کتاب

حمید احمد سیٹھی  اتوار 19 اکتوبر 2014
h.sethi@hotmail.com

[email protected]

شہزادہ کبیر احمد ابھی میٹرک کا طالبعلم تھا کہ اس نے اپنے مکان کے ایک کمرے میں ’’پیسہ لائبریری‘‘ کھول لی اور اس میں بچوں کی اتنی کتابیں جمع کر لیں کہ لائبریری چل پڑی۔ اسے کتابیں پڑھنے کا بچپن ہی سے شوق تھا اور اس کی لائبریری نے اہل محلہ اور اسکول کے ساتھیوں کا مطالعے کا شوق جگایا اور بڑھایا۔ وہ خود تو بڑا ہو کر جج بن گیا لیکن اس کا کتب بینی کا شوق ختم نہ ہوا یہ الگ بات کہ اب لائبریری چلانا اس کے بس میں نہ رہا۔ لوگ بھی باتیں بناتے کہ جج صاحب ایک لائبریری چلانے کا بزنس بھی کر رہے ہیں۔

سچی بات ہے کتاب پڑھنے کا شوق مجھ میں بھی پیسہ لائبریری سے پیدا ہوا تھا۔ ان ہی دنوں آٹھویں کلاس میں تھا کہ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے میرا کراچی جانا ہوا تو ایک اور پیسہ لائبریری مل گئی جہاں سے پہلی بار ابن صفی کا ناول پڑھنے کو ملا اور ان کی دلچسپ کتابوں کی ایسی چاٹ لگی کہ شاید ہی ان کا کوئی جاسوسی ناول مطالعے سے بچا ہو۔ جتنا عرصہ کراچی قیام رہا روزانہ کا ایک پیسہ لائبریری میں جاتا۔ ان دنوں پیسہ بھی بڑی رقم تھی اور اپنی حیثیت بھی قریب قریب ہی تھی۔ بہت سے ادیب ابن صفی کو کسی گنتی میں شمار نہیں کرتے تھے لیکن خفیہ الیکشن کرا دیکھئے ابن صفی اپنی طرز کے اعلیٰ پائے کے جاسوسی کہانی نویس تھے اور ان کی وسیع ریڈر شپ تھی۔ ان کے کئی نقال پیدا ہوئے اور گوشۂ گمنامی میں چلے گئے۔

ایک وقت تھا کہ پڑھے لکھے لوگوں کے سرہانے کوئی نہ کوئی کتاب پڑی ملتی تھی اور وہ سونے سے پہلے کچھ پڑھتے تھے اب لوگوں کو TV دیکھنے کے دوران نیند آتی ہے یا تکیے کے پاس موبائل فون رکھ کر۔

الحمرا میں کتابوں کی نمائش لگی تھی۔ چھ سات معروف پبلشروں نے اس میں کتابیں سجا رکھی تھیں۔ برابر والے ہال میں ایک ڈرامہ بھی لگا تھا جس میں مزاحیہ اداکاروں نے محفل سجائی اور گرمائی ہوئی تھی۔ کتابوں کی نمائش میں ماسوائے سیلز مینوں کے کوئی نہ تھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ سارا دن گزر گیا چند کتابیں سونگھنے والے ضرور آئے خریدار کوئی نہ تھا۔ کتاب پڑھنے کا شوق ہمارے ملک میں کم ہوتا جا رہا ہے۔

دراصل کتاب کی جگہ کمپیوٹر اور موبائل فون نے لے لی ہے۔ اب تو ڈرائنگ روم بھی عیدین کے دنوں سمیت ہیپی برتھ ڈے کے دن بھی موبائل فون پر میسیج بھیج کر کارڈز سجانے کی رونق چرائی جانے لگی ہے۔ جب تک کتاب سے محبت قائم تھی عید کارڈ اور برتھ ڈے کارڈوں کی کارنس پر رکھی قطاریں مہینوں تک دل و نظر کی ضیافت کرتی تھیں۔ اب دو منٹ کے بعد موبائل کا میسیج بھی Delete کر دیا جاتا ہے۔ شاید کتابوں کی بھی جگہ جگہ لوٹ سیل لگنے لگے تو کم از کم وہ لوگ جو کتاب کا شوق اور ذوق تو رکھتے ہیں لیکن اس کمر توڑ گرانی کے ہوتے ہوئے کتاب خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے کتاب کی خریداری کرنے لگیں۔

ہفتہ وار چھٹی کے دن بعض بند مارکیٹوں کے نزدیک کتابوں اور رسائل کی تھڑا مارکیٹس دیکھنے میں آتی ہیں جہاں سستی کتب فروخت ہوتی ہیں اور خریدار بھی اس دن کا انتظار کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک مستقل گاہک نے بتایا کہ کئی ذاتی لائبریری بنانے کے شوقین جب اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں تو ان میں سے کئی ایک مرحومین کے وارث جنھیں کتاب کا وہ چھوڑا ہوا ذخیرہ بوجھ یا فالتو معلوم ہوتا ہے تو لائبریری والی جگہ کا کوئی دوسرا مصرف بنانے کے لیے لائبریری فروخت کر کے تھڑے پر لا پھینکتے ہیں اور ان میں سے بعض اوقات نایاب کتب بھی مل جاتی ہیں۔

کتاب کے ساتھ سرعام تعلق اور محبت کے مناظر آپ کو یورپ امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک میں ملیں گے۔ کبھی کسی بس اسٹاپ پر ایک بس کا منتظر مسافر کتاب کھولے پڑھنے میں مصروف ملے گا تو کبھی بس یا ٹرین میں سفر کرتا مسافر مطالعے میں غرق پایا جائے گا۔ اکثر پارکوں میں لوگ گھومتے ملیں گے لیکن کسی کسی جگہ بنچ پر بیٹھا ہوا شخص کتاب پڑھتا نظر آئے گا۔ پاکستان میں ایسا منظر کہیں نہیں دیکھا جا سکتا اس کی ایک وجہ تو صرف یہ ہے کہ ہمارے اکثر لوگ ہمیشہ بے مقصد جلدی میں پائے جاتے ہیں البتہ کسی پارک کے بنچ پر ایسی انہونی کا ہونا خارج از امکان نہیں ہے۔

پرانے وقتوں میں پہلے ’’پیسہ‘‘ پھر ’’آنہ‘‘ لائبریریاں نظر آ جاتی تھیں اب نہ یہ بطور شوق نہ کاروبار پائی جاتی ہیں یہاں تک کہ کتابوں کی اشاعت بھی اب منافع بخش کاروبار نہیں رہا۔ اس کے باوجود کتاب کی اہمیت کبھی کم نہیں ہو سکتی اور وقتی عدم دلچسپی ہی سہی کتاب بے بدل ہے۔

بیشتر دانشوروں، معاشرتی ماہروں اور یک جہتی کا عزم رکھنے والوں کے نزدیک یہ سوچ اور آرزو تقویت پکڑتی جا رہی ہے کہ تعلیمی اداروں میں تین چار قسم کا تعلیمی نظام و نصاب مختلف بلکہ باہمی نفرت و سوچ رکھنے والے افراد پیدا کر رہا ہے۔ لہٰذا نظام تعلیم میں انقلابی تبدیلیاں، یکسانیت اور ترامیم لازمی ہیں جب کہ ایک نصاب تو صرف مذہبی منافرت اور دکانداریاں پیدا کر رہا ہے۔

آپ پاکستان کے تمام نہیں تو اپنے شہر کے گورنمنٹ اور پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں میں گھوم جائیے اور وہاں کی لائبریریاں دیکھنے کی کوشش کیجیے۔ آپ کو بمشکل پانچ فیصد تعلیمی اداروں میں لائبریری یا کاغذی سی کارروائی ملے گی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اکثریت تعلیمی ادارے نہیں تعلیمی شاپس ہیں۔ ان شاپس کو کاروباری ادارے کہا جائے تو بہتر ہو گا۔ کئی جگہ ٹک شاپ بھی ہوں گی لیکن لائبریری نظر نہیں آئے گی۔

اسکول کالج کی ایک اور ضرورت ان ڈور یا آؤٹ ڈور پلے ایریا ہے۔ اس طرف بھی تو توجہ ہونی چاہیے جو نہیں ہے۔ جسم اور ذہن کی بالیدگی کے لیے یہ بھی اہم ضرورت ہے جو کہ اکثر تعلیمی اداروں میں مفقود ہے۔ پلے ایریا اسکول کالج میں نہ بھی ہو تو اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ لیکن لائبریری یعنی کتاب گھر تو بہرحال ایک تعلیمی ادارے کے لیے جزو لاینفک ہے اور پھر کتاب اللہ کی موجودگی کے باوصف انسان کا کتاب سے رشتہ ہی انمٹ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔