سمادھی سرگنگارام

مدثر بشیر  اتوار 19 اکتوبر 2014
نئی نسل برطانوی راج میں جدید لاہور کے بانی کی سمادھی کے مقام سے بھی واقف نہیں ۔ فوٹو : فائل

نئی نسل برطانوی راج میں جدید لاہور کے بانی کی سمادھی کے مقام سے بھی واقف نہیں ۔ فوٹو : فائل

تاریخ کے اوراق اس بات کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں کہ جن اقوام، ممالک اور معاشروں نے اپنے محسنوں اور عظیم لوگوں کو بھلا دیا تو ہر عہد میں ان کی جگ ہنسائی ہوئی۔

عہد حاضر میں جو کچھ مملکت پاکستان کے ساتھ ہو رہا ہے اس کے دیگر اسباب کے ساتھ ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ اس دیس کے باسیوں نے اپنے محسنوں کو نہ صرف بھلا دیا بلکہ ان کو مکمل طور پررد کردیا۔ اس کی ایک مثال زیر نظر شخصیت سے بھی ملتی ہے۔ لاہور میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو کہ گنگا رام اسپتالکے نام اور مقام سے واقف نہ ہو۔  اہل لاہور کی ابک بڑی تعداد اس اسپتالکے بانی سرگنگارام سے مکمل ناواقف ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اگر ان کو سرگنگارام کی زندگی کے بارے میں بتایا جائے اور یہ جانکاری بھی دی جائے کہ ان کی سمادھی لاہور میں راوی روڈ کے مقام پر ہے تو ان کا پہلا تاثرحیرانگی کا اور دوسرا پر مذاق اور تضحیک آمیز ہوتا ہے۔

’’چھڈو جی، اوہ ہیگاتاں اک ہندو سی‘‘ (چھوڑو جناب وہ تو ایک ہندو تھا)
پنجاب کی دھرتی کا یہ عظیم سپوت جو کہ انگریز عہد میں نئے لاہور کا بانی کہلایا، تعلیم کے اونچے مراتب پر فائر گنگارام اپنے عہد کے مانے ہوئے انجینئر اور انسان دوست شخص تھے۔ شہر لاہور سے عشق میں سرشار اس بندے کے قائم کردہ اداروں اور تعمیرات سے آج بھی اہل لاہور بہرہ مند ہیں۔ اب ایک نگاہ اس بے مثال شخص کی زندگی پر ڈالتے ہیں۔ گنگارام کا جنم 13 اپریل1851ء کو شیخوپورہ کے ایک نواحی علاقے مانگٹاوالا میں ہوا۔ ان کے والد کا نام دولت رام تھا جو کہ اس وقت ایک مقامی پولیس اسٹیشن میں سب انسپکٹر تھے۔ گنگا رام کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد وہ امرتسر میں ایک عدالت میں ملازم ہو گئے۔

گنگارام کو امرتسر میں پہلے ایک نجی سکول میں داخل کرایا گیا اور پھر اسی شہر سے دسویں کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول امرتسر سے پاس کیا۔ دسویں تک آپ خطاطی اور فارسی زبان پر مہارت حاصل کر چکے تھے۔ 1869ء میں آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور اپنی تعلیمی قابلیت کی وجہ سے وظیفہ حاصل کیا۔ 1871ء میں انہوں نے تھامس انجینئر نگ کالج رودکی میں داخلہ لیا۔ 1873ء میں آپ نے یہاں سے امتحان نہ صرف گولڈ میڈل حاصل کر کے پاس کیا بلکہ اس کے ساتھ اس کالج سے گریجویشن کرنے والے پہلے ہندوستانی کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ وطن واپسی پر انہیں انگریز سرکار کی دہلی میں شاہی عمارات کی تعمیر کے کام پر فائز کیا گیا۔

ان کے کام کی اعلیٰ ترین مہارت کو دیکھتے ہوئے۔ لارڈ رپون نے ان کو مزید تربیت کے لئے انگلستان بریڈ فورڈ بھیجوا دیا۔ وہاں پر آپ نے شہروں میں پانی کی ترسیل گٹر کے جدید نظام میں عبور حاصل کیا۔ ہندوستان واپس آنے کے بعد ان کو پنجاب کے کئی اضلاع میں سرکاری عمارات کی تعمیر کے لئے بھیجا گیا۔ لاہورکے علاوہ، پٹیالہ، شیخوپورہ، امرتسر، لائل پور (فیصل آباد) میں کئی عمارات دکھائی دیتی ہیں۔ لاہور میں انہوں نے اس وقت کے ایک بڑے نام رائے بہادر کنہیا لال ہندی کے معاون کے طور پر کام کیا۔ رائے بہادر کنہیا لال ہندی اپنے عہد کے انتہائی عالم فاضل انسان تھے جو کہ لاہور کے ایگزیکٹو انجینئر ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ لاہور اور تاریخ پنجاب جیسی شہرہ آفاق کتب کے مصنف بھی تھے۔ انہوں نے گنگا رام کے بارے میں کچھ یوں کہا۔

’’لالہ گنگارام نے میرے ذہن پر ایک روش تاثر چھوڑا ہے۔ مجھے ابھی تک ان کی سفید پگڑی اور کلہ یاد ہے۔ لباس میں ان کا خاص چناؤ‘ ان کا مسکراتا چہرہ اور ان سب سے بڑھ کر ایک ڈھلکتا ہوا زخم کا نشان جو کہ ان کی دائیں بھنوئوں کی جانب ہے جو کہ ایک ستارے کی مانند جگمگاتا ہے اور ان کی شخصیت کا خاص حصہ بھی ہے اور وہ جو کہ بوٹس (انگریزی جوتے) پہنتے ہیں‘ ان ایام میں بہت کم ہندوستانی پہنتے تھے۔‘‘

تعمیرات کے علاوہ ان کو زراعت پر خاص مہارت حاصل تھی۔ جدید تعلیم سے بہرہ مندی کے باعث انہوں نے منٹگمری (ساہیوال) اور لائلپور (فیصل آباد) میں کئی ہزار ایکڑ زمین جو کہ بنجر تھی پنجاب گورنمنٹ سے ٹھیکے پر حاصل کی اور پھر اس کو اپنی تعلیم اور ذہانت کے باعث سر سبزوشاداب علاقے میں تبدیل کر دیا۔ ان کے اس تجربے سے کئی ہزار بندے برسر روزگار ہوئے۔ وہ تمام بندے مذہب، ذات پات کی تقسیم سے باہر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مہاتما گاندھی کے چرخے اور انگریز سامراج کی لڑائی کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔ وہ ایک خاص نقطۂ نگاہ سے کارل مارکس کی تعلیمات سے انتہائی متاثر تھے وہ ہندوستان سے غربت‘ بیماری‘ تعلیم کے فقدان اور بے روزگاری کے خلاف ساری عمر نبرد آزما رہے۔ وہ معاشرتی ترقی کو ایسی معاشی ترقی کے ساتھ جوڑتے تھے جس میں تمام انسانوں کو یکساں حقوق حاصل ہوں۔ سر میلکم میلے جو کہ انگریز عہد میں کچھ عرصہ پنجاب کے گورنر بھی رہے، ان کا گنگارام کے بارے میں کہنا تھا۔

’’وہ ایک سورما کی مانند جیتتا ہے اور ایک صوفی کی مانند دان کرتا ہے‘‘۔
1885ء میں جب گنگا رام لاہور آئے تو ان کو رائے بہادر کے خطاب سے نوازا گیا۔ 1900ء میں لارڈ کرزن نے کنگ ایڈورڈ ہفتم کی تاجپوشی کے لئے شاہی دربار کی تعمیر کے لئے گنگا رام کو ذمے داری سونپی جو کہ انہوں نے کمال احسن طریقے سے پوری کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا نام ہندوستان کے ساتھ ساتھ انگلستان کی تاریخ کے صفحات پر بھی نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ سرگنگا رام کی تمام زندگی انسانی فلاح و بہبود کے کاموں میں گزر گئی۔ اس حوالے سے ایک واقعہ طارق مقبول نے اپنے طالب علموں کو سنایا۔ طارق مقبول جو کہ ریلوے روڈ کالج میں انگریزی کے استاد تھے۔ آج کل کینیڈا میں ہوتے ہیں۔

ایک مرتبہ گنگارام کے گاؤں سے ان کے بچپن کا دوست آ گیا۔ اس نے ان سے ان کی بے پناہ شہرت اور دولت کے بارے استفسار کیا تو گنگارام نے اس طرح کا جواب دیا۔

’’جب میں شہر آیا تو میں نے ایک شراکت داری کی جو کہ پچاس‘ پچاس فیصد پر تھی۔ اس شراکت داری کے باعث مجھے یہ سب کچھ ملا۔‘‘
’’کس سے شراکت داری ہوئی‘‘ دوست نے حیرانگی سے پوچھا۔

’’بھگوان سے…‘‘ گنگا رام نے مسکرا کر کہا۔
’’بھگوان سے؟‘‘ دوست نے حیرانگی سے پوچھا۔

’’ہاں بھگوان سے ‘ میں جو کھاتا ہوں اس کا پچاس فیصد لوگوں پر خرچ کر دیتا ہوں‘‘ گنگارام نے اسی طرح مسکراتے ہوئے کہا۔

یہی وجہ ہے کہ ان کے فلاحی منصوبے لاہور‘ امرتسر‘ پٹیالہ اور دہلی میں آج روز تک دکھائی دیتے ہیں۔ لاہور میں جی پی او‘ لاہور عجائب گھر‘ گورنمنٹ کالج لاہور کا کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ‘ میواسپتالکا البرٹ وکٹرونگ‘ ایچیسن کالج‘ میو سکول آف آرٹس (موجودہ این سی اے) مال روڈ کا ایک خاص طرز تعمیر ماڈل ٹاؤن اور گلبرگ جیسی اس دور کی جدید عمارات کی نئی کالونیوں کے نقشے‘ یہ سب سرگنگا رام کے تجربے اور دانش کے ثبوت ہیں۔

کچھ منصوبے ایسے تھے جن پر انہوں نے اپنی جیب سے پیسہ لگایا۔ ان میں سب سے پہلے ان کی رہائش گاہ کا ذکرکرتے ہیں جو کہ آج بھی اولڈ ہیلے کالج آف کامرس کے نام سے جین مندر کے قریب ہے۔ یہ عمارت انہوں نے کامرس کی تعلیم کے باعث سر میلکم ہیلے کو عطیہ کر دی تھی۔ جیل روڈ پر ان کا قائم کردہ سکول جو کہ سرگنگا رام ہائی سکول کے نام سے جانا جاتا تھا۔ تقسیم کے بعد اسی جگہ پر لاہور کالج آف گرلز کا قیام عمل میں آیا جو آجکل یونیورسٹی بن چکا ہے۔ راوی روڈ پر معذوروں کے لئے ایک گھر تعمیر کیا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ایک ڈسپنسری وچھووالی لوہاری میں بنائی۔

بعدازاں1921ء میں سرگنگارام اسپتالکی صورت اختیار کر گئی۔ ان کی وفات کے بعد 1943ء میں اس اسپتالکو کوئنز روڈ منتقل کر دیا گیا۔ یہاں پر سرگنگام رام کا قائم کردہ ایک میڈیکل کالج بھی تھا جو کہ ان کے بیٹے بالک رام کے نام پر تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اس کالج کو محترمہ فاطمہ جناح کے نام پر کر دیا گیا جو آج تک قائم ہے۔ رینالہ خورد بھی سرگنگا رام کے احسانوں تلے دبا دکھائی دیتا ہے۔ رینالہ خورد میں اسپتاللیڈی میکلیگن سکول اور رینالہ خورد پاور پراجیکٹ اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ پٹھان کوٹ اور امرتسر کا ریلوے ٹریک بھی ان ہی کا بچھایا ہوا تھا۔ اپنی ریٹائر منٹ کے بعد وہ ریاست پٹیالہ کے ساتھ منسلک ہو گئے۔ پٹیالہ میں کئی تعمیرات آج بھی ان کی تعمیرات کی یاد گار ہیں۔ موتی باغ پیلس‘ سیکرٹریٹ بلڈنگ‘ وکٹوریہ گرلز سکول۔

کئی پولیس اسٹیشن اور عدالتیں ا ن ہی کے زیر نگرانی تعمیر ہوئیں انہوں نے گھوڑا ٹرین کا بھی ایک بے مثال تجربہ کیا۔ یہ ٹرین ان کے قائم کردہ دیہات گنگا پور سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر بچیانہ ریلوے اسٹیشن تک تھی۔ اس ریلوے ٹریک پر گھوڑے بگھی نما گاڑی کو کھینچتے تھے۔ ریل کی تاریخ میں یہ پوری دنیا میں اپنی نوعیت کی ایک انوکھی گاڑی تھی۔ گھوڑا گاڑی 1980ء تک چلی اور بعدازاں اس کو ختم کر دیا گیا۔ اس کے خاتمے کے تیس برس بعد ضلع فیصل آباد کی انتظامیہ میں کوئی ایسا اللہ کا بندہ آیا جس نے اس ریل کی اہمیت کو ایک ثقافتی جزو جانتے ہوئے اس کو ایک یادگار کے طور پر بحال کیا۔

پنجاب کے اس عظیم سپوت نے 10 جولائی 1927ء کو لندن میں وفات پائی۔ ان کی چتا کوادھر آگ لگائی گئی اور استھیاں ہندوستان بھجوائی گئیں۔ ان میں سے کچھ گنگا دریا میں بہا دی گئیں اور باقی استھیاں ان کے محبوب شہر لاہور بھجوا دی گئیں۔ یہاں پر راوی روڈ پر بڈھے راوی کے کنارے پر ایک عظیم الشان سمادھی تعمیر کی گئی جہاں آپ کی استھیاں دفن کی گئیں۔ ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے یونیورسٹی آف روکری نے 1957ء کو ان کے اعزاز میں ایک ہاسٹل تعمیر کیا جو کہ سرگنگا رام کے نام سے منسوب تھا۔1951ء میں گیارہ ایکڑ کے وسیع رقبے پر نیو دہلی میں ان کے نام سے اسپتالکی تعمیر کی گئی۔

اس اسپتالکا سنگ بنیاد اس وقت کے ہندوستان کے وزیراعظم شری جواہرلال نہرو نے رکھا۔ ان کا پوتا ایشوین رام‘ جارجیا سکول آف ٹیکنالوجی میں اسٹنٹ پروفیسر ہے۔ ان کی پوتیاں شریلہ فلیٹیز‘ اور ہیروٹس فلیٹیز انگلستان میں بطور استاد کام کرتی ہیں اور ادھر کی سیاست میں بھی خاصی سرگرم ہیں۔ لاہور کے اس عظیم سپوت کو لاہور کی یاداشتوں سے بڑی بے رحمی سے نکالا گیا۔ نقوش لاہور نمبر اور باقر جیسے مؤرخین نے بھی تقسیم کے بعد اپنی تحریروں کا حصہ نہ بنایا۔ صحافتی حلقوں میں انگریزی جرائد میں ایک آدھ مرتبہ ان پر کوئی مضمون ضرور چھیا۔ ان کی اس بے قدری پر مجھے سعادت حسن منٹو کی ایک تحریر یاد آ جاتی ہے جو ہمارے کلی رویئے کی غمازی کرتی ہے۔ ان کی اس تحریر کے حوالہ جات ملکی اور بیرون ملک تحریروں میں نظر آتے ہیں۔ یہ تحریر ان کی کتاب سیاہ ہاشیئے میں ’’جوتا‘‘ کے عنوان سے چھپی۔

جوتا
ہجوم نے رخ بدلا اور سرگنگا رام کے بت پر پل پڑا۔ لاٹھیاں برسائی گئیں‘ اینٹیں اور پتھر پھینکے گئے۔ ایک نے منہ پر تارکول مل دیا۔ دوسرے نے بہت سے پرانے جوتے جمع کئے اور ان کا ہار بنا کر بت کے گلے میں ڈالنے کے لئے آگے بڑھا۔ مگر پولیس آ گئی اور گولیاں چلنا شروع ہوئیں۔

جوتوں کا ہار پہنانے والا زخمی ہو گیا۔ چنانچہ مرہم پٹی کے لئے اسے سرگنگارام اسپتالبھیج دیا گیا۔

اب کچھ تذکرہ ان کی سمادھیکا۔ 1927ء میں وفات پانے والے گنگا رام کی استھیاں اس وقت بڈھے راوی کے پاس سان کے علاقے میں دفن کی گئیں اور 1933ء میں وہاں پر ایک انتہائی خوبصورت سمادھیتعمیر کی گئی ۔ اس میں انتہائی اعلیٰ درجے کا سنگ مرمر استعمال کیا گیا۔ سمادھیکے دو جانب آبادی اور دو جانب دریا تھا۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ اس کے قریب ہی محلہ مسان میں ان کا شمشان گھاٹ بھی موجود تھا۔ سمادھیدور سے کسی مندر کی مانند دکھائی دیتی تھی، جس کا گنبد خاص ہندو روایتی طرز تعمیر کا تھا۔ سمادھیکا احاطہ کئی کنال پر مشتمل تھا۔

جس میں چھ انتہائی خوبصورت برجیاں بھی تھیں جو کہ سمادھیکے تالاب سے آگے اس کے گنبد کے چاروں جانب تھیں۔ اس کے علاوہ زائرین کے لئے کچھ پکے مکانات بھی تعمیر کئے گئے تھے۔ تالاب کے گرد سنگ مرمر کے آٹھ بنچ بھی تھے۔ جن کے سامنے تالاب کی تین جانب سے پانچ پانچ سیڑھیاں نیچے کو جاتی تھیں۔ یہ تمام معلومات کا ذریعہ عصر حاضر میں سمادھیکے قریب رہائشی بزرگ شخصیات ہیں کیونکہ کسی بھی کتاب میں اس سمادھیاور سرگنگارام کا تذکرہ نہیں۔ تقسیم کے بعد بڈھا راوی ایک نالے کی شکل اختیار کر گیا اور اس کے قریب گھاس منڈی اور سمادھیکے گرد کا علاقہ رہائشی گھروں میں تبدیل ہو گیا۔

عصر حاضر میں جب داتا دربار سے مینار پاکستان کی جانب جایا جائے تو نئے تعمیر کردہ پلوں کے ساتھ نیچے سے ایک راستہ راوی روڈ قصور پورہ کی جانب جاتا ہے۔ اس سڑک سے بائیں گھومتے ہی پہلے کبھی لب سڑک بابا چھتری والا کا مزار تھا جو ان پلوں کی تعمیر کے باعث منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس مزار والی جگہ کے ساتھ ہی بائیں جانب نیچے کو ایک گلی جاتی ہے یہ سارا علاقہ کچا راوی روڈ سمادھی گنگا رام کہلاتا ہے۔  یہ سڑک نیچے کو جا کر ایک چوک میں کھلتی ہے اس چوک سے بائیں جانب سڑک سمادھی کو جاتی ہے جبکہ سیدھا راستہ سن رائز بلائنڈ سکول کو جاتا ہے۔ یہ سکول زمانے بھر میں مشہور ہوا کیونکہ اسی سکول کی کرکٹ ٹیم نے دو مرتبہ بلائنڈ کرکٹ ورلڈ کپ جیتا۔ سمادھی کے چاروں جانب مکانات ہیں۔ سمادھی کی عمارت کو دیکھ کر یہ تاثر ابھرتا ہے کہ اب جو اس کا رقبہ چار پانچ کنال پر محیط ہے۔ اصل عمارت میں یہ رقبہ زیادہ ہی ہوگا، سمادھی کی چار دیواری 1997ء میں تعمیر کی گئی جبکہ 1992ء میں بابری مسجد کے تنازعہ کے بعد سمادھی کی چاردیواری میں جو چھ برجیاں موجود تھیں وہ تمام کی تمام گرا دی گئیں محض مغربی سیدھ میں موجود ایک برجی کی بنیاد ابھی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

سنگ مرمر کے بنچ‘ فرش پر موجود سنگ مرمر اور ایک بارہ دری کے چبوترے میں بنی سمادھیپر سے سنگ مرمر اتار کر بازار میں کوڑیوں کے بھاؤ بیچ دیا گیا۔ سمادھیکے رقبے میں صرف اور صرف بارہ دری کا چبوترہ بچا، جس کی جنوبی سیدھ کی دیوار پر ہمیں تین کتبے ہندی میں لکھے نظر آتے ہیں۔ تالاب کو فرش کے برابر کر دیا گیا۔ سمادھیکے گنبد اور فرش پر انتہائی اوسط درجے کا پتھر لگایا گیا جبکہ سمادھیکی جنوب مغربی سیدھ میں اپنے وقت کے وفاقی وزیر بہود آبادی جے سالک کا بھی گھر تھا۔ وہ ایک اقلیتی رکن اسمبلی رہے لیکن انہوں نے بھی اس جگہ کی حرمت اور تقدس کو نہ جانا۔ سمادھیکے جنوب میںایک گلی کے پرانے مکان میں معروف غزل گائیک مہدی حسن کے رشتے دار کا گھر ہے۔ جب مہدی حسن خان صاحب لاہور تشریف لائے تو ایک برس کے قریب انہوں نے اس گھر میں ریاض کیا۔

سمادھی کے گرد کی زیادہ آبادی امرتسر اور سہارنپور کی ہے۔ پیتل اور سلور کے برتنوں پر نفیس کام کا فن بھی سہارنپور سے ایسا اس محلے میں آیا کہ آج ہینڈی کرافٹ ایسوسی ایشن کے صدر امیر حسین بھی اسی جگہ کے رہائشی ہیں۔ عصر حاضر کے ایک دو معروف صحافی بھی اسی محلے کے رہائشی ہیں۔ جنوبی سیدھ کے محلوں میں کبھی ایک اکھاڑہ بھی تھا جو کہ ’’اچھے کا اکھاڑہ‘‘ کے نام سے معروف تھا۔ اب گھاس منڈی کے ساتھ ساتھ اکھاڑہ بھی محض ماضی کی یاد ہے۔ سمادھی کی جنوب مغربی سیدھ میں جامع مسجد بلال ہے جس کے امام صاحب سندھ سے تعلق رکھتے ہیں۔ سمادھی کے کھلے صحن میں بچے کرکٹ اور فٹ بال کھیلتے ہیں اور نائٹ کرکٹ بھی کھیلی جاتی ہے۔ محکمہ متروک وقف املاک کی اجازت سے سمادھیمیں شادی بیاہ کی تقریبات کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔

بارہ دری کے وسط میں ایک کمرے میں سمادھیموجود ہے جس کے اندر کی چھت قدیم ہے۔ سمادھیکے کمرے کے چاروں جانب دروازے موجود ہیں۔ چبوترے کی چاروں سیدھ میں چاروں جانب شیر کے سر باہر کو نکلے ہوئے ہیں جو کہ تعداد میں آٹھ بنتے ہیں۔ سمادھیکے کمرے کی پچھلی جانب ایک بزرگ بہادر علی صاحب کی رہائش ہے اور سمادھیمیں ہی اس کی حفاظت کے لئے متعین مظہر اقبال بھی رہتا ہے۔ سمادھیکی پچھلی جانب ریڑھیاں کھڑی ہیں اور انتہائی گندگی کی حالت میں موجود ہیں۔ گنبد کے نیچے شمالی سیدھ میں ہمیں ہندی میں اوم لکھا ملتا ہے۔ اورمضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جنوبی سیدھ میں اردو میں اوم لکھا نظر آتا ہے۔ سمادھیکی شمال مغربی سیدھ میں بھی ایک کھلا میدان ہے جس کے بائیں جانب ایک قدیمی حکمت کی دکان ہے اس میدان کے سامنے وارثی سلسلہ کے ایک بزرگ سید اکرم علی شاہ وارثی احرام پوش کا بھی مزار ہے۔ یہ عمارت جمعرات کو مغرب سے عشاء تک کے لئے کھلتی ہے۔ عمارت کی قدامت اس کو انگریز سرکار کی عمارت بتلاتی ہے۔

اس کے قریب ہی گلی میں ایک بزرگ کی قبر بھی ہے جن کے نام کے نیچے ممبر صوبائی مسلم لیگ کونسل دہلی تحریر ہے۔ یہ کھلا میدان بطور نماز جنازہ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ سمادھیمیں موجود رہائشی بابا بہادر علی ایک ریڑھی پر کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرتے ہیں۔ سمادھیکے قریب رہائشی محلے دار انتہائی زندہ دل لوگ ہیں۔ تعطیل کے علاوہ اگر دیگر ایام میں لاہور کی کسی جگہ پر جایا جائے تو لوگ فراغت سے عاری ملتے ہیں۔ لیکن یہاں پر نوجوان پرانے لاہور کی نشانی دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ لوگ ایک سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس جماعت نے ان کے لئے کبھی کچھ نہیں کیا لیکن وہ صرف اس لئے اس کے ساتھ ہیں کہ ان کی ایک فون کال پر ادھر کا نمائندہ آ جاتا ہے۔

لاہور کی دیگر عمارات کی مانند یہ لوگ گنگا رام کے نام اور تاریخ سے کافی بہرہ مند ہیں اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کچھ برس قبل ہندوستان سے کچھ لوگ ادھر آئے اور سمادھیمیں ایک تقریب منعقد کی اور لوگوں کو معلوماتی کتابچے بھی تقسیم کئے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ادھر کے نوجوان ’’گنگا رام لورز سوسائٹی‘‘ بنانا چاہ رہے ہیں۔ وہ سمادھی کی حرمت سے بھی آشنا ہیں۔ اس کے باوجود یہ انتہائی تکلیف دہ بات ہے کہ عیدالاضحی کے موقع پر تمام محلے میں موجود قربانی کے جانور اسی سمادھیمیں باندھے جاتے ہیں۔ جدید طرز تعمیر آج کے کسی بھی سماج کی بنیادی ضرورت ہے لیکن پرانے طرز تعمیر اور ثقافت کی حامل یادگاروں سے ناروا سلوک سماج کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے لئے کافی ہے۔ یہ ایک سوال آج بھی موجود ہے کہ عہد حاضر کے لوگ ان عظیم لوگوں کی یادگاروں سے بدسلوکی کر رہے ہیں تو آنے والی نسلیں، آج کی نسلوں سے کیا کریں گی، یہ سوچ لیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔