بچے اور نوجوان آن لائن ہر دَم ہر آن

والدین بچوں کی سوشل میڈیا اور اسمارٹ فون سے وابستگی سے پریشان


October 19, 2014
ٹین ایجرز کے اپنے گھر والوں اور دوستوں سے فاصلے بڑھنے لگے۔ فوٹو : فائل

اس میں کوئی شک نہیں کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس، جیسے فیس بک، ٹوئٹر وغیرہ نے دنیا بھر کے لوگوں کے درمیان فاصلوں کو کم کیا ہے اور رابطوں کو پہلے کے مقابلے میں کہیں آسان بنادیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس جدید ٹیکنالوجی کے انقلاب کا ایک بہت اہم اور حیرت انگیز پہلو ہیں۔ مگر اس صورت حال کا ایک منفی پہلو بھی ہے جس کا تذکرہ سوشل میڈیا کے حوالے سے ہونے والی مختلف تحقیقوں اور تجزیات میں کیا جارہا ہے، اور وہ یہ کہ ورچوئل دنیا کا دامن جس تیزی سے وسیع ہوتا جارہا ہے اسی رفتار سے اس دنیا سے وابستہ لوگوں کا حقیقی دنیا کے ساتھ رابطہ محدود ہوتا جارہا ہے۔

یوں تو ہر عمر کے افراد سوشل ویب سائٹس سے وابستہ ہیں، لیکن خاص طور پر نوجوان نسل کی تمام تر توجہ کا مرکز ومحور سوشل ویب سائٹس یا آن لائن سرگرمیاں بن گئی ہیں۔ ایسے میں ماہرین سماجیات کو یہ سوال پریشان کیے ہوئے ہے کہ کیا سوشل میڈیا نوجوانوں کو سماجی طور پر سرگرم کرنے کے بہ جائے ان سوشل بنارہا ہے؟

یہ سوال نہ صرف اس حقیقت سے آشنا دنیا کے ہر شخص کے لیے پریشانی کا سبب ہے جو براہ راست سماجی رابطوں اور میل ملاپ کو انسانی اقدار کے فروغ اور ان کے قائم رہنے کے لیے ضروری سمجھتا ہے، بل کہ ساتھ ہی یہ سوال متعلقہ ماہرین کے لیے تحقیق کا ایک اہم موضوع بھی بن چکا ہے۔ ایک نئے سروے سے پتا چلتا ہے کہ اسمارٹ فون کی وجہ سے نوجوانوں کی مختلف قسم کی آن لائن سرگرمیوں میں اس قدر اضافہ ہوگیا ہے کہ والدین اپنے بچوں کی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس اور اسمارٹ فون کے ساتھ وابستگی کے حوالے سے فکرمند رہنے لگے ہیں۔

ماہرین اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس جہاں ایک طرف ایک دوسرے سے فاصلوں پر رہنے والے افراد کو باہم مربوط کرنے، خیالات کا تبادلہ کرنے کی سہولت اور پیغام رسانی کا موقع فراہم کرتی ہیں، تو دوسری طرف ایک نئی زبان اور نئے رویوں کو جنم دینے میں بھی سوشل میڈیا کا کردار بہت اہم ہے۔ تاہم اسمارٹ فونز پر سوشل ویب سائٹس کے استعمال کی سہولت نے ان سائٹس کے دائرہ کار میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ اسمارٹ فونز نے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کو مقبول بنانے اور ان کے پھیلاؤ میں بڑی مدد کی ہے، لیکن اس رجحان کا سب سے زیادہ اثر نوجوانوں پر دکھائی دیتا ہے، جن میں سماجی ویب سائٹس بھی مقبول ہیں اور اسمارٹ فون بھی۔

برطانیہ سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا اور سماجیات کے ماہرین کی جانب سے تحقیق کے بعد جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں شامل نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رپورٹ کو مرتب کرنے کے سلسلے میں جن والدین سے سروے کیا گیا، ان کی نصف تعداد ضرورت سے زیادہ ٹیکنالوجی کے استعمال کرنے والے نوجوانوں کی اس لت اور رویے کی وجہ سے تشویش میں مبتلا ہے۔ اس سروے کا حصہ بننے والے والدین نے ماہرین سے گفتگو کرتے ہوئے انھیں بتایا کہ اسمارٹ فون کے تواتر سے استعمال اور سوشل ویب سائٹس سے مسلسل وابستہ رہنے کی وجہ سے نوجوانوں کا اپنے دوستوں اور خاندان کے افراد سے بات چیت کرنے کا رویہ تیزی سے تبدیل ہوتا جارہا ہے۔

اس کے ساتھ ہی ان کے برتاؤ میں بھی نمایاں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ ڈیجیٹل دنیا کے بارے میں اعداد وشمار جمع اور رپورٹس مرتب کرنے والے ایک ادارے کی جانب سے کیے جانے والے سروے کے مطابق اس سروے کا حصہ بننے والے نوجوانوں میں سے ایک تہائی نے بتایا کہ وہ ایک گھنٹے میں کئی کئی بار اپنا اسمارٹ فون چیک کرتے ہیں، جب کہ دو تہائی نوجوانوں کا کہنا تھا کہ وہ بستر پر سونے کے لیے لیٹتے وقت یا آرام کرتے وقت اسمارٹ فون اور اس نوعیت کی دیگر ڈیوائسز استعمال کرنے کے عادی ہیں۔

اس سروے کے سلسلے میں محققین نے 7 سال کی عمر کے بچوں سے لے کر 17 سال تک کے 2000 کے لگ بھگ نوجوانوں اور ان کے والدین سے ایک سوال نامہ مکمل کرایا اور اس سوال نامے میں شامل سوالوں کے جوابات کی مدد سے اپنی تحقیقی رپورٹ مرتب کی۔اس تحقیقی مطالعے سے یہ بھی پتا چلا کہ سروے کا حصہ بننے والے والدین میں سے تقریباً ایک تہائی یعنی 37 فی صد ماں باپ اور ان کے بچے کھانے کی میز پر کھانا کھاتے ہوئے بھی اسمارٹ فون استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح اس رپورٹ کے ذریعے یہ حیرت انگیز حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ ایک ہی خاندان کے 30 فی صد افراد بھی ایک دوسرے سے بات چیت کے لیے موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔ یہ استعمال کال کی صورت میں بھی ہوتا ہے اور میسیجز کی شکل میں بھی۔

ایک طرف والدین نوجوانوں کی اسمارٹ فون اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس استعمال کرنے کی لت سے پریشان اور نالاں ہیں، دوسری طرف نوجوانوں میں سے تیس فیصد تعداد والدین کی شکایت کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ان کی اس عادت کے پیچھے والدین کا بھی کردار ہے۔ ان نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ان کے والدین کی مصروفیات کی وجہ سے وہ موبائل فون کے غیرمتوازن اور بہت زیادہ استعمال کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔

یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ تین چوتھائی والدین اپنے بچوں کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ موبائل فون اپنے بیڈروم میں لے جائیں۔ تاہم اس رپورٹ کا حصہ بننے والے پینتیس فی صد والدین نے کہا کہ وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ دن بھر میں کتنی مرتبہ اسمارٹ فون اور دوسرے ٹیک آلات استعمال کرتے ہیں۔

اس سروے کا حصہ بننے والے نصف سے زاید والدین نے اپنے بچوں کی اس نشہ بن جانے والی اور انھیں سماج اور رشتوں سے کاٹ دینے والی عادت کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بچوں کے اسمارٹ فون کے استعمال کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ اس سروے رپورٹ کے نتائج مطابق 31 فی صد بچے جن کی عمریں سات سے لے کر آٹھ سال تک ہیں، اپنا ذاتی موبائل فون رکھتے ہیں۔ اسی طرح نو سے گیارہ برس کے 63 فی صد بچوں کے پاس اپنا اسمارٹ فون ہے، جب کہ بارہ سے چودہ سال کی عمر کے 88 فی صد بچے اپنا ذاتی موبائل فون رکھتے ہیں۔

تعلیمی شعبے سے وابستہ ماہرنفسیات ڈاکٹر کائرن کولن کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی معاصر زندگی کا ایک حصہ ہے چناں چہ قدرتی طور پر اس کی جھلک ہمارے خاندانوں میں نظر آئے گی۔ ڈاکٹرکائرن کولن نے مزید کہا کہ نوجوانوں میں ٹیک آلات کا ضرورت سے زیادہ استعمال ایک بڑی حقیقت کے طور پر واضح ہوتا جارہا ہے۔

علاوہ ازیں ڈاکٹر کائرن کولن کا یہ بھی کہنا ہے کہ والدین بھی اپنے بچوں کی آن لائن مصروفیات کی حمایت کرتے پائے جاتے ہیں اور وہ خود بھی آن لائن فوری پیغام رسانی کو بچوں سے بات چیت کے لیے متبادل کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں۔ڈاکٹر کائرن کولن کا مزید کہنا ہے کہ مواصلاتی ذرائع کبھی بھی ایک خاندان کے لیے آمنے سامنے بیٹھ کر بات چیت کرنے کا متبادل ذریعہ ثابت نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں محفوظ اور فعال سرگرمیوں تک محدود کرنے کی کوشش کریں اور خاص طور پر کوشش کریں کہ کھانے کی میز پر سب گھر والوں کے فون آف ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں