اچھا ہوا منٹو وقت سے پہلے مر گیا

نصرت جاوید  ہفتہ 18 اکتوبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

سعادت حسن منٹو مجھے اسکول میں نہیں پڑھایا گیا۔ مجھے خبر نہیں کہ آج کے طالب علم بھی ان کی تحریروں سے آشنا کیے جاتے ہیں یا نہیں۔ میں نے تو اسے پنجاب پبلک لائبریری میں دریافت کیا تھا اور زیادہ تر ان افسانوں سے حظ اٹھاتا رہا جو بچپن سے بلوغت میں قدم رکھتے ہوئے آپ کے کانوں کو سرخ کر دیتے ہیں اور دلوں میں احساسِ جرم کی سراسیمگی۔ اپنے تئیں ذرا ’’سنجیدہ ادب‘‘ کی طرف مائل ہوتے ہوئے میں نے منٹو کو قطعی نظرانداز کرنا شروع کر دیا۔ عالمی ادب کے وسیع تر تناظر میں وہ کوئی دھانسو ادیب محسوس نہ ہوتا۔ ترقی پسند ادب کا تذکرہ کرنے والے میرے ’’انقلابی‘‘ دوست بھی اسے رجعت پسند، فحش نگار اور خود پسند پکار کر ٹھکرا دیتے۔

ضیاء الحق کے دور میں فٹ پاتھ پر بکتی پرانی کتابوں میں کسی زمانے کا مشہور ادبی جریدہ ’’سویرا‘‘ نظر آیا تو میں نے ویسے ہی خرید لیا۔ گھر لا کر اس کی ورق گردانی شروع کی تو ایک مخصوص سیکشن میں چند ایسے مضامین یکجا ملے جو ان دنوں سے متعلق تھے جب قیامِ پاکستان کے فوری بعد کے مہینوں میں منٹو پر فحاشی کا مقدمہ بنایا گیا تھا۔ میرے لیے وہ مضامین پڑھتے ہوئے حیرت کی بات یہ رہی کہ اسلام کے نام پر قائم ہوئی ایک نوزائیدہ ریاست کی پریس برانچ کے چوہدری محمد حسین نے صرف منٹو ہی کو سزا اور جزا کے راستوں سے گزار کر پارسا ادب کی طرف کیوں مائل کرنا چاہا تھا۔ عجیب سی بات یہ بھی لگی کہ برطانوی حکومت کے دنوں میں پنجاب کی پریس برانچ کے کرتا دھرتا بھی یہی صاحب ہوا کرتے تھے۔ برطانوی انڈیا ایک وسیع و عریض ملک تھا اور اُردو جرائد صرف پنجاب ہی میں نہیں نکالے جاتے تھے۔

اُردو کے سب سے زیادہ قاری دلی اور یوپی کے علاوہ بمبئی اور مدراس میں بھی بہت زیادہ تعداد میں موجود تھے۔ یہ اعزاز مگر برطانوی پنجاب کی پریس برانچ کو ہی حاصل ہوا کہ اس نے منٹو اور عصمت چغتائی کو فحاشی کے الزامات لگا کر لاہور میں موجود عدالتوں کے سامنے رگیدا۔ عصمت چونکہ پاکستان نہ آئیں اس لیے انگریزوں سے آزادی کے بعد بھی چوہدری محمد حسین کے عتاب سے محفوظ رہیں۔ مگر لاہور منتقل ہو جانے کے بعد منٹو بدستور ان کے نشانے پر رہے۔ منٹو کے خلاف مقدمے کی رؤداد پڑھتے ہوئے انکشاف یہ بھی ہوا کہ اسے فحش قرار دلوا کر عبرت کا نشانہ بنانے کی خواہش رکھنے والے گواہانِ استغاثہ میں آغا شورش کاشمیری سب سے زیادہ نمایاں اور بلند آہنگ ہوا کرتے تھے۔ سلمان تاثیر کے والد ڈاکٹر تاثیر بھی اس ضمن میں ان کے پوری طرح ساتھ کھڑے رہے۔

گواہانِ استغاثہ سے کہیں زیادہ حیران کن رویہ مجھے ان دنوں کے معروف ترقی پسندوں کا بھی نظر آیا۔ ترقی پسندوں کی ادبی انجمن ان دنوں بہت بااثر اور توانا ہوا کرتی تھی۔ اس تنظیم نے منٹو کے خلاف مقدمے سے قطعی لاتعلقی کا رویہ اپنایا۔ فیض احمد فیض صرف اپنی ذاتی حیثیت میں زبردستی عدالت کو اپنی رائے دینے کے لیے بلوائے گئے۔ انھوں نے یقینا منٹو کا دفاع کیا۔ مگر اپنے دلائل دیتے ہوئے شاید ’’پارٹی ڈسپلن‘‘ کے خوف سے کافی محتاط بھی رہے۔

اس مقدمے کی پوری رؤداد پڑھنے کے بعد میں جبلی طور پر سمجھ گیا کہ منٹو اکیلا ہو کر بے وقت کی موت کیوں مر گیا تھا۔ وہ کیا مجبوری تھی جس نے اس بیوی اور بیٹیوں سے بے پناہ محبت کرنے والے شخص کو قدرت اللہ شہاب، ممتاز شیریں اور محمد حسن عسکری جیسے لوگوں کی پناہ میں آ کر اپنے لیے رزق کمانے کے کچھ راستے ڈھونڈنے پر مجبور کر دیا تھا۔ منٹو جان کی امان ڈھونڈتا بھی مگر منٹو ہی رہا۔ امریکی قونصل خانے نے اسے کافی معقول رقوم کے عوض ’’صحت مند ادب‘‘ کے ترجمے کرنے کی ترغیب دی تو موصوف نے انکل سام کے نام خطوط لکھنا شروع کر دیے۔ آج بھی ان خطوط کو پڑھیں تو کئی خط ایسے نکل آتے ہیں جو صدر اوباما کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔

16 اکتوبر 2014ء کی صبح مگر میں نے سعادت حسن منٹو کا ایک بہت ہی عجیب رُخ دریافت کیا ہے۔ اس دن قائد ملت لیاقت علی خان کی برسی تھی۔ ہمارے اخبارات اس دن کی مناسبت سے خصوصی ایڈیشن شایع کیا کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر ایسے مضامین سے بھرے ہوتے ہیں جو آپ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کی برسی کے دن کئی برسوں سے پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ کم از کم میں تو اب ان ایسے ایڈیشنوں پر سرسری نگاہ بھی نہیں ڈالتا۔ ایسے رنگین صفحات کو بلکہ اصل اخبار سے جدا کر کے اپنے بستر کے ساتھ رکھی میز پر رکھ دیتا ہوں۔ اس 16 اکتوبر کو بھی ایک معاصر کے خصوصی ایڈیشن کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے ہوئے مگر اچانک منٹو کی تصویر نظر آ گئی۔ اسے رک کر دیکھا تو معلوم یہ ہوا لیاقت علی خان کے قتل کے صرف سات روز بعد یعنی 23 اکتوبر 1951ء کو منٹو نے ان کی موت پر ایک تفصیلی مضمون لکھا تھا جو ان دنوں کے روزنامہ ’’آفاق‘‘ میں شایع ہوا۔

منٹو کی لکھی پہلی سطر سے بتدریج مجھے بار بار خیال یہ ستاتا رہا کہ منٹو محض ایک افسانہ نگار ہی نہیں تھا۔ اس میں وہ تمام صلاحیتیں شاندار حد تک موجود تھیں جو صحافت میں Investigative رپورٹر کہلانے والے لوگوں میں موجود ہونا ضروری سمجھی جاتی ہیں۔ پوری تحقیق کے بعد سب سے پہلا اور اہم سوال منٹو نے یہ اٹھایا کہ پاکستان کی سرکاری خبر ایجنسی نے چھ بجے شام یہ مختصر خبر چلا کر بعدازاں اسے Kill کیوں کروا دیا تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم پر راولپنڈی کی جلسہ گاہ میں ایک قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ ریڈیو پاکستان نے بھی ایک ناقابل دفاع خاموشی کے بعد کہیں شام سات بجے کے بعد لیاقت علی خان کے قتل کی خبر لوگوں تک پہنچائی تھی۔

سرکاری ذرایع ابلاغ کی مجرمانہ دِکھنے والی خاموشی اس پیشہ وارانہ حوالوں سے مکمل نااہلی کو عیاں کرنے کے بعد منٹو نے بہت تفصیل سے لیاقت علی خان پر گولی چلانے والے ’’سید اکبر ولد ببرک‘‘ کاتذکرہ شروع کر دیا۔ منٹو نے اپنے سوالات اٹھانے کے لیے کسی غیر مستند خبر کا حوالہ ہر گز نہیں دیا۔ سرکاری ذرایع ابلاغ نے ہی ان دنوں قوم کو بتایا تھا کہ سید اکبر افغانستان کا باشندہ تھا۔ ساپرخیل اس کا قبیلہ تھا۔ وہ کئی دنوں سے مگر ہزارہ میں مقیم تھا اور ’’خفیہ والے‘‘ اس پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے تھے۔ اس کڑی نگاہ کے باوجود سید اکبر 13 اکتوبر کو راولپنڈی آ کر وہاں کے ان دنوں کافی مشہور ’’گرینڈ ہوٹل‘‘ میں مقیم ہو گیا۔

وہاں اسے کچھ ’’نامعلوم افراد‘‘ آ کر ملتے رہے جن کے بارے میں سید اکبر نے ہوٹل والوں کو بتایا کہ ان کا تعلق پاکستان کی ’’سی آئی ڈی‘‘ سے تھا۔ یہ تمام واقعات یاد دلانے کے بعد منٹو نے کمال کی بات یہ لکھی کہ ’’16 اکتوبر کی سہ پہر کو دو انسان قتل ہوئے۔ ایک خان لیاقت علی خان وزیر اعظم پاکستان اور ایک ہزارہ کا باشندہ مسمی سید اکبر۔۔۔ (خان) کے قتل کے متعلق تو پولیس اپنا فیصلہ دے چکی لیکن سید اکبر کا قاتل کون تھا؟‘‘ اور یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہم آج بھی نہیں ڈھونڈ پائے۔

اسے وقت پر ڈھونڈ لیا ہوتا تو شاید ضیاء الحق کے ساتھ 14 اگست 1988ء کرنے والے بھی آج لوگوں کے سامنے بے نقاب ہو چکے ہوتے اور پوری تفصیل ان لوگوں کی بابت بھی آج تک ہمارے سامنے آ جاتی جنہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ 27 دسمبر 2007ء کیا تھا۔ اچھا ہوا منٹو وقت سے پہلے مر گیا اور ہم صحافیوں میں صحیح وقت پر ٹھوس سوال اٹھانے کی عادت ہی پیدا نہ ہو سکی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔