یہ نوبل پرائز تمہارا نہیں

وجاہت علی عباسی  پير 20 اکتوبر 2014
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

1915 میں لارنس بریگ نامی فزیشن نے نوبل پرائز جیتا تھا، لارنس کے نوبل پرائز جیتنے کی خاص بات یہ تھی کہ ان کی عمر صرف پچیس سال تھی جب کہ نوبل پرائز کے لیے نامزدگی کے انتظار میں لوگوں کی پوری پوری عمر گزر جاتی ہے، لارنس کو یہ اعزاز بہت چھوٹی عمر میں حاصل ہوگیا تھا اور چھوٹی عمر میں نوبل پرائز جیتنے کا یہ ورلڈ ریکارڈ کچھ دنوں پہلے تک کوئی نہیں توڑ پایا تھا۔

ملالہ یوسف زئی نے کچھ ہفتے پہلے نوبل پرائز جیت کر لارنس کی سینچری ہونے سے روک دی یعنی لارنس ننانوے سال میں ہی آؤٹ ہوگئے اور اب سب سے کم عمر نوبل پرائز ونر 2014 میں ملالہ ہوں گی۔

کچھ دن پہلے ملالہ کے لیے نوبل پرائز کا اعلان ہوتے ہی دنیا بھر میں ملالہ کے نام کی دھوم مچ گئی۔ کیا اخبار کیا ٹی وی چینلز اور دیگر میڈیا ہر طرف ملالہ کا نام گونج رہا تھا، صدر اوباما نے ان کے لیے مبارکباد کا پیغام جاری کیا جس کے مطابق یہ صرف ملالہ کی نہیں پوری انسانیت کی جیت ہے، ان کی بیگم مشعل اوباما نے ٹوئیٹر پر لکھا کہ وہ ان کے اور کروڑوں لوگوں کے لیے مثال ہیں۔

نوبل پرائز کی خبر کی ریلیز کے وقت ملالہ اپنی کیمسٹری کی کلاس میں بیٹھی تھی۔ کلاس ختم ہوتے ہوتے ملالہ کی شہرت دنیا بھر میں عروج پر پہنچ گئی تھی، سوشل میڈیا سے لے کر نیوز چینلز تک یہ نمبر ون خبر بنی ہوئی تھی، ملالہ کے والد کے مطابق یہ نوبل پرائز لڑکیوں کے حقوق کے لیے بہت اہم ثابت ہوگا۔

دنیا بھر کے سیلیبرٹیز نے، چاہے وہ میڈونا ہوں یا عامر خان، ملالہ کو مبارکباد کے لیے ٹوئیٹر پر بیانات جاری کیے۔ کچھ ایسے بھی تھے جو مبارکباد کی ریس میں آگے رہنے کے لیے جلدی جلدی میں ملالہ کا نام غلط لکھ گئے جیسے انڈین اداکار جیکی بھنگنانی نے ملالہ کی جگہ ’’مسالہ مبارک‘‘ لکھ دیا یا پھر امریکن ماڈل نیومی کیمپبل نے ملالہ کی جگہ ’’ملیریا‘‘ کو مبارکباد دے دی جس کے بعد ان کے Message کے جواب میں خاصے لوگوں نے اس غلطی کو ٹھیک کرنے کی ہدایت کی جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پوری دنیا میں ملالہ کے لیے شدید پسندیدگی ہے۔

پاکستان کے بھی کئی مشہور لوگوں نے ٹوئیٹر پر ملالہ کو مبارک باد دی۔ میاں نواز شریف نے ملالہ کو ’’پرائڈ آف پاکستان‘‘ کہا لیکن باقی دنیا غالباً یہ نہیں جانتی کہ پاکستان میں ایسے بھی لوگوں کی بڑی تعداد ہے جو ملالہ کو پسند نہیں کرتی۔

ملالہ کی ساری شہرت ترقی پذیر ممالک کی لڑکیوں کی تعلیم کی کیمپین پر مبنی ہے، دنیا کو لگتا ہے کہ ملالہ کو طالبان نے اس لیے گولی ماری تھی کہ وہ تعلیم کو پروموٹ کر رہی تھی جب کہ طالبان کا ایک گروپ جس نے ملالہ پر گولی چلانے کی ذمے داری لی تھی انھوں نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں انھوں نے کہا کہ ہم نے ملالہ کو اس لیے نہیں گولی ماری تھی کہ وہ تعلیم کے نفاذ کے لیے آواز اٹھا رہی تھیں بلکہ اس لیے ماری تھی کہ وہ جگہ جگہ بیٹھ کر طالبان کے خلاف باتیں کرتی تھیں۔ یہ وہ بات ہے جو پاکستانیوں کے مطابق مغرب کے لوگوں کو نہیں معلوم اور ملالہ اس واقعے کو اپنے آپ کو پروموٹ کرنے کے کام میں لائیں۔

کئی پاکستانیوں کو لگتا ہے ملالہ کے والد بہت معاملہ فہم انسان ہیں اور ملالہ کی اس شہرت میں ان کا بہت بڑا ہاتھ ہے، لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ سب پیسہ جمع کرنے کی اسکیم ہے جس میں کتاب کے حقوق یا جگہ جگہ تقریریں کرکے ملالہ فنڈ کو ملنے والے پیسے اور نوبل پرائز کی 1.1 ملین ڈالرز کی رقم شامل ہے یہ سب سوچی سمجھی اسکیم ہے کوئی اتفاق نہیں۔

پاکستان میں لوگوں کے ایک بڑے حلقے کا ماننا ہے کہ ملالہ پر کبھی حملہ ہوا ہی نہیں تھا، دماغ نہایت نازک اور اہم عضو ہے اور ایک ہلکی سی چوٹ بہت کچھ بدل سکتی ہے، ایک تربیت یافتہ شوٹر ملالہ پر پوائنٹ بلینک رینج سے گولی چلاتا ہے اور اس کا نشانہ چوک جاتا ہے۔

درجنوں بے گناہوں کو پاکستان کے مختلف علاقوں میں مار دیا جاتا ہے لیکن یہ بات اخبار کی چھوٹی سی خبر بھی نہیں بن پاتی مگر ملالہ کی خبر فوراً انٹرنیشنل لیول پر آگئی، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ دماغ کی سرجری کے وقت سر کے بال بھی نہیں ہٹائے گئے جوکہ ضروری ہے، سرجری کے سالوں بعد نہیں بلکہ کچھ ہفتوں میں ہی ملالہ بالکل صحیح ہوگئیں، نہ کوئی یادداشت کا مسئلہ نہ بال غائب نہ ہی کوئی اور TRAUMA۔ اتنی جلدی تو فلم کا ہیرو بھی گولی لگنے کے بعد ٹھیک نہیں ہوتا جتنی جلدی ملالہ ہوگئی۔ ایسا کئی لوگوں کا کہنا ہے۔

ملالہ نے اپنی کتاب میں کئی ایسی باتیں لکھی ہیں جن پر کئی پاکستانیوں کو اعتراض ہے۔ اس لیے پرائیویٹ اسکول کی لائبریریوں میں یہ کتاب نہ رکھے جانے کا فیصلہ پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن نے کیا تھا۔

پاکستان کے کئی ایسے سیاستدان ہیں جنھوں نے ملالہ کے خلاف کھلے عام ٹوئیٹر پر لکھا کہ یہ سب ڈرامہ ہے اور ملالہ دراصل مغرب کی ایجنٹ ہیں اور وہ پاکستان کو صرف اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔

ملالہ فنڈ کو ملینز آف ڈالرز کی رقم ملتی ہے مگر اس میں سے کچھ بھی پاکستان میں خرچ نہیں کیا جاتا نہ ہی ملالہ فنڈ سے متعلق کوئی ایونٹ پاکستان میں ہوا ہے ، لوگوں کو لگتا ہے کہ ملالہ کو ویسٹ تیار کر رہا ہے کہ کچھ برسوں میں وہ پاکستان پر ان کے حساب سے حکومت کرسکیں، ان کے آس پاس جو لوگ موجود ہیں کچھ پاکستانی ان سے بھی خوش نہیں جیسے کرسچین لیمب جنھوں نے “I am Malala” میں قلمی معاونت کی ہے وہ 2002 سی آئی اے کا کوڈ توڑنے پر پاکستان سے باقاعدہ ڈی پورٹ کی گئی تھیں۔

ہر وہ پاکستانی جو آج ملالہ کے خلاف ہے اس نوبل پرائز کو ایک Opportunity کی طرح دیکھے، Peace اور پاکستان کا نام آج دنیا میں کم ہی ساتھ لیا جاتا ہے، ایسے میں پیس ایوارڈ ایک پاکستانی لڑکی کو ملنا ہمارے لیے اچھا ہے، اگلے سو سال میں شاید زمانہ ملالہ اور ملالہ پر ہوئے حملے کو بھول جائے لیکن وہ نوبل پیس پرائز یاد رہے گا جو کسی سترہ برس کی پاکستانی لڑکی کو ملا تھا، وہ ایوارڈ جو ہمارے پاکستان اور پیس کو ہمیشہ جوڑے گا، یہ نوبل پرائز ہمارے لیے ملالہ کا نہیں یہ ایوارڈ ہمارے لیے پاکستان کا ہے، جہاں 99 فیصد لوگ ’’پیس‘‘ چاہتے ہیں لیکن دنیا کو وہ گولی کھا کر بھی نظر نہیں آتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔