ملالہ کا ریکارڈ کون توڑ سکے گا؟

زمرد نقوی  پير 20 اکتوبر 2014

ملالہ یوسفزئی نے دنیا کی کم عمر ترین شخصیت کی حیثیت سے نوبل انعام حاصل کر کے ایک ریکارڈ قائم کر دیا جس کو ایک طویل مدت تک شاید ہی کوئی توڑ سکے۔ گزشتہ سال بھی ملالہ نوبل انعام کے لیے نامزد ہوئی تھی لیکن یہ انعام اسے نہ مل سکا۔ اس سال نوبل انعام کے لیے نامزدگی کے حوالے سے سابق پوپ بینیڈکٹ اور امریکی ایڈورڈ سنوڈن بھی شامل تھے۔

سنوڈن امریکی خفیہ ادارے کا رکن تھا جو امریکی رازوں کو افشا کرنے کے جرم میں اپنی جان بچانے کے لیے اس وقت روس میں سیاسی پناہ لیے ہوئے ہے لیکن نوبل انعام ان دونوں کو بھی نہیں مل سکا۔ جب نوبل انعام کا اعلان ہوا تو اس وقت ملالہ اپنے اسکول میں پڑھائی میں مصروف تھیں لیکن اطلاع ملنے کے باوجود انھوں نے کسی جذباتیت کا مظاہرہ نہیں کیا اور پڑھائی کو ترجیح دیتے ہوئے اسکول کے اوقات پورے کیے۔ اس حوالے سے انھوں کہا کہ نوبل انعام میرے کلاس ٹیسٹ میں تو مدد گار نہیں ہو سکتا۔ یہ بات کر کے انھوں نے ثبوت دیا کہ ان کے لیے پڑھائی ہر چیز سے زیادہ اہم ہے۔

پشتو زبان تو ملالہ کی مادری زبان ہے لیکن انھوں نے انگریزی اردو میں جس روانی سے تقریر کی وہ قابل داد  ہے۔ کم سن ملالہ اپنی تقریر سے کسی بھی طرح کمسن نہیں لگیں جس طرح کی پختگی ان کی باڈی لینگوئج اور لہجے میں پائی گئی وہ اس وقت دنیا کے گنے چنے مقرروں میں ہی پائی جاتی ہے۔ تقریر میں بلا کا اعتماد اور فطری بے ساختگی اور روانی تھی۔ اسی اعتماد کا مظاہرہ انھوں نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے کیا جس میں دنیا کی اہم شخصیات شریک تھیں۔

کمسن ملالہ نے، جس کی عمر اس وقت صرف 16 سال تھی، اقوام متحدہ کے اس فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک ٹیچر، ایک بچہ، ایک قلم اور کتاب سے پوری دنیا میں جہالت کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ جہالت جو ہر طرح کے ظلم اور پس ماندگی کی جڑ ہے جس کا نشانہ اس وقت سب سے زیادہ بچے بس رہے ہیں۔ بچوں کی وہ عمر جو بے فکری اور ہر غم و فکر سے آزاد ہونی چاہیے وہ فکر معاش، چائلڈ لیبر اور جنسی تشدد کے خوف میں گزرتی ہے۔ نوبل انعام ملالہ کے ساتھ بھارتی کیلاش ستیارتھی کو بھی ملا ہے جو بچوں کو ہر قسم کی غلامی اور جبر سے نکالنے کے لیے طویل عرصے سے جدوجہد کر رہے ہیں۔

بھارت میں بے پناہ غربت نے جس میں 60 سے 80 کروڑ افراد شامل ہیں کمسن بچے اپنی زندگی کی ابتدا بھوک، غربت اور بیماری سے کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی گیارہ کروڑ عوام فاقہ کشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ تعداد پاکستان کی نصف سے زائد آبادی پر مشتمل ہے۔ غربت فرد کی ہو یا قوم کی ملک کو کمزور کرتی ہے جس کا نتیجہ ہر طرح کے استحصال کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نوبل انعام جو پاکستان و بھارت کو مشترکہ طور پر ملا ہے ملالہ نے پاکستان و بھارت کے درمیان امن کی خواہش کا اظہار کیا ہے کیونکہ غربت کا خاتمہ دونوں ملکوں کے درمیان امن سے ہوسکتا ہے کہ وہ اس طرح کہ دونوں ملک مذاکرات کے ذریعے اپنے تنازعات کو حل کرلیں اس طرح سے دونوں ملکوں کے ہزاروں ارب روپے کے اخراجات جو ہتھیاروں پر خرچ کر رہے ہیں وہ غربت، بیروز گاری، بیماری کے خاتمے پر صرف کر سکیں گے۔

بھارت و پاکستان کے غریب جن کی تعداد تقریباً ایک ارب کے لگ بھگ ہے اگر اپنے مذہبی، نسلی، لسانی تعصبات پر قابو پا لیں تو وہ برصغیر میں ایسا انقلاب برپا کر سکتے ہیں جس کے ذریعے وہ اپنے حکمران طبقوں کی غلامی سے نجات حاصل کر کے اپنے آلام و مصائب کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔

برمنگھم میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ملالہ نے کہا کہ مجھے پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔ دنیا کو پیغام دینا چاہتی ہوں کہ پاکستان پُرامن ملک ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت کسی دہشت گرد تنظیم کے ساتھ نہیں۔ نوبل انعام ملنے کی امید نہیں تھی۔ پاکستان اور بھارت کو مشترکہ انعام ملنا امن کا پیغام ہے۔ خواہش ہے کہ پاکستانی و بھارتی وزرائے اعظم دسمبر میں اس انعام کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں شرکت کریں۔ کیلاش اور میں نے مضبوط پاک بھارت تعلقات کے لیے کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اپنی جدوجہد کو مزید آگے بڑھانے کے لیے یہ ایوارڈ مجھے ہمت دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم کمزور ہیں لیکن جب ہم بولتے ہیں تو سب سنتے ہیں۔ میری درخواست ہے کہ تعلیم کے لیے سب کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ میں پوری دنیا کے بچوں کو اسکول جاتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوں۔ طالبان کے دور میں اسکول جانے کی اجازت نہیں تھی۔ طالبان دور میں خاموش رہنے یا آواز نہ اٹھانے کا آپشن تھا۔ اس وقت میرے خواب تھے کہ میں ڈاکٹر بنوں گی لیکن اب اچھی سیاست دان بننا چاہتی ہوں۔

ملالہ کو نوبل انعام ملنے پر پاکستان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اس کے ساتھ پوری دنیا میں بھی جشن منایا جا رہا ہے۔ پاکستانی خواتین ہوں یا یورپی اور امریکی پوری دنیا کی خواتین ملالہ کی جیت کو اپنی جیت سمجھ رہی ہیں۔ پاکستانی رہنماؤں سمیت یورپ، امریکا، بھارت بلکہ پوری دنیا کے عالمی رہنمائوں نے نوبل انعام جیتنے پر ملالہ کو مبارک باد پیش کی ہے جس سے ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند ہو گیا ہے کیونکہ اس سے پہلے پاکستان کی پہچان دہشتگردوں کے حوالے سے تھی۔

یہ دہشتگردوں کی دہشت اور ایک طرح سے پاکستان پر قبضہ ہی تھا کہ جب ملالہ کی اقوام متحدہ میں ہونے والی تقریر پوری دنیا سن رہی تھی تو پاکستان میں اس تقریر کے نشر ہونے پر پابندی تھی۔ اس انعام سے پاکستان کی عزت میں چار چاند لگ گئے ہیں لیکن دہشتگردوں کے حمایتی و ترجمان غمگین ہیں اور اسے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں یہ وہی لوگ ہیں کہ جب ملالہ پر حملہ ہوا تو اسے ڈرامہ قرار دیا اور کمسن بچی کی کردار کشی کرتے ہوئے انھیں کوئی حیا محسوس نہ ہوئی کہ ان کے اپنے گھروں میں بھی بیٹیاں ہیں۔

ملالہ پر تنقید کرنے والے یہ وہی لوگ ہیں کہ جب دہشت گرد پاکستانی شہریوں اور فوجیوں کو شہید کر رہے تھے تو یہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ وہ تو اللہ بھلا کرے پاکستانی فوج کا جس نے ’’مذاق راتی‘‘ ڈرامے کا خاتمہ کرتے ہوئے دہشتگردوں کو کچل کر رکھ دیا۔ ملالہ پر تنقید کرنے والوں سے سوال ہے کہ مذاکرات کے نام پر جن بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہایا گیا اس کے ذمے داروں کو کبھی سزا بھی ملے گی یا خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا۔

گزشتہ سال ملالہ کے حوالے سے جو پیش گوئی کی تھی وہ نوبل انعام کی شکل میں پوری ہوئی۔

ملالہ کے حوالے سے مزید اہم مہینے فروری مارچ اور مئی جون 2015ء ہیں لیکن یہ احتیاط طلب بھی ہیں۔

سیل فون: 0346-4527997

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔