(پاکستان ایک نظر میں) - شاید پرانا پاکستان ہی اچھا تھا!

اعظم طارق کوہستانی  اتوار 19 اکتوبر 2014
پاکستان کی حد تک اگر کیلنڈر آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی جانب جائے تو یہی ہمارے لیے بہتر ہے کہ بات ہو پی آئی اے کی، اسٹیل مل کی، ریلوے کی یا کسی بھی شعبے کی ہم آگے جانے کے بجائے پیچھے ہی جارہے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

پاکستان کی حد تک اگر کیلنڈر آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی جانب جائے تو یہی ہمارے لیے بہتر ہے کہ بات ہو پی آئی اے کی، اسٹیل مل کی، ریلوے کی یا کسی بھی شعبے کی ہم آگے جانے کے بجائے پیچھے ہی جارہے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

میں نے ایک نوجوان سے استفسار کیا: ’’پاکستان بھارت سے کس چیز میں پیچھے ہے۔‘‘

آپ یقین کریں میں کسی سنجیدہ جواب کا منتظر تھا لیکن آگے سے سگریٹ کا کش لگا کر وہ بولا: ’’میرے خیال میں بھارت کی فلمیں بہت اچھی ہوتی ہیں۔ پاکستان بس اچھی فلمیں بنانے میں مار کھا جاتا ہے۔ ویسے ہمارے ڈرامے بھی کچھ کم نہیں ہیں۔‘‘

میرا جی چاہا کہ اس کو ناک سے پکڑ کر زمین پر پٹخ دوں لیکن میرے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔ ایک تو میں شریف آدمی ہوں دوسرا مجھے شرافت میں رکھنے کے لیے اس کی پھڑکتی ہوئی مچھلیاں ہی کافی تھیں۔ جسے عرف عام میں ڈولے شولے کہا جاتا ہے۔ خیر اس کے موڈ کو دیکھتے ہوئے ہم نے بھی اس لمحے سے فائدہ اُٹھایا: ’’اور کرکٹ کے متعلق کیا خیال ہے۔‘‘

’’میرے خیال میں ففٹی ففٹی۔‘‘

’’فٹے منھ تیرا۔‘‘ میں نے دل میں سوچا۔

اب آپ خود بتائیں کہ یہ ہمارا المیہ نہیں کہ ہماری سوئی بھارت کے مقابلے میں فلموں، ڈراموں اور کرکٹ میں اٹکی ہوئی ہوتی ہے۔ ہمیں علم ہی نہیں کہ بھارت اس وقت کن بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ ہم ایک ارفع کریم اور بابر کی کارکردگی پر خوش ہوتے ہیں اور خوش ہونا بھی چاہیے لیکن بھارت روز ایک ارفع کریم بنارہا ہے۔ روز ایک نیا بابر آئی ٹی کی دنیا میں انقلاب برپا کررہا ہے۔

بھارتی حکومت نے دہلی، مدراس، کولکتہ، کانپور اور ممبئی میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کھولے۔ یہ ملک کا دوسرا ایک ایسا ادارہ بن گیا جہاں سے گریجویشن کرنے والے طلبا کو ملازمت ملنا یقینی ہوتا ہے۔ یہاں تعلیم انتہائی معیاری، سخت اور جدید خطوط پر دی جاتی ہے۔ ۷۰ء کی دہائی اور اس کے بعد یہاں تعلیم پانے والے طلبہ کو امریکا اور یورپ کی بڑی بڑی کمپنیاں اور تحقیقی ادارے اپنی طرف راغب کرنے لگے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔بھارت میں آئی آئی ٹی کے طلبہ آج امریکا کے ہر بڑے ادارے اور ہر بڑی کمپنیز میں بڑی تعداد میں نظر آئیں گے۔ یہاں سے فارغ ہونے والے طلبہ سب سے زیادہ تنخواہ پانے والے پیشہ ور ہی نہیں بلکہ دنیا کے کامیاب ترین انسانوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ بھارت میں گاؤں، قصبے اور چھوٹے چھوٹے شہر خاموشی کے ساتھ تعلیم کے ایک انقلاب سے گزر رہے ہیں۔ ہر جگہ اچھے اداروں میں داخلہ حاصل کرنے کی جدو جہد ہو رہی ہے۔ بھارت کی اکثریت گاؤں اور چھوٹے چھوٹے قصبوں میں آباد رہی ہے ۔ اب وہ صرف تعلیم ہی نہیں میعاری تعلیم کے ذریعے اپنا مقدر تبدیل کر رہے ہیں۔

بات محض آئی ٹی تک محدود نہیں ہے ۔۔۔ آپ کسی بھی شعبے کی بات کیجیے آپ کو ایسا لگے گا کہ پاکستان کی حد تک اگر کیلنڈر آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی جانب جائے تو یہی ہمارے لیے بہتر ہے۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ آپ لوگ پریشان ہورہے ہیں مگر ہونے کی ضرورت نہیں کہ میں دلیل بھی دیتا ہوں۔ 90 کی دہائی تک پاکستان اور بھارت بالکل ہم پلہ تھے۔ پی آئی اے جو ڈوب نہیں رہی بلکہ زمین میں دھنس رہی ہے  مگر  اُسی دہائی میں یعنی 1985 میں اِس نے فلائی ایمیریٹس کی پہلی پرواز کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدام کیا تھامگر اب وہ زمین سے آسمان کو پہنچ گئی اور پی آئی اے بدقسمتی سے آسمان سے زمین میں۔ یہی کچھ پاکستان اسٹیل مل  کے ساتھ بھی ہوا ۔۔۔۔ جو ایک وقت میں سونا اُگلتی تھی مگر آج تو سب کچھ اُگلنے کے باوجود چلنے کا نام تک نہیں لے رہی ۔۔۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی کہ آپ کسی بھی ادارے کا نام لیں وہ وقت کے ساتھ ساتھ اُوپر جانے کے بجائے نیچے کی جانب جارہا ہے۔

کچھ اور نہیں تو صحت کے میدان میں بھی شدید چیلنجز کا سامنا ہورہا ہے۔ آپ اپنا حال دیکھیں کہ پولیو جیسے مرض کو پوری دنیا سے ختم کیا چکا ہے۔ صرف تین ممالک رہ گئے ہیں جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ جبکہ بھارت پولیو فری ملک بن چکا ہے۔ ہم میں سے ہر نوجوان روزگار نہ ہونے کا رونا روتا ہے۔ لیکن آتا اسے کچھ بھی نہیں ہے۔ اب ایک اور خبر آئی ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے افریقہ میں تباہی پھیلانے والے ایبولا وائرس سے نمٹنے اور احتیاطی تدابیر اختیارکرنے کے حوالے سے حکومت پاکستان کوہائی الرٹ جاری کیا ہے۔ ہدایت ملی ہے کہ ایئرپورٹ پرایبولا کے ممکنہ وائرس سے نمٹنے کے لیے خصوصی آئی سولیشن یونٹ قائم کریں جبکہ ملک کے داخلی وخارجی راستوں پر بھی مسافروں کی اسکریننگ کی جائے ۔

اب آپ خوچ سوچیں کہ یہ ایبولا وائرس اگر آجاتا ہے تو ہم اس پر قابو پالیں گے؟ ڈینگی وائرس اور پولیو کے مرض پر ہم اب تک قابو نہیں پاسکے۔ یہ وائرس اگر بھارت میں آجاتا ہے تو مجھے امید ہے کہ وہ اس پر قابو پالیں گے لیکن اپنے حوالے سے ہم اب تک امید اور یقین کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ان تمام معاملات میں حکومت، میڈیا اور ہم سب ذمہ دار ہیں۔ حکومت نے تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبے کو سخت نظر انداز کیا ہے۔ جبکہ میڈیا کی نظر میں یہ دو شعبے ریٹنگ گرانے والے موضوعات لگتے ہیں۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہمیں ترقی کا سفر کہاں سے شروع کرنا ہے۔ اگر لوگ بیمار ہوں اور نا خواندگی بڑھتی جارہی ہو تو ترقی کا سوچنا بلی کے خواب میں چھیچھڑے کی مانند ہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

اعظم طارق کوہستانی

اعظم طارق کوہستانی

اعظم طارق کوہستانی ان کا قلمی نام ہے۔ اصلی نام ’محمد طارق خان‘ ہے۔ نوجوان صحافی اور ادیب ہے۔ آج کل بچوں کے رسالے ’جگمگ تارے‘ کے ایڈیٹر ہیں۔ بچوں کے لیے اب تک ان کی کہانیوں پر مشتمل دو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔