ملک کی معاشی صورت حال

ایم آئی خلیل  ہفتہ 18 اکتوبر 2014

ماہ اگست کے اوائل سے ہی ملکی معیشت پر طرح طرح کے سوالات اٹھنے لگے تھے، اوائل میں کنٹینر لگاکر پنجاب کے مختلف علاقوں کو بند کیے جانے کے باعث کئی روز تک ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ابھی اس کے نقصانات کا اندازہ لگایا جارہاتھا پھر ملک میں جاری سیاسی کشیدگی نے مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ شروع کردیا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود ٹرانسپورٹرز نے کرایوں میں اضافہ کردیا، ملک کے شہروں اور قصبوں میں اگر رکشہ اور ٹیکسی کرائے پر حاصل کرنا ہو تو ان کے دام آسمان سے باتیں کرتے نظر آتے ہیں جب کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہوتا چلا جارہاہے۔

اس لیے معاشی اعشاریے جوکہ اگست 2014 سے قبل بہتری کی جانب اشارہ کررہے تھے وہ ایک دفعہ منفی رجحان کا اظہار کررہے ہیں، ابھی سیاسی کشیدگی جاری تھی کہ ماہ ستمبر میں سیلاب نے آ لیا اور پنجاب کے بیشتر علاقے سیلاب کی لپیٹ میں آچکے تھے۔ جس کے باعث دیہی معیشت شدید نقصان سے دو چار ہوکر رہ گئی اس دوران لوڈ شیڈنگ بھی اپنا کام دکھاتی رہی، ماہ ستمبر میں ورلڈ بینک کے جائزہ مشن نے پاکستان آنا تھا عالمی بینک نے پاکستان کے لیے گروتھ ڈیولپمنٹ کریڈٹ پروگرام کے تحت پاکستان کو گروتھ ریونیو موبلائزیشن و دیگر اصلاحات کے لیے ڈیڑھ کروڑ ڈالرکی امداد جاری کرنا تھی جس کی خاطر ایک جائزہ مشن کو پاکستان آنا تھا مگر پاکستان کے سیاسی حالات کے باعث پوری ٹیم تو پاکستان نہ آسکی البتہ چند ارکان پاکستان آئے تھے۔

انھوں نے معاشی حکام سے ابتدائی ملاقاتیں کیں ان کا خیال تھا کہ مشکل ترین سیاسی حالات ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کے باعث بیشتر سرکاری، حکومتی دفاتر تک رسائی بھی مشکل تھی ۔ان مشکل حالات کے باوجود چند ارکان نے بالآخر دورہ کر ہی لیا اب نئے مالی سال کو تین ماہ گزرچکے ہیں، لہٰذا پاکستانی برآمدات کے بارے میں پہلے جو اندازے لگائے جارہے تھے یعنی جی ایس پی پلس اسٹیٹس ملنے کے بعد خیال تھا کہ پاکستان کی برآمدی شعبے کو خاصی ترقی حاصل ہوگی اور جلد ہی پاکستان کے لیے اپنی برآمدات کو 50 فی صد اضافہ کرنا ممکن ہو پائے گا۔ لیکن گزشتہ 2 ماہ سے راقم اس بات کا اظہار کررہاتھا کہ جب تک بی پی ایس کی پہلی سہ ماہی رپورٹ نہیں آجاتی پاکستان کی برآمدات کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی،لہٰذا اب ہم بی پی ایس کی رپورٹ جوکہ گزشتہ دنوں جاری ہوئی ہے اسے مد نظر رکھتے ہوئے پاکستانی بر آمدات کا جائزہ لیتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی معیشت کے لیے برآمدات کی بہت ہی اہمیت ہوتی ہے۔

اسی ذریعے سے ملک قیمتی زر مبادلہ حاصل کرتاہے اگر برآمدات زیادہ ہوںگی اور اس کے بالمقابل ملک کی درآمدات میں کمی واقع ہوگی تو ایسی صورت میں ملکی کرنسی کی قدر میں اضافہ ہوجائے گا، چند ماہ قبل جب کرنسی کی قدر تیزی سے گھٹ رہی تھی تو ایسی صورت میں حکومتی کوششوں سے ایسی صورت حال پیدا ہوئی کہ ڈالر کی تیزی کو کسی طرح روکا گیا لیکن گزشتہ ڈھائی ماہ سے ڈالر کی قدر میں اضافہ ہورہاہے ، چند ماہ قبل ڈالر کو 98 روپے تک پہنچادیا گیا تھا جس کے باعث کئی غیر ملکی اشیا کی قیمتوں میں کمی واقع ہورہی تھی لیکن اس وقت ڈالر 103 روپے تک ہے۔ لہٰذا ملک میں اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان بھی پیدا ہوگا، جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوکر رہے گا ملک میں اکتوبر کے اوائل تک مہنگائی کی شرح میں 7.7 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ پاکستان بیورو شماریات کے جائزے کے مطابق ملک میں افراط زر کی شرح میں سال بہ سال 8 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ جب کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران مہنگائی کی اوسط شرح 752 فی صد تک بڑھیں، خوراک کے علاوہ دیگر اشیا کی قیمتیں گزشتہ ماہ 8 فی صد سالانہ بنیادوں پر اضافہ ہوا۔

آلو کی قیمت میں 100 فی صد اضافہ ہوا۔ بجلی 16 فی صد بڑھی، تعلیمی اخراجات میں 16 فی صد بڑھے، اب آپ یہ ملاحظہ فرمائیں کہ افراط زر کی شرح میں 8 فی صد اضافہ ہورہاہے لیکن نجی تعلیمی اداروں کا یہ حال ہے کہ انھوں نے اپنی فیسوں وغیرہ کی مد میں 16 فی صد اضافہ کردیا۔ اس طرح پہلے تو میٹرک تک تعلیم حاصل کرنا آسان ہوتا تھا لیکن اب تو میٹرک تک پہنچنے سے پہلے ہی پرائمری کی تعلیم دلوانا عوام کے بس میں نہیں رہا، وہ لوگ جوکہ پہلے بچوں کی فیس بھرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اب وہ نالاں ہیں جب کہ ملک بھرکے نجی تعلیمی اداروں کا جائزہ لیا جائے۔ سوائے چند اسکولوں کے ہر جگہ ان ٹرینڈ اساتذہ کی بھرمار ہے کیوں کہ ان کو ادائیگی بہت ہی کم کرنا پڑتی ہے۔

بہرحال بات ہورہی تھی پاکستانی برآمدات کی رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی رپورٹ جولائی تا ستمبر کے مطابق پاکستانی برآمدات میں 10.16 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔ ملکی برآمدات 6 ارب ایک کروڑ 50 لاکھ ڈالر تک محدود ہوگئی ہیں۔ جب کہ گزشتہ سال کی اسی مدت میں برآمدات کی مالیت 6 ارب 69 کروڑ 50 لاکھ ڈالر رہی، لہٰذا برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافے کی وجہ سے جولائی تا ستمبر کا تجارتی خسارہ 45.11 فی صد بڑھ گیا۔ یعنی 6 ارب 50 کروڑ 40 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا، برآمدات میں ماہانہ بنیادوں پر زیادہ کمی ستمبر 2014 میں ریکارڈ کی گئی جوکہ 16.66 فی صد تھی جب کہ ستمبر میں تجارتی خسارہ 2 ارب 38 کروڑ ڈالر تھا یعنی ماہانہ بنیادوں پر تجارتی خسارہ تقریباً103 فی صد اضافہ ہوا، قابل ذکر اور انتہائی تشویش ناک امر یہ ہے کہ پہلی سہ ماہی کی برآمدی مالیت 6 ارب ایک کروڑ 50 لاکھ ڈالر تک محدود رہی اور تجارتی خسارہ 6 ارب 50 کروڑ ہوگیا یعنی برآمدات سے زیادہ تجارتی خسارہ ہوگیا۔

اب بھلا بتایئے کرنسی کی قدر کیسے مضبوط ہوگی، مہنگائی کیسے کم ہوگی، معاشی ترقی میں کیسے اضافہ ہوگا، لوگوں کے لیے روزگار کے مواقعے کیسے بڑھیں گے۔ حکومت کو اس تجارتی خسارے میں اضافے کا نوٹس لینا چاہیے اور اس کے تدارک کے لیے صرف ایک ہی چیز ہے یعنی برآمدات میں اضافہ اب اس کی وجہ ملک میں سیاسی کشیدگی ہے تو اس کا حل نکالا جائے۔ ملکی صنعت کو ترقی دینے کے لیے تمام تر حربے استعمال کیے جائیں۔ اگر یہ خسارہ اسی طرح بڑھتا رہا تو معیشت کے لیے کسی طرح بھی قابل برداشت نہ ہوگا۔ کیوں کہ برآمدات میں اضافہ ہونا چاہیے، نیز تجارتی خسارہ ہر ممکن طریقے سے کم سے کم ہونا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔