(کھیل کود) - کیا قومی ٹیم 1992 کی تاریخ دہرائے پائے گی؟

سلیم ناصر  ہفتہ 18 اکتوبر 2014
پاکستان کے علاوہ جس ٹیم کی بات کیجائے اُنکو نہ صرف یہ پتہ ہے کہ اُن کا کپتان کون ہوگا بلکہ یہ بھی معلوم ہے کہ کونسی ٹیم ورلڈ کپ کھیلے گی۔ مگر پاکستان کا تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ وہ آفریدی جن کی کارکردی صفر ہے وہ بھی کپتانی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ فوٹو فائل

پاکستان کے علاوہ جس ٹیم کی بات کیجائے اُنکو نہ صرف یہ پتہ ہے کہ اُن کا کپتان کون ہوگا بلکہ یہ بھی معلوم ہے کہ کونسی ٹیم ورلڈ کپ کھیلے گی۔ مگر پاکستان کا تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ وہ آفریدی جن کی کارکردی صفر ہے وہ بھی کپتانی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ فوٹو فائل

پورا سال کھیل کھود یا پھر غیر نصابی سرگرمیوں میں اپنا وقت ضائع کرنے کے بعد جب طالب علم امتحان کے قریب پہنچتا ہے تو اُلجھن کا شکار ہوجاتا ہےاور ایسی صورتحال میں شاید یہ بنتا بھی ہے۔ شدید الجھن کے عالم میں جب طالبعلم کمرہ امتحان میں حل کیا جانے والا پرچہ دیکھتا ہے تو اس کی تو سٹی گم ہوجاتی ہے،مسئلہ الجھن میں پڑہ جانے یا سٹی گم ہوجانے سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ مسئلہ تو  تیاری نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔

بالکل اسی طرح ورلڈ کپ 2015 کے لیے ہماری قومی ٹیم کا بھی یہی حال ہے ۔ اتنے بڑے ایونٹ کے آتے ہی ٹیم الجھن کا شکار ہوگئی ہیں۔ ہر طرف افراتفری اور بے چینی کا ماحول ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں کہ آخر اب کرنا کیا ہے۔ اور اگر ایسی صورتحال میں جب ٹیم ورلڈ کپ کے لیے میدان میں اترے گی  تو کھلاڑیوں کی سٹی گم ہونا  صاف نظر آرہا ہے۔

ویسے تو مسائل اتنے کہ ذہن سازی کرنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ بھلا کسی مسئلے کا پہلے ذکر کیا جائے۔ مگر سب سے پہلے تو قومی ٹیم کے لیے کپتان کا معمہ ہے جو ہر بڑے ایونٹ سے پہلا سر اُٹھاتا ہے اور پھر کسی نئے نتازعے کو جنم دے کر حل ہوجاتا ہے۔ کپتان مصباح الحق کی کپتانی پر عرصہ دراز سے اعتراضات اٹھ رہے ہیں لیکن عین ورلڈ کپ کے موقع پر اُن کو کپتانی کے حوالے سے افواہیں کیا ٹھیک ہیں؟ ہم اکثر آئی سی سی پر تو پاکستان کے خلاف سازش کی ذمہ داری ڈالتے ہیں مگر جو کچھ ہم خود اپنی ٹیم کے ساتھ کررہے ہیں کیا یہ کیس بڑی سازش سے کم ہیں۔

ایک تو میں اب تک سمجھ نہیں پایا کہ شاہد خان آفریدی  میں کون کی خوبیاں ہیں کہ وہ کچھ بھی نہیں کرتے مگر پھر بھی شائقین اور ٹیم انتظامیہ اُن کو ہٹانے کی بات بھی برداشت نہیں کرسکتی   ۔اگر۔  یہی آفریدی کسی اور ٹیم میں ہوتے تو اب تک اُن کا کیرئیر ختم ہوچکا ہوتا۔ بس پوری قوم ایک چھکے کے انتظار میں ہوتی ہے وہ بھی اب تو کئی کئی میچز کے بعد دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک تو ٹیم میں جگہ مشکل اُوپر سے ناجانے وہ کونسا لمحہ تھا جب شاہد آفریدی کو یہ خیال آیا کہ اُن کو کپتان بنایا جارہا ہے اور یہ صرف خیال نہیں بلکہ اُن کی بے صبری کا اندازہ اِس بیان ’’اگرمجھے کپتان بنانا ہے تو فیصلہ جلدی کردیا جائے‘‘ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے وہ تو شکر ہے بورڈ کو جلد ہوش آگیا اور مصباح کو 2015 ورلڈ کپ تک کپتان بنانے کا اعلان کردیا۔

بات صرف کپتانی کی بھی نہیں ہے ۔۔۔۔ ایک طرف تو دنیا بھر کی ٹیموں کونہ صرف  یہ پتہ ہے کہ اُن کے کپتان کون ہے بلکہ یہ بھی پتہ ہے کہ ورلڈ کپ کے اسکواڈ کے لیے کون کون سے کھلاڑی شامل ہیں اور وہ اب صرف تیاریوں میں مصروف ہیں ۔۔۔ مگر صاحب اب کیا کیجیے کہ پاکستان میں پہلے سیاست تو ہوجائے پھر ٹیم کا انتخاب بھی ہو ہی جائے گا اور کیا ہوا کہ اِس بار اچھا پرفارم نہ کرسکے اگلے چار سال بعد بھی ورلڈ کپ ہونا ہی ہے اُس میں اچھا کھیل پیش کرلیں گے اور آخر 1992 سے ہم کر ہی کیا رہے ہیں۔

25 مارچ 1992 میں آسٹریلیا میں میلبرن کے مقام پر پاکستانی شاہینوں نے انگلینڈ کو ورلڈ کپ میں شکست دی تھی،ٹھیک 22 سال بعد ایک بار پھر وہی مقام ہے لیکن آسٹریلیا کے خلاف حالیہ یو اے ای سریز میں پاکستان کو جس بُری طرح شکست ہوئی ہے وہ یہ بتارہا ہے کہ حالات کچھ خراب خراب سے لگ رہے ہیں جبکہ آسٹریلیا کےبہت سے اہم کھلاڑی اس سیریز میں شامل نہیں تھے ۔  اگر نا کامیوں کا تسلسل جاری رہا تو پاکستانی شایقین کا ورلڈ کپ 2015 جیتنے کا خواب تو ادھورا رہ جائے گا کہ قومی ٹیم ایک بار پہراپنی تاریخ دہرائے گی۔ لیکن قومی ٹیم کسی بھی حال میں ہو اچھا کھیلے یا برا پاکستانی شایقین اس منطق پراکتفا کرتے ہیں کہ پاکستانی شاہین کسی بھی وقت کچھ بھی کرجاتی ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔