اپنی صلاحیتوں سے انصاف کریں

عاطف مرزا  اتوار 19 اکتوبر 2014
پسند کے کام میں ہی شخصیت کا اظہار ممکن ہے۔  فوٹو : فائل

پسند کے کام میں ہی شخصیت کا اظہار ممکن ہے۔ فوٹو : فائل

ایک آدمی اپنی پوری زندگی اس تلاش میں رہا کہ دنیا کا بہترین جنرل کون ہے۔

وہ اپنی تلاش میں ناکام رہا اور آخر کار دنیا سے چل بسا۔ روز قیامت اس نے فرشتوں سے دریافت کیا کہ دنیا کا بہترین جنرل کون ہے، اسے جواب دیا گیا کہ اگر تم اپنے دائیں جانب دیکھو تو تمہیں وہ عظیم جنرل نظر آئے گا، جب اس نے بڑے اشتیاق سے اس طرف دیکھا تو بہت مایوس ہوا، اس نے کہا یہ شخص تو میرے شہر کی فلاں گلی کا موچی تھا۔ اس کو جواب ملا اگر یہ شخص جنرل بننے کا فیصلہ کرتا تو دنیا کا سب سے بڑا جنرل ہوتا۔ عظیم مصنف مارک ٹوئن کی یہ حکایت ہماری توجہ اس طرف دلاتی ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنے حقیقی پوٹینشل سے بے خبر رہتے ہیں۔

قدرت ہر شخص کو ایسی صلاحیتیں دیتی ہے کہ وہ ان سے کام لے کر ایک شاندار زندگی گزار سکتا ہے۔ اس شاندار زندگی کا نقطہ آغاز یہ ہے کہ انسان اپنے فطری رجحانات اور صلاحیتوں کو پہچانیں اور اپنے کام یا پیشے کا انتخاب اپنی صلاحیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے کریں۔ معروف شاعرہ ایم سی رچرڈز نے اپنے برتن بنانے کے شوق کے بارے میں کہا تھا کہ کام خود اپنی ذات کھوجنے کا ایک ذریعہ ہے، ہم دراصل برتن نہیں بنا رہے ہوتے بلکہ خود اپناآپ بنا رہے ہوتے ہیں، یہ حقیقت ہر کام کے بارے میں صحیح ہے۔

دنیا میں ہر شعبے کے کامیاب لوگ وہی ہیں جنہوں نے اپنے کام کو محض ملازمت یا نفع کے لیے نہیں کیا بلکہ انہیں اس کام کا جنون تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کاجو وقت جاگتے ہوئے گزارتے ہیں، اس میں سے آدھا وقت ہم کام کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہم تعلیم مکمل کرنے کے بعد سے 65 سال کی عمر تک اپنی زندگی کے نوے ہزار گھنٹے کام کرتے ہوئے گزارتے ہیں، اس لیے دانش مندی یہی ہے کہ ہم اپنے لیے وہ کام منتخب کریں جو ہمیں پسند ہو۔

دنیا کا سب سے بڑا موجد ایڈیسن کو تسلیم کیا جاتا ہے، اس سائنسدان نے ایک ہزار سے زائد مفید ایجادات دنیا کو دیں۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے اپنی زندگی میں ایک دن بھی کام نہیں کیا۔ یعنی وہ ساری عمر اپنے شوق اور جنون پر کام کرتا رہا، اس کے عظیم کارنامے اسی شوق اور جنون سے وجود میں آئے۔ عظیم چینی مفکر کینفوشس نے بھی یہی کہا تھا کہ اگر آپ اپنی پسند کا کام کرنے لگیں گے تو درحقیقت آپ کو ایک دن بھی کام نہیں کرنا پڑے گا۔

آپ کسی بھی کامیاب، انجینئر، ڈاکٹر، سائنسدان، وکیل، آرٹسٹ اور مصنف کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اسے اپنے کام سے محبت ہے۔ وہی معاشرے خوشحال اور انسانی ترقی کا شاندار نمونہ بنتے ہیں، جہاں نوجوان اپنے فطری رجحانات کے مطابق اپنے پیشے منتخب کرتے ہیں۔ یہ نوجوان اپنی بہترین صلاحیتوں اور توانائی سے معاشرے کو بہتر بناتے ہیں۔ آئن سٹائن سے اس کے ٹیلنٹ کے بارے میں پوچھا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ اس میں اور کوئی خوبی نہیں، ہاں اسے صرف ایک جنون ہے اور وہ ہے متجسس رہنے کا۔ ہم اپنے رجحانات اور صلاحیتوں میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ بعض لوگ لکھنے اور بولنے کی اچھی صلاحیتیں رکھتے ہیں۔

یہ اچھے ادیب، صحافی، شاعر بن سکتے ہیں۔ کچھ افراد منطقی ذہن رکھتے ہیں اور حساب کتاب آسانی سے کرسکتا ہے، یہ اچھے سائنسدان، ڈاکٹر یا انجینئر بن سکتے ہیں۔ بعض افراد نغمگی یا موسیقی میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ دوسروں میں زیادہ دلچسپی لینے اور میل جول پسند کرنے والے افراد اچھے سیلز مین، کونسلر اور استاد بن سکتے ہیں۔ اسی طرح ہم میں سے کچھ افراد اچھے کھاڑی، دستکار، پینٹنگ اور ڈرائینگ کی غیر معمولی صلاحیتیں رکھنے والے ہیں، قدرتی مناظر، حیوانات اور نباتات پسند کرنے والے ہوتے ہیں۔ آج کی دنیا میں کریئر کے لینڈ سکیپ میں انجینئرنگ، آرٹس، بزنس اور فنانس، کمپیوٹر اینڈ انفارمیشن سائنس، تعلیم، فزیکل اور سوشل سائنس، مینجمنٹ، میڈیا اینڈ کمیونیکیشن کے گروپس وغیرہ شامل ہیں۔ کسی بھی شعبے میں کامیاب ہونے کے لیے اسی شعبے سے متعلقہ صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔

ہمارے معاشرے میں شعبوں کے حوالے سے بھی کئی Stereotypes پائے جاتے ہیں۔ بعض پیشوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ والدین بھی یہی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے نئے شعبوں میں قسمت آزمائی کرنے کے بجائے مقبول شعبوں میں جائیں۔ سکول کالج، اساتذہ، الدین ہمیں کمفرٹ زون میں رہنا سکھاتے ہیں، ہم رسک لینے اور ناکام ہونے سے ڈرنے لگتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہم انہی مضامین کا انتخاب کریں جو ہمارے دوست اپنے لیے منتخب کررہے ہیں، یہ بھی ضروری نہیں کہ ہم انہی گنے چنے پیشوں میں جائیں جن میں سب لوگ جانا پسند کرتے ہیں۔ خود اپنی ذات کو سمجھنے کا عمل جاری رکھیں۔ خود پر یہ بھی لازم نہ کریں کہ اگر آپ نے ایک مخصوص شعبے میں جانے کے لیے تعلیم حاصل کی ہے تو اب اس کے علاوہ کسی شعبے میں جانے کے متعلق سوچنا بھی نہیں۔ آپ نے کسی دوسرے شخص کی فوٹو کاپی نہیں بننا بلکہ اپنی شخصیت کو اوریجنل بنانا ہے۔

اگر آپ کا رجحان کسی ایشے شعبے کی طرف ہے جو اتنا معروف نہیں تو آپ کو اس شعبے میں آنے اور کامیاب ہونے کے لیے ہمت اور حوصلے سے کام لینا ہوگا۔ اگر آپ آرٹس کے میدان میں نام بنانا چاہتے ہیں تو یہ صرف اسی صورت ممکن ہے کہ آپ کو اپنے کام کا جنون ہو اور آپ اس کے لیے سخت محنت کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اگر آپ کا کام یا پیشہ آپ کا شوق یا جنون ہے تو آپ اپنی نیند قربان کرتے ہوئے رات دیر تک کوئی کتاب پڑھ رہیں ہوں گے یا کسی تحقیقی کام میں مصروف ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح اپنی پسند کا کام آپ کو صبح خوشگوار موڈ میں آفس لے کر جائے گا۔ شوق یا جنون آپ کو لائف لانگ لرنر بنا دیتا ہے یعنی تمام عمر سیکھنے والا۔ آج روزگار کی دنیا بہت بدل چکی ہے، آپ صرف اپنی کالج یا یونیورسٹی کی تعلیم پر اکتفا نہیں کرسکتے۔

ترقی کے لیے آپ کو ہر وقت نیا علم اور نئی مہارتیں (Skills) سیکھنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ سیکھنے کا عمل صرف وہی جاری رکھ سکتا ہے، جو اپنے کام سے محبت رکھتا ہو۔ کریئر میں کامیابی کے لیے نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ شروع سے ہی اپنے فطری رجحانات پر نظر رکھیں، اس بات کو نوٹ کریں کہ انہیں کیسی سرگرمیاں پسند ہیں، وہ کون سے کام ہیں جنہیں کرتے ہوئے وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا۔ آپ اپنے پوٹینشل کے مطابق اپنی شخصیت کی تعمیر کریں، ایسا نہ کرنے کی صورت میں آپ اپنا نقصان بھی کرتے ہیں اور معاشرے کو بھی ایک خوبصورت تحفے سے محروم کر دیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔