معیار زندگی اور کائنات کی تباہی

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 20 اکتوبر 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

راقم کے حلقہ احباب میں ایک ایسے صاحب بھی شامل ہیں جن کو تمام دوست ’’بھائی شارٹ کٹ‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ طالب علموں کو امتحان کی تیاری کرانے میں کمال کا فن رکھتے ہیں اور کم سے کم وقت میں بھی امتحان کی ایسی تیاری کرا دیتے ہیں کہ طالب علم کو اپنے نصاب کی پوری کتاب پڑھنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی اور وہ امتحان میں پاس بھی ہوجاتا ہے۔ میٹرک سے لے کر ایم اے تک اپنے دوستوں سمیت نہ جانے کتنے لوگوں کو وہ اپنے فارمولے کے تحت ڈگریاں دلوا چکے ہیں۔

یہ کوئی غلط کام نہیں کرتے بس پانچ سالہ امتحانی پرچوں کو دیکھ کر ان میں سے چند سوالات منتخب کرکے ایسے طالب علموں کو دیتے ہیں کہ جن کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ حیرت انگیز طور پر امتحانی پرچوں میں بھی کم و بیش پانچ سوالات ان ہی میں سے آتے ہیں اور یوں طالب علم بجائے پوری کتاب پڑھنے کے چند سوالات کرکے امتحان میں پاس ہوجاتے ہیں۔

شارٹ کٹ طریقے سے امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے کے اس طریقے سے آج ہمارے ہاں ایک بڑی تعداد میٹرک سے لے کر ایم اے تک کی ڈگریاں حاصل کرچکی ہے اور ایک کم تعداد جو کتابیں تو پوری پڑھتی ہے مگر نصاب کی حد تک لہٰذا وہ بھی ایک کاغذ کا ٹکڑا تو ضرور حاصل کرلیتی ہے مگر ان کے پاس حقیقی ’’علم‘‘ نہیں ہوتا۔ آج کل ایسے لوگوں کی تعداد کم ہے جو واقعتاً ’’علم‘‘ رکھتے ہوں۔

ہم ایک ایسے صاحب سے بھی واقف ہیں جو آج کے دور میں واقعی ’’صاحب علم‘‘ ہیں، ہم اکثر ان سے فیض حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ وہ سواری کے لیے موٹر سائیکل کا استعمال کرتے ہیں حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے جس طرح انھیں نوازا ہے اس اعتبار سے انھیں کوئی زیرو میٹر گاڑی استعمال کرنی چاہیے۔ ہم نے کئی مرتبہ سوچا کہ اس بارے میں ان کو کوئی مشورہ دیں کہ حضور یہ موٹر سائیکل آپ کے شایان شان نہیں ہے، آپ کو تو کسی نئے ماڈل کی چار پہیے والی پرتکلف گاڑی استعمال کرنی چاہیے۔

خیر ایک روز ہم نے ڈرتے ڈرتے یہ سوال کر ہی دیا کہ آپ کوئی اچھی گاڑی کیوں نہیں خرید لیتے؟ ہمارے اس سوال پر وہ خاموشی سے ہمیں کافی دیر دیکھتے رہے اور پھر کہنے لگے ’’تم نے پڑھے لکھے ہو کر یہ جاہلوں والا سوال کیوں کردیا؟‘‘

ہمیں اندازہ ہوگیا تھا کہ ہم نے سوال کرکے اپنی کم علمی کا اظہار کردیا ہی لہٰذا آگے خیریت اس میں ہی جانی کہ خاموش رہا جائے۔ یہ صاحب ہماری خاموشی کو بھانپ گئے اور کچھ وقفے کے بعد بولے کہ چونکہ تمھارا ’’ایمان‘‘ سائنس پر ہے، لہٰذا اسی حوالے سے میں تمھیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔

اس کے بعد کہنے لگے کہ یہ تو سب ہی مانتے ہیں کہ آلودگی (پلوشن) کے باعث ’’اوزون‘‘ کی سطح تباہ ہو رہی ہے، زمین پر درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے کی کوپن ہیگ کانفرنس میں ماحولیات پر ہونے والی کانفرنس میں بہت پہلے یہ بتایا جاچکا ہی کہ اگر سالانہ پانچ فیصد آلودگی (پلوشن) پیدا کرنا کم نہیں کی تو آیندہ نصف صدی بعد موسمی حالات کنٹرول سے باہر ہوجائیں گے اور تباہی سے انسانوں کو سخت نقصان زلزلے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کی شکل میں بھی پہنچے گا۔

اس کانفرنس میں آلودگی کم کرنے کے لیے عمل کرنے کا اعلان کرنے والے ممالک میں کینیڈا بھی شامل تھا مگر جب عمل کرنے کے لیے کینیڈا میں پیدا ہونے والی آلودگی کو کنٹرول کرنے کا حساب لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ سالانہ پانچ فیصد آلودگی کم کرنے کے لیے ٹرانسپورٹیشن تمام کی تمام ہی بند کرنا پڑے گی اور لوگوں کو سواری کے لیے گھوڑوں، خچروں پر سفر کرنا پڑے گا۔ کینیڈا میں اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود حکومت نے اس منصوبہ پر عمل نہ کرنے کا اعلان کیا البتہ ہفتہ میں دو روز پرائیوٹ ٹرانسپورٹ پر پابندی عائد کرکے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے کا عندیہ دیا۔

یہ صاحب پھر بولے۔ آپ کو پتہ ہے کہ ایک نئی کار کی تیاری کے مرحلے میں سیکڑوں گیلن میٹھا پانی استعمال کیا جاتا ہے جو ’’پروسس‘‘ کے بعد ناقابل استعمال رہتا ہے، یوں اس خطہ زمین سے جہاں پہلے ہی پینے کے صاف پانی کی کمی کا ایک بڑا مسئلہ درپیش ہے، پینے کے صاف پانی کو نئی گاڑیوں کی تیاری پر یوں ’’برباد‘‘ کیا جارہا ہے؟ آپ کی زندگی کے لیے کیا ضروری ہے، پہلے پینے کا پانی یا نئی زیرو میٹر کار؟

ان کے اس سوال پر ہم پھر ایک مرتبہ شرمندہ ہوئے۔

وہ حضرت پھر کہنے لگے کہ جب میرا سفر ایک موٹر سائیکل پر باآسانی ہوجاتا ہے جس میں ٹریفک رش میں بھی فور ویل گاڑی کے مقابلے میں میری موٹر سائیکل آگے بڑھتی رہتی ہے، پٹرول کا خرچہ اور مینٹی ننس کا خرچہ بھی کار کے مقابلے میں کہیں کم ہوتا ہے تو پھر میں صرف اپنا معیار زندگی بلند ظاہر کرنے کے لیے نئی زیرو میٹر کار کیوں استعمال کروں؟ ایک ایسی کار جس پر پینے کا صاف پانی سیکڑوں گیلن بہا دیا گیا ہو، جس کے چلنے سے میرا خرچہ ہی نہ بڑھے بلکہ آلودگی بھی بڑھے جس سے مجھ سمیت تمام شہریوں کی صحت پر بھی منفی اثرات پڑیں اور دنیا کی تباہی میں میرا بھی حصہ شامل ہوجائے۔

ان صاحب نے پھر میری طرف متوجہ ہو کر کہا، سنو! مغرب نے انڈسٹریز سے پیدا ہونے والی آلودگی کو کم کرنے کے لیے بھی جدید سائنس و ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا ہے مگر وہ یہ ٹیکنالوجی ایشیا کے ممالک کو دینے پر آمادہ نہیں، اس کی قیمت اپنی مرضی کے مطابق لینا چاہتے ہیں، بصورت دیگر اگر ایشیا میں آلودگی بڑھتی ہے تو ان کی بلا سے بڑھے، دنیا تباہ ہوتی ہے تو ان کی بلا سے۔ پیسہ کمانے کا بھوت اس قدر سوا ہے کہ فیول کے حصول کے لیے چین نے بائیو فیول کا طریقہ اپنایا اور اس کے لیے بڑی مقدار میں برازیل سے سورج مکھی کے پودے خریدنا شروع کردیے یوں نتیجے میں جنگلات ختم ہونے لگے۔

درحقیقت انفرادی معیاری زندگی کو بلند کرنے کا جنون انڈسٹریز اور سرمایہ دارانہ نظام کو وہ جلا بخش رہا ہے جس کے نتیجے میں آلودگی اس خطہ زمین کی فطرت اور ماحول کو تباہ کررہی ہے اور اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک آلودگی پیدا کرنے والوں میں تقریباً 106 ویں نمبر پر بیان کیا جاتا ہے لیکن آلودگی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں یہ چھٹے نمبر پر آتا ہے۔

آئیے غور کریں، اس خطہ زمین کو، اس کے فطرتی قدرتی مناظر کو تباہ کرنے میں ہمارا انفرادی کردار کیا ہے؟ کہیں ہم معیار زندگی اور دکھاوے کے چکر میں تباہی کے ذمے داروں میں تو شامل نہیں ہیں؟ کہیں ہمارا معیار زندگی اس کائنات کو تباہ تو نہیں کر رہا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔