات،اسکور،موسیقی، ایڈٹنگ اور سنیماٹوگرافی ہم آہنگ اور اعلیٰ پائے کی ہیں۔ فلم نئی نسل کو فیض احمد فیض اور مہدی حسن سے بھی ایک حد تک روشناس کراتی ہے۔


مجھے بظاہر فلم میں دو خامیاں نظر آئی ہیں ۔ ایک روایتی فلم بین کی توجہ کے لئے بے ربط بولڈ مناظر کا ہونا، جو کہ کہانی کے سحر کو ایک حد تک مسخ کرتے ہیں اور دوسری اس کی اسکرینگ اور سینسرنگ جس میں ہدایت کار کا قصور نہیں۔ بھارتی فلم بورڈ نے حیدر سے کُل 41 مناظر ہذف کئے ہیں۔ میری نظر میں یہ فلم ساز کی کاوش پر پانی پھیر دینے کے مترادف ہے۔ حیدر میں دکھائے جانے والے مظالم کی شدّت ہی تھی جو پتھر سے پتھر دل بھی کُرید دیتی اور اسے ’شنڈلرز لسٹ‘ جیسے شاہکاروں کی صف میں لا کھڑا کرتی۔

فوٹو؛ حیدر فیس بک پیج

حیدر ہر اُس شخص کے لئے ہے جس کو اس فلم کے مضامین بے چین کرتے ہیں۔ میری رائے میں حیدر جیسے خیال کو نمائش پر پابندی کے ذریعے پھیلنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ ہمارا خطّہ بدل رہا ہے اورحیدر اسی سلسلے کی ایک بلند و بانگ آواز ہے!

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

علی راج

علی راج

علی راج ایکسپریس ٹریبیون کی پشاور ڈیسک سے منسلک ہیں۔ طنزومزاح پرطبع آزمائی کرتے ہوئے ’’اناڑی کی بندوق‘‘ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔