قرضوں کیلیے بینکنگ سیکٹر پر حکومتی دباؤ بڑھنے کا خدشہ

بزنس رپورٹر  پير 20 اکتوبر 2014
مرکزی بینک کے بجائے کمرشل بینکوں سے مہنگے قرضے لینے سے حکومت کی فنانسنگ کی کاسٹ بڑھ رہی ہے۔ فوٹو: فائل

مرکزی بینک کے بجائے کمرشل بینکوں سے مہنگے قرضے لینے سے حکومت کی فنانسنگ کی کاسٹ بڑھ رہی ہے۔ فوٹو: فائل

کراچی: آئی ایم ایف سے (ایکسٹنڈ فنڈ فیسلیٹی) قرضوں  کی چوتھی قسط میں تاخیر، ریونیو کلیکشن میں کمی، سیلاب متاثرین کی بحالی اور دہشت گردوں کے خلاف جاری جنگ کے اخراجات کا دباؤ بڑھنے سے حکومت کا قرضوں کے لیے بینکنگ سیکٹر پر دباؤ بڑھنے کا خدشہ ہے۔

رواں سال کے دوران حکومتی قرضوں میں نمایاں کمی دیکھی جارہی ہے۔ اکتوبر 2014کے پہلے ہفتے تک حکومتی قرضوں کے حجم میں سال بہ سال 49فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ بجٹ سپورٹ کے لیے قرضوں کی مالیت 44فیصد کمی سے 165ارب روپے تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ قرضوں کے لیے حکومت کا اسٹیٹ بینک پر انحصار کم ہورہا ہے جس سے افراط زر کے دباؤ میں قدرے کمی ہوئی ہے تاہم مرکزی بینک کے بجائے کمرشل بینکوں سے مہنگے قرضے لینے سے حکومت کی فنانسنگ کی کاسٹ بڑھ رہی ہے اور کمرشل بینکوں سے 73ارب روپے تک کے قرضے لیے جاچکے ہیں۔

ماہرین کے مطابق آنے والے وقت میں بجٹ سپورٹ کے لیے قرضوں کا دبائو بڑھنے کا خدشہ ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضوں کی قسط میں تاخیر، انٹرنیشنل ڈونرز کی جانب سے پاکستانی معیشت کی بہتری کے لیے عدم توجہ، ریونیو کلیکشن میں کمی کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور سیلاب متاثرین کی بحالی کے اخراجات کے سبب حکومت کا بجٹ خسارہ بڑھنے کا بھی خدشہ ہے جسے پورا کرنے کے لیے حکومت کا بینکاری نظام پر انحصار بڑھ جائے گا۔ اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کے آغاز سے اب تک بینکوں کے نیٹ ڈومیسٹک ایسٹ (این ڈی اے)  میں کمی کا سامنا ہے جس سے زر کے پھیلائو میں بھی کمی کا سامنا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔