اس قدر دیدہ دلیری

عبدالقادر حسن  ہفتہ 18 اکتوبر 2014
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ہم پر مسلط ہمارے رہنما اپنے نفع کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور یہ اختیار ہم نے خود ہی اپنے ہاتھوں سے ووٹ دے کر انھیں دیا ہے جس پر وہ نئے الیکشن تک مزے کرتے رہیں گے اور غالب توقع یہی ہے کہ وہ ایک آدھ پھیرا دوبارہ بھی لگائیں گے یا ان کا بیٹا یا بھانجا بھتیجا ان کی جگہ لے لے گا۔ بہر کیف یہ ’اشرافیہ‘ ہماری جان کو لاگو رہے گا اور اسمبلیوں میں ہماری گردنوں پر پاؤں رکھ کر نرم سیٹوں پر بیٹھا خراٹے لیتا رہے گا۔

یہ سب کوئی ساٹھ برس سے زائد عرصے سے ہو رہا ہے۔ ع  نہ ان کی جیت نئی ہے نہ اپنی ہار نئی۔ پوری قوم کو معلوم ہے کہ انگریز حکمرانوں نے اپنے حاکمانہ مقاصد کے تحت ہم میں سے ایک طبقہ پیدا کیا تھا۔ اس کی مالی حیثیت اپنی عطا کی ہوئی جاگیروں اور مراعات سے مستحکم کی تھی جس میں اضافہ ہی ہوتا رہا یہی سامراجی انگریزوں کا بنایا ہوا طبقہ انگریزوں کا جانشین حکمران بن گیا۔ یہ طبقہ چونکہ بنیادی طور پر نالائق طبقہ تھا اس لیے باہر کے لوگ بھی موقع پا کر ان میں گھس گئے جیسے پنجاب کے نئے حکمران جو اپنی حکمت عملی اور فراست سے اقتدار میں آ گئے اور آج اس برطانوی اشرافیہ کے حکمران ہیں اور ان کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں جو وہ ان کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔ ’’اور ہم دنوں کو انسانوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں‘‘۔

ہمارے اس گلے سڑے اشرافیہ نے اپنی یاد خود دلائی ہے اور کمال بے رحمی کے ساتھ اپنی پہلے سے ہی غیر معمولی مالی مراعات میں اضافہ کرا لیا ہے یعنی عوام کے دل جلانے کا سلسلہ جاری ہے۔ بے حد دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنی مالی مراعات میں اضافے کا ایک بے حد لنگڑا بہانہ حالیہ دھرنوں کو بنایا ہے۔ ان احتجاجی دھرنوں کو مال کمانے کا ذریعہ بنانے کی یہ نادر حرکت یا تو دھرنے والے لیڈروں نے کی ہے یا پھر ان لیڈروں نے جن کا پیٹ ابھی تک نہیں بھرا۔

یونانی طب میں ایک بیماری کا نام ہے ’جُوع البقر‘ یعنی گائے کی بھوک جو کبھی مٹتی نہیں ہے یہ سب بھی گائے کا معدہ لے کر آئے ہیں جو کبھی بھرتا نہیں ہے اور جراتوں کا یہ حال ہے کہ دھرنے جیسے واقعے کو اپنی جُوع البقر پر قابو پانے کا بہانہ بناتے ہیں۔ بے رحمی کی انتہا ہے۔ اخباروں میں چھپا ہے کہ وزیر اعظم کو اس واردات کا علم نہیں تھا۔ اس لاعلمی پر مرنے کو جی چاہتا ہے۔

اب ذرا ان تازہ ترین مراعات کا سن لیجیے جو ہمارے رپورٹر نے قدرے تفصیل کے ساتھ بیان کر دی ہیں۔ خبر میں ہے کہ اس اضافے کی وجہ دھرنے ہیں۔ وفاقی کابینہ نے دھرنوں کو ان غیر معمولی مراعات کی وجہ بتایا ہے کیونکہ اسلام آباد کی ریڈ زون میں جاری دھرنوں کے باعث وزراء کی ملک کے مختلف حصوں میں آمد و رفت بہت بڑھ گئی  جس پر وزراء نے اپنے سفری اخراجات میں اضافے کا مطالبہ کیا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق وفاقی وزیر کی تنخواہ میں 7 ہزار 603 روپے جب کہ وزیر مملکت کی تنخواہ میں ماہانہ 7 ہزار 33 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس وقت وفاقی وزیر کو 76 ہزار 32 روپے، وزیر مملکت کو 70 ہزار 331 روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔

وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت کو یکم جولائی2014ء سے 10 فیصد ایڈہاک ریلیف دیا گیا ہے۔ ان کا ڈیلی الاؤنس بھی ڈیڑھ سو فیصد بڑھا دیا گیا ہے۔ اس وقت کابینہ میں شامل وزراء کو ایک ہزار روپے ڈیلی الاؤنس ملتا ہے جسے بڑھا کر 3 ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔ ڈیلی الاؤنس میں اضافہ 2 اکتوبر 2014ء سے کیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت کا مؤقف ہے کہ دھرنے کے باعث ان کی ملک کے مختلف حصوں میں آمد و رفت بہت بڑھ گئی ہے اس وجہ سے ایک ہزار روپے ڈیلی الاؤنس میں ان کا روزانہ کا خرچہ پورا نہیں ہوتا۔

پاکستانی سیاست کے اس نئے انداز نے بہت دھوم مچائی تھی لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ دھرنوں کی مار اتنی دور تک جائے گی۔ آپ نے خبر میں ملاحظہ کر لیا کہ قوم کے ساتھ کس بے رحمی کا سلوک کیا جا رہا ہے۔ ہم لوگ یعنی پاکستان کے عوام کسی دوسرے الیکشن میں پھر انھی لٹیروں کو ووٹ دیں گے۔ یہ ہماری پرانی عادت ہے اور گزشتہ دنوں بار بار یہ سوال اٹھایا گیا کہ ان دھرنوں کے پیچھے کون ہے اب اس خبر سے پتہ چلا ہے کہ اور جو تھا وہ تھا ہی ہمارے یہ قومی نمایندے ضرور تھے۔ قدرت کی مہربانی دیکھئے کہ اس نے ہمارے مہربانوں کو کس طرح بے نقاب کیا ہے۔

آپ کی طرح مجھے بھی تعجب اس بات پر ہو رہا ہے کہ یہ لوگ کس طرح مزید مراعات لے رہے ہیں۔ اس سیاسی اور پارلیمانی سانحے کو ذرا تفصیل کے ساتھ مرتب کر کے اسے دنیا کی اسمبلیوں کو بھجوایا جائے کہ کچھ عوامی نمایندے ایسے بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان نے ایسے نمایندوں کا ایک نمونہ پیش کیا ہے۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔