جادونگری

راؤ منظر حیات  ہفتہ 18 اکتوبر 2014
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

کیا دلیل، عدل اور خوشی کا پرندہ ہمارے ملک سے اڑ چکا ہے؟ ہر طرف جگ ہنسائی، رسوائی اور عام آدمی کی ذلت کا سامان تیار رکھا ہوا ہے! ذہنی اور جسمانی ایذا رسانی کے طریقے اگر کسی بھی قوم نے سیکھنے ہیں، تو محض وطن عزیز میں دو تین ماہ گزار لیں۔ وہ تکلیف دینے کے فن میں یکتا ہو جائینگے!کیا ہم چودہ اگست1947ء کو واقعی آزاد ہوئے تھے یا دائمی غلامی میں آگئے تھے! آزاد ملک اور آزاد قومیں بہرحال ہمارے جیسی نہیں ہوتیں! اب تو افغانستان کی شہری آبادی پاکستان سے زیادہ آسودہ حال اور روشن خیال ہے! یقین نہ آئے تو کابل سے واپس آنے والے کسی بھی صاحب الرائے شخص سے دریافت کر لیجیے۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سچ بات کہنا اور لکھنا تقریباً ممنوع ہو چکا ہے۔ آپ حقیقت سامنے لائینگے تو نقصان تو آپکو ہو گا ہی! مگر اب جان جانے کا بھی احتمال ہے۔

کبھی کبھی لگتا ہے کہ جھوٹ کو سرکاری اور غیر سرکاری اس قدر مضبوط سرپرستی حاصل ہے کہ “سچ” محض ادنیٰ سا لفظ بن چکا ہے۔ مجھے تو اپنے ملک کی لکھی ہوئی تاریخ کے بھی یکطرفہ ہونے کا گمان ہوتا ہے! پتہ نہیں ہمیں کیا بتایا اور پڑھایا جا رہا ہے! اب دل کرتا ہے کہ لندن کی پبلک لائبریری میں کچھ ماہ صَرف کروں تا کہ وہ اصل کاغذات دیکھ کر ان کے تناظر میں تجزیہ کر سکوں کہ ہمارے ملک کی تاریخ اصل میںکیا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ میرا گمان غلط ہو مگر حالات دیکھ کر اب کسی بھی اَمر پر یقین کرنے کو دل نہیں مانتا! نسیم حجازی کے افسانوی تاریخی ناولوں میں حد درجہ مبالغہ آرائی کی جا سکتی ہے تو بعد کے واقعات میں ردیف قافیہ کی تبدیلی کیوں ممکن نہیں۔

صاحبان زیست! کاغذ پر ہر چیز موجود ہے۔ قانون، عدل کا طریقہ، آئین، مگر زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔ ہر بندے کی اپنی اپنی کہانی ہے۔ آپ سرکار کے بابو کو رشوت دیے بغیرکوئی کام توکروا کر دکھائیے! آپکا وہ حشر کیا جائے گا کہ نسلوں کو بھی میرٹ کے نام سے نفرت ہو جائے گی۔ پچھلے ماہ ایک ریٹائرڈ افسر نے مجھے بتایا کہ انھیں ریونیو ڈیپارٹمنٹ میں کام پڑ گیا۔ پہلے تو صاحب موصوف نے ملنے سے انکار کر دیا۔ پھر چند ہفتوں بعد پیغام بھجوا دیا کہ نئی کرولا گاڑی جو بائیس لاکھ کی ہے، درکار ہے، کیونکہ بیٹی کی شادی پر تحفہ دینا ہے۔ وہ ریٹائرڈ سرکاری افسر اس قدر پریشان ہو چکا تھا کہ اس نے نئی گاڑی خریدکرصاحب کے ہرکارے کو دان کر دی۔ کچھ ہی دنوں میں ان کا برسوں سے رکا ہوا کام ہو گیا۔ کون سا عدل، کون سا انصاف اورکون سا میرٹ! یہ تقاریرمیں استعمال ہونے والے خوبصورت لفظ ہیں! ہر طرف یہی حال ہے!

ہم کس قدر مشکل معاشرے میں زندہ ہیں۔ اس کا احساس آپکو صرف ایسے ہو پائیگا جب آپکو کسی سرکاری محکمہ کے بابو یا کلرک سے کام پڑ جائے۔ آپ مجھے صرف “میرٹ” کی بنیاد پر ضلعی دفتر سے بیٹے یا بیٹی کا ڈومیسائل بنوا کر دکھائیے! اگر آپ شرافت سے یہ سرکاری کاغذ حاصل کرنے کی کوشش کرینگے تو آپکی درخواست پر سو طرح کے اعتراضات لگا دیے جائینگے۔ آپ ڈومیسائل کو چھوڑ دیجیے۔ آپ عدالت کے ریڈر کو خوش کیے بغیر مقدمہ کی تاریخ لگوا کر دکھائیے! اگر عدالتی اہلکار ناراض ہو گیا تو سمجھئے کہ آپکا کیس برباد ہو گیا۔ حج اور عمرے جیسے مقدس فریضے کے لیے بھی کئی سرکاری عمال لوگوں سے رشوت وصول کرتے ہیں۔ باقی کیا عرض کروں، دل دکھتا ہے!

اصل میں ہمارے عظیم ملک میں دو نظام ہیں۔ ایک جو لکھا ہوا ہے اور دوسرا وہ جو نظر نہیں آتا ۔ یہ نظر نہ آنے والا نظام ہی اصل نظام ہے۔ ہم تمام لوگ اسی غیبی نظام کے غلام ہیں اور دراصل یہی نظام حکومت کو چلا رہا ہے۔ باقی ساری کتابی باتیں ہیں! بلکہ لفاظی ہے۔ صاحبان زیست! ہم اخلاقی طور پر اتنے کمزور لوگ ہیں کہ یہ حقیقت بھی تسلیم نہیں کرتے کہ ہمارا حقیقی نظام یا مالک کون ہے! صاحب! مجھے ایک بہت مدبر سیاستدان بتانے لگے کہ وہ کبھی کسی وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کو کام نہیں کہتے۔ وہ پانچ چھ بار ایم پی اے اور ایم این اے رہ چکے ہیں۔ ان کے بقول ان کی تیس سالہ سیاسی زندگی میں انھوں نے کبھی کسی وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کو کوئی زحمت نہیں دی۔ اگر کوئی صاحب اقتدار پوچھ بھی لے کہ جناب کوئی حکم! تو وہ ہمیشہ یہ جواب دیتے کہ جناب مجھے تو کام ہی کوئی نہیں ہے۔ صرف آپکا اقبال بلند چاہتا ہوں! ان کا طریقہ بالکل نایاب تھا۔ وہ چیدہ چیدہ اہم افسران سے اس قدر بہتر تعلقات بنانے کا فن جانتے تھے کہ ان کے گھر کے فرد بن جاتے تھے۔ پھر کام کیوں رکے گا! لیکن ان کے نزدیکی حلقے جانتے تھے کہ اہم ترین افسران سے تعلق رکھنے کی اصل کنجی ان کی دولت میں چھپی ہوئی تھی۔

پرویز مشرف کا مارشل لاء عروج پر تھا۔ سیاستدانوں کا بڑا حصہ زیر عتاب تھا۔ حتیٰ کہ ملک کے منتخب وزیر اعظم اپنے رفقاء کے ہمراہ پابند سلاسل تھے۔ تو یہ مذکورہ سیاستدان فوجی افسروں سے انتہائی خوشگوار تعلقات بنانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ اس وقت پرویز مشرف کے نزدیک، اہم ترین لوگ موصوف کی دولت کے دسترخوان کے خوشہ چین تھے۔ مارشل لاء ان کا بال بھی بیکا نہ کر سکا۔ آج بھی وہ ایک مضبوط سیاسی پارٹی میں بھر پور سیاست کر رہے ہیں۔ اس ملک میں کون سا اصول اور کون سا قانون۔

میرے سامنے P.I.L.D.A.T کی ایک ضخیم رپورٹ میز پر پڑی ہوئی ہے۔ یہ اگست 2014ء میں شایع ہوئی تھی۔ جون2013ء سے مئی2014ء تک تمام ملکی معاملات پر تجزیہ کرنے کی ایک کوشش کی گئی ہے۔ اس کا موضوع بھی ہمارے ملک میں Governence گئی ہے۔ 460 انتہائی قیمتی صفحات پر مشتمل اس کتاب میں طرز حکومت کے حوالے سے جزئیات تک جاننے کی کاوش بھی کی گئی ہے۔ شائد 3065 افراد کو اس سروے میں شامل کیا گیا ہے۔ ان سے مختلف مقامات پر مختلف سوالات پوچھے گئے ہیں۔ مرکزی اور تمام صوبائی حکومتوں کے متعلق تجزیہ کے بعد کامیابی یا ناکامی کا تاثر بھی دیا گیا ہے۔ میں نے اس سروے پر چھ سات گھنٹے عرق ریزی کی ہے۔ مجھے اس کے متعلق کچھ نہیں کہنا! میں اس کی حمایت یا مخالفت میں بھی کچھ نہیں لکھنا چاہتا ہوں۔

اسطرح کے لاتعداد سروے ہماری لائبریری کی ایک الماری میں موجود ہیں۔ پتہ نہیں کیوں! مجھے اس طرح کے سروے حقیقت سے بہت دور نظر آتے ہیں۔ کیا اس میں کسی جگہ درج ہے کہ اگر آپکے گھر میں کوئی ڈاکہ یا خدانخواستہ کوئی بھیانک واردات ہو جائے تو آپکو پولیس اسٹیشن میں کس کس طرح ذلیل کیا جاتا ہے! F.I.R لکھنے کے لیے تھانیدار یا محرر کا کاغذ کے دستوں اور قلم کے لیے پیسے مانگنے سے کام شروع ہوتا ہے۔ اگر جائے وقوعہ پر قتل ہوا ہے اور وہاں آپکے کسی عزیز کی لاش پڑی ہے تو آپکو بتایا جائے گا کہ تفتیشی افسر تو جا ہی نہیں سکتا کیونکہ اس کے پاس تو سرکاری گاڑی تک نہیں ہے۔ سائل شدید صدمہ کی حالت میں کرائے پر گاڑی حاصل کر کے پولیس کو جائے وقوعہ تک لے کر جاتا ہے۔ اس کے بعد ذلت، رشوت اور جہالت کا ایک سمندر ہے جس میں سائل کئی سال غوطے کھاتا رہتا ہے۔ یہ حقیقت نوے فیصد تھانوں میں ثابت ہے! باقی لفاظی! سروے! Power Point  Presentations ہیں۔ اگر آپ نے آج کسی بھی شخص کو بددعا دینی ہے تو آپ اسے صرف یہ کہہ دیجیے کہ اسے کسی بھی سرکاری محکمے سے جائز کام پڑ جائے۔

راولپنڈی سے پشاور جاتے ہوئے25 یا تیس کلومیٹر پر کیڈٹ کالج حسن ابدال واقع ہے۔میں1972ء سے 1977ء تک وہاں پڑھتا رہا۔ یعنی آٹھویں جماعت سے لے کر F.Sc تک وہیں رہا۔ پچھلے ہفتہ دہائیوں کے وقفہ کے بعد ایک جگہ پرانے کلاس فیلوز اور دوستوں سے ملاقات ہو گئی۔میں کچھ دیر کے لیے1972ء اور 1977ء کے درمیان تحلیل ہو گیا۔ وقت کیا کیا بدل دیتا ہے! لوگوں کے چہروں کو وقت کی دھوپ کیسے تبدیل کر دیتی ہے۔ بہت عرصے بعد دیکھنے کو ملا! داکٹر رضوان ہاشم اب ریٹائر ہو چکا ہے۔ میرا خیال ہے وہ فوج میں بریگیڈئر کے باعزت عہدے سے گھر واپس آیا ہے۔ مجھے اسکو پینتیس سال بعد ملنے کے بعد ایسے لگا کہ وہ ابھی تک حسن ابدال میں1972ء کاہی رضوان ہاشم ہے۔ میں نے اس کے والد محترم کو اکثر دیکھا تھا۔ خدا انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ رضوان ہاشم بالکل اپنے والد کی طرح کا ہو چکا تھا۔ بالکل وہی شباہت، وہی معصومانہ مگر بھر پور شرارتی چہرہ! بولنے اور چلنے کا ڈھنگ بھی بالکل وہی!

میر عدنان مجھے سال دو سال میں کبھی کبھی مل جاتا ہے۔ وقت نے اس کے چہرے پر کوئی اثر نہیں کیا۔ جسم کا وہی وزن، وہی پھرتی، وہی آہستہ آہستہ بولنے کا طریقہ اور دل میں لوگوں کے لیے خلوص اور محبت۔ میں نے آج تک اسے کسی کی برائی کرتے ہوئے نہیں سنا۔ حسن ابدال میں وہ جیسا تھا، بالکل وہی مجسم تصویر آپکے سامنے آج بھی موجود تھی۔ وہ اتنا اکیلا سا انسان ہے کہ اس نے اپنے غم صرف اپنے اندر قید کر رکھے ہیں۔ خاور ملٹری اسپتال (M.H) کا انچارج ہے۔ وہ 1972ء میں جس پھرتی اور جوش و خروش سے باسکٹ بال کھیلتا تھا، لگتا ہے کہ آج بھی وہی جذبہ موجود ہے! اسکول میں باسکٹ بال کے کھیل میں گیند اس کی ملکیت بن جاتی تھی۔

اس کی ٹیم کو ہرانا تقریباً ناممکن تھا۔ عظمت سے میری ملاقات صدیوں کے بعد ہوئی ہے۔ صرف سر کے بال سفید ہو چکے ہیں۔ باقی عظمت میں وہ شرارت کوٹ کوٹ کر آج بھی موجود ہے، جو اسکول میں اس کا خاصہ تھا۔ ایبٹ آباد سے وہ اب بہت کم باہر نکلتا ہے۔ زندگی کی تگ و دو میں مصروف مگر آج بھی زندگی سے بھرپور! یقین کیجیے، مجھے اس ایک گھنٹے میں ایسا لگا کہ میں 1972ء میں منجمد ہو چکا ہوں۔ یا شائد وقت کی قید سے بھی آزاد! پینتیس سال بعد اپنے پرانے دوستوں سے ملنا وہ انمول واقعہ ہے جسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے، بتایا نہیں جا سکتا! الفاظ بے معنی سے ہو جاتے ہیں۔ مزید اتنے پرانے دوستوں سے ملاقات ہوئی کہ اگر ذکر کرنے لگوں تو کئی کالم لکھنے پڑ جائیں۔

کیڈٹ کالج حسن ابدال میری زندگی کا سب سے بڑا سنگِ میل ہے۔ صاحبان! صرف میری زندگی ہی کیا، جو بھی وہاں پڑھنے کے لیے چلا گیا، وہ کبھی بھی ذہنی طور پر اس سے رابطہ ختم نہیں کر پاتا۔ آپ اس کالج سے باہر آ سکتے ہیں مگر وہ کالج کبھی بھی آپکے اندر سے باہر نہیں نکلتا! کیسا کیسا استاد موجود تھا! سوچوں تو حیرت ہوتی ہے کہ خدارا، تو نے دست غیب سے ایسے بے غرض لوگ بھی پیدا کیے جو بچوں کو تعلیم دینا عبادت سے بڑھ کر سمجھتے تھے! اور معیار تعلیم ملاحظہ کیجیے۔ طلباء کی جو پوزیشن کلاس میں ہوتی تھی! وہی پوزیشن میٹرک اور F.Sc کے بورڈ کے امتحان میں بھی! کیا محنتی لوگ تھے اور کس درد سے پڑھاتے تھے! بیان سے بالکل باہر ہے۔ مجھے تو وہ کیڈٹ کالج اب کوئی تعلیمی درسگاہ محسوس نہیں ہوتی! مجھے تو وہ ایک جادونگری معلوم ہوتی ہے! جو ایک بار وہاں چلا گیا، وہ واپس نہیں آ سکتا، اس جادونگری سے ذہنی واپسی کا کوئی دروازہ نہیں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔