وجود کے اندر چھپا جانور…

شیریں حیدر  اتوار 19 اکتوبر 2014
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ جب کتے آپس میں مل کر بیٹھتے ہیں تو پہلے تیوری چڑھا کر ایک دوسرے کو بری نگاہ سے آنکھیں بدل بدل کر دیکھنا شروع کرتے ہیں، پھر تھوڑی تھوڑی گونجیلی آواز ان کے نتھنوں سے نکلنے لگتی ہے، پھر تھوڑا سا جبڑا کھلتا ہے، اور دانت دکھائی دینے لگتے ہیں اور حلق سے آواز نکلنی شروع ہوتی ہے پھر باچھیں چر کر کانوں سے جا لگتی ہیں اور ناک سمٹ کر ماتھے پر چڑھ جاتی ہے، ڈاڑھوں تک دانت باہر نکل آتے ہیں،منہ سے جھاگ نکل پڑتے ہیں اور عنیف آواز کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے چمٹ جاتے ہیں۔ اس کا ہاتھ اس کے گلے میں اور اس کی ٹانگ اس کی کمر میں، اس کا کان اس کے منہ میں اور اس کا ٹینٹوا اس کے جبڑے میں، اس نے اس کو کاٹا اور اس نے اس کو بھنبھوڑا، جو کمزور ہوا وہ دم دبا کر بھاگ نکلا…

نا مہذب آدمیوں کی مجلس میں بھی آپس میں اسی طرح تکرار ہوتی ہے۔پہلے صاحب سلامت کرکر آپس میں مل بیٹھتے ہیں، دھیمی دھیمی بات چیت شروع ہوتی ہے،ایک کوئی بات کہتا ہے ، دوسرا بولتا ہے، ’’ واہ! یوں نہیں یوں ہے ‘‘ وہ کہتا ہے ’’ واہ تم کیا جانو ‘‘ وہ بولتا ہے ’’ تم کیا جانو ‘‘ دونوں کی نگاہ بدل جاتی ہے، تیوری چڑھ جاتی ہے، رخ بدل جاتا ہے، آنکھیں ڈراؤنی ہو جاتی ہیں، باچھیں چر جاتی ہیں ، دانت نکل پڑتے ہیں، تھوک اڑنے لگتا ہے، باچھوں تک کف بھر آتے ہیں،سانس جلدی جلدی چلنے لگتا ہے، رگیں تن جاتی ہیں، آنکھ ، ناک ، بھوں ، ہاتھ عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگتے ہیں؛ عنیف عنیف آوازیں نکلنے لگتی ہیں، آستینیں چڑھا، ہاتھ پھیلا، اس کی گردن اس کے ہاتھ میں اور اس کی داڑھی اس کی مٹھی میں، لپاڈکی ہونے لگتی ہے۔ کسی نے بیچ بچاؤ کر کے چھڑوایا تو غراتے ہوئے ایک ادھر چلا گیا اور ایک ادھر، اور اگر کوئی بیچ بچاؤ کرنے والا نہ ہوا تو کمزور نے پٹ کر کپڑے جھاڑتے سر سہلاتے اپنی راہ لی… ‘‘ یہ اقتباس ہے کہانی ’’ بحث و تکرار سے، جس کے مصنف سرسید احمد خان ہیں۔

انسانی رویوں پر یہ تحریر اپنے آپ میں ان دو پیرا گراف میں اس قدر جامع ہے کہ اسے ہم سبق کے طور پر اپنے پاس رکھ سکتے ہیں اور اپنا تجزیہ اس کی روشنی میں کر سکتے ہیں… شنید ہے کہ انسانوں اور جانوروں میں کچھ معاملات میں کچھ اقدار مشترک ہوتی ہیں، گویا ہم سب میں کوئی نہ کوئی جانور چھپا بیٹھا ہوتا ہے یا کچھ خصلتیں چند جانوروں کی ہم سب کے وجود میں پوشیدہ ہوتی ہیں جو بوقت ضرورت ابھر کر سامنے آ جاتی ہیں۔ کتوں کی طرح لڑنا تو ایک عام محاورہ ہے، اس کا سب سے زیادہ مظاہرہ ہمارے ہاں اس وقت ہوتا ہے جب ہمارے ہاں کوئی حادثہ ہو جاتا ہے۔

آپ گاڑی چلا رہے ہیں اور یک دم ایک طویل ٹریفک جام میں پھنس جاتے ہیں، کچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ اس بندش کی وجہ کیا ہے، گاڑیاں سرکتی ہیں، کبھی بالکل رک جاتی ہیں اس طرح کہ لوگ باہر گاڑیوں سے نکل کر ٹہلنے لگتے ہیں اور سر اٹھا اٹھا کر دور تک دیکھتے ہیں کہ شاید وجہ کا اندازہ ہو سکے مگر کچھ جان نہیں پاتے… خوانچہ فروشوں کی چاندی ہو جاتی ہے اور سرکتے سرکتے جب آپ اس مقام پر پہنچتے ہیں جو اس طویل جام کا باعث تھا تو عموماً نظارہ یہی ہوتا ہے کہ دو لوگ دست و گریبان ہوتے ہیں ، گاڑیاں ٹکراتی ہیں تو بجائے باہمی مصالحت کے بات شروع ہی جھگڑے سے ہوتی ہے جو زیادہ زور آور ہو گا وہ جیت جائے گا اور ارد گرد جمع ہو جانے والا جم غفیر بھی اسی کے ساتھ ہو گا۔ بات زبانی نہیں ہوتی شروع ہی ہاتھا پائی سے ہوتی ہے، اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ چونکہ ہمارے ہاں گاڑیوں کی انشورنس کا نظام اتنا فعال نہیں اور نہ ہی کسی شخص کو حادثے کا باعث بننے پر لائسنس پر ٹکٹ ملتی ہے اس لیے لوگ دھڑلے سے بغیر لائسنس بھی گاڑیاں چلاتے ہیں اور دوسروں کی زندگیوں سے کھیلتے رہتے ہیں۔

اسلام آباد ہائی وے … ائیر پورٹ کو مڑنے والی سڑک والے چوک کے بعد ، دو رویہ ہو جاتی ہے اور اس کی حالت زار بھی کسی کو شاید نظر نہیں آتی کیونکہ ہائی وے پر ہمارے صاحب اقتدار غالبا کبھی ائیر پورٹ والے چوک سے آگے آتے ہی نہیں۔ دوسروں کے حادثات اور جھگڑوں کو دیکھتے دیکھتے ایک دن خود ہی میں ایسے ایک منظر کا حصہ بن گئی، میں نے دور سے ایک راکٹ نما موٹر سائیکل والے کو آتے دیکھا، مگر قیاس یہ کیا کہ میرے مڑنے سے پہلے ہی وہ نکل جائے گا، مگر میرا قیاس غلط ثابت ہوا اور میں نے گاڑی موڑتے ہوئے اس کے موٹر سائیکل سے ٹکرا دی، جونہی گاڑی اس کے موٹر سائیکل سے ٹکرائی، میں نے بریک لگائے، اس کی بائیک گھسٹتی ہوئی چند گز دور رک گئی، میں نے آنکھیں موند کر دعا کی کہ اس سوار کو کچھ نہ ہوا ہو، موٹر سائیکل کا نقصان تو پورا کیا جا سکتا تھا مگر اگر اسے کچھ ہو جاتا تو!!!

وہ اٹھا، میں نے دیکھا کہ نوجوان لڑکا تھا، اس نے اٹھ کر ناراض تیوروں سے مجھے گھورا، مجھے سرسید کے اس سبق کی یاد آئی، (میں نے یہ سبق اپنے بچوں کو بھی اتنی بار پڑھایا کہ انھیں از بر ہو گیا ہو گا اور آج جب وہ یہ کالم پڑھیں گے تو اس کی یاد پھر تازہ ہو جائے گی) ، اس وقت ارد گرد اتنا رش بھی نہ تھا، جانے وہ کیا کیا کہنے کا سوچ رہا تھا، میں نے گاڑی کو بند کیا اور باہر نکلی… اس سے قبل کہ وہ کچھ بولتا…

’’ آپ ٹھیک ہو بیٹا؟ ‘‘ میں نے تشویش سے کہا،اس نے حیرت سے مجھے دیکھا، ’’ کہیں چوٹ وغیرہ تو نہیں لگی؟ ‘‘

’’ مجھے چھوڑیں جی… ‘‘ اس نے حیرت کے جھٹکے سے سنبھلتے ہوئے کہا، ’’ آپ نے میرے موٹر سائیکل کا تو حشر ہی کر دیا ہے، چلنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا اسے… ‘‘
’’ اوہو… سو سوری… ‘‘ میں نے اس کے موٹر سائیکل کی طرف دیکھا جس کا ’’ حشر ‘‘ مجھے نظر نہ آیا تھا، ’’ موٹر سائیکل کی خیر ہے بیٹا، وہ تو نئی بھی آ سکتی ہے، اصل بات تو آپ کی ہے، اللہ تعالی نے آپ کو محفوظ رکھا ، اس کا لاکھ لاکھ شکر ہے بیٹا!!‘‘
’’ موٹر سائیکل تو چل ہی نہیں سکتا اب… ‘‘

’’ کیا ہو گیا ہے اسے، اٹھا کر سیدھا تو کریں بیٹا! ‘‘ میں نے اس کے موٹر سائیکل کی طرف قدم بڑھائے۔
’’ پیڈل ٹیڑھا ہو گیا ہے اس کا، کک مار کر اسٹارٹ بھی نہیں کر سکتا… ‘‘ اس نے خفگی سے کہا۔
’’ اچھا یوں کریں بیٹا کہ آپ اسے ایک طرف کھڑا کریں ، میرے ساتھ چلیں اور ہم کسی مستری کو لے آتے ہیں… ساتھ ہی میں کسی ڈاکٹر کو آپ کو بھی دکھا دوں کہ کہیں چوٹ وغیرہ یا ٹکر سے جھٹکا نہ لگا ہو… ‘‘

’’ میں ٹھیک ہوں جی… ‘‘ اس نے کہا، ’’ میں کوشش کرتا ہوں اسے سیدھا کرنے کی، میرے پاس تو کوئی اوزار بھی نہیں !‘‘ میں نے اسے اپنی گاڑی سے اوزار دیے اور وہ انھیں ٹھوک بجا کر سیدھا کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ موٹر سائیکل ہر چوٹ سے دائیں بائیں ہو جاتی اور اسے گرفت کرنا مشکل تھا، اب میں اس سلسلے میں اس کی کوئی مدد نہ کر سکتی تھی، پاس ہی ایک چھلی والا پٹھان کھڑا تھا، اسے بلا کر میں نے درخواست کی کہ اس کی مدد کر دے، جس کے عوض میں نے اسے تھوڑی سی رقم دینا چاہی تو اس نے انکار کردیا، اس کا شکریہ ادا کیا کہ موٹر سائیکل کا پیڈل سیدھا ہو گیا تھا اور اب وہ چلنے کے قابل بھی ہو گئی تھی۔

’’چلیں بیٹا اب میرے پیچھے پیچھے آئیں آپ اور میں آپ کو کہیں سے ٹھنڈا پانی یا جوس پلوا دوں ، حادثے کی وجہ سے حواس تھوڑے سے خطا ہو جاتے ہیں … ‘‘
’’ میں ٹھیک ہوں آنٹی، آپ جائیں … ‘‘ اس نے کہا۔
’’ نہیں بیٹا ایسے کیسے میں جاؤں ، ابھی تو مجھے مستری سے آپ کے موٹر سائیکل کی مرمت کا تخمینہ لگوا کر آپ کو اس رقم کی ادائیگی بھی کرنا ہے… اور پھر میں لازم سمجھتی ہوں کہ آپ کو کسی ڈاکٹر کے پاس لے کر جاؤں اور آپ کا معائنہ کرواؤں ، بسا اوقات چوٹیں بعد میں اپنا آپ دکھاتی ہیں…‘‘

’’ میں بالکل ٹھیک ہوں آنٹی اور میرے تھیلے میں پانی کی بوتل بھی ہے اور میرے موٹر سائیکل کی مرمت پر سو پچاس روپے کا خرچہ آئے گا … آپ جائیں پلیز، آپ کا کافی وقت ضایع ہو گیا ہے…‘‘

’’ نہیں بیٹا… کچھ انسانیت اور اخلاقیات کے تقاضے بھی ہوتے ہیں ، میں ان سب کو پس پشت ڈال کر کیوں کر جا سکتی ہوں ؟ ‘‘

’’ آپ خاتون ہیں ، لگتا ہے کہ کام سے واپس جا رہی ہیں، آپ کے گھر اور بچوں کو آپ کی ضرورت ہو گی، آپ پلیز جائیں، میں بالکل ٹھیک ہوں …‘‘ ( دل میں شاید کہہ رہا ہو گا کہ میری جان چھوڑیں)

’’ ٹھیک ہے بیٹا، جاتی ہوں مگر میرا فون نمبر لے لیں، اگر آپ کو کوئی بھی مسئلہ ہو تو…‘‘

’’ نہیںمجھے فون نمبر بھی نہیں چاہیے آپ کا… بہت شکریہ آپ کا ! ‘‘
میں دل میں یہ سوچتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف بڑھی کہ ہمارے لہجے اور ہمارے انداز واقعات کے انداز کو بدل دیتے ہیں، اگر وہ فورا فون اٹھاتا اور پولیس کو کال کرتا تو ا س وقت اس سڑک پر ایک تماشہ لگا ہوا ہوتا، تو تو میں میں ہو رہی ہوتی… اگر اسے کچھ ہو جاتا تو بات کہاں تک پہنچتی، اگر میری جگہ کوئی مرد ڈرائیور ہوتا تو اس کا کیا انداز ہوتا، کیا دونوں باہم دست و گریبان ہو رہے ہوتے، گاڑیوں کی طویل قطاریں اس سڑک پر ہوتیں اور ہر کوئی وجہ کو جاننے کی کوشش کر رہا ہوتا مگر کچھ جان نہ پاتا اور بے بسی سے اپنی گاڑی میں بیٹھا ہوتا… ذرا سا انداز فکر و عمل… معاشرے کی تبدیلی کے عمل کا نقطہء آغاز ہو سکتا ہے۔ تبدیلی جلسے جلوسوں، دھرنوں، تقریروں سے نہیں بلکہ ہر انسان کے فکر و عمل کے تبدیل ہونے سے آتی ہے، آپ کا چھوٹے سے چھوٹا نیک عمل بارش کے اس قطرے کی مانند ہوتا ہے جو گھٹن کی فضا میں تازگی لاتا ہے…

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔