(پاکستان ایک نظر میں) - کیا انتخابات پھرمتنازعہ ہونگے؟

خزیمہ سلیمان  پير 20 اکتوبر 2014

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

ملتان کے ضمنی انتخاب کا نتیجہ کیا نکلا اور اس سے جُڑی سیاست پر بہت بات ہو چکی، مگر ایک پہلو جو عوام اور میڈیا کی خاطر خواہ توجہ حاصل نہ کر پایا وہ انتظامیہ کی نا اہلی انتخابی عملے کی لا پرواہی تھی جس نے ایک دفعہ پھر الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔

پاکستان میں انتخابی سیاست ایک ارتقاء سے گزر رہی ہے، لوگوں میں شعور آرہا ہے اور اب وہ ان فرسودہ قسم کی روایات کو بھی ترک کر رہے ہیں جواس نظام کی ابتری کا باعث تھے۔ ایسے میں حکومت اور خاص کر الیکشن کمیشن کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ انتخابی نظام میں اصلاحات کرے تا کہ عوام کو اُن کے حقِ رائے دہی موثر طور پر استعمال کرنے کا موقع مل سکے۔ مزید برآں پچھلے عام انتخابات کے بعد اس بات پر بہتیرا شور مچایا گیا تھا کہ پاکستان کی انتخابی نظام میں بہت سی خامیاں ہیں جنہیں دور کیے بغیر ملک کو سیاسی استحکام کی جانب نہیں لے جایا جا سکتا۔

مگر ملتان کے حالیہ ضمنی نتخابات میں ذرہ برابر بھی بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔ بھرپور مطالبے کے باوجود مقناطیسی سیاہی کا استعمال نہیں کیا گیا، کئی رائے دہندگان کے نام ووٹر لسٹوں سے غائب تھے، دھاندلی اور جعلی ووٹوں کی پولنگ کی بھی شکایات موصول ہوتی رہیں، انتخابی مہم کے دوران بھی قانون کی دھجیاں اُڑئے جاتی رہیں۔ مخالف گروہوں میں تصادم کو بھی روکا نا جا سکا جس کے باعث مخصوص پولنگ سٹیشنوں پر انتخابی سلسلے کو منقطع کرنا پڑا۔خواتین کو بھی سہولیات نہ دی گئیں جس کے باعث اُن کی اکژیت ووٹ ڈالے بغیر واپس چلی گئی۔

ملتان کا ضمنی انتخاب الیکشن کمیشن اور حکومت کا لٹمس ٹیسٹ تھااور اب یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہہ اس ضمن میں اب تک کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھایا جا سکا جس سے انتخابی نظام میں بہتری آئی ہو۔ مگر جہاں اس معاملے کی ذمہ داری حکومت پر آتی ہے وہیں اپوزیشن اور خاص کر عمران خان صاحب کی اس اہم قومی معاملے سے لاتعلقی قابل مذمت ہے۔ عمران خان صاحب ، جو انتخابی اصلاحات کے لیے شور مچاتے نہیں تھکتے تھے، اب اس معاملے پر چپ سادھے بیٹھے ہیں، حکومت کی جانب سے کئی بار عمران خان کو یہ دعوت دی گئی کہ وہ انتخابی اصلاحات کمیٹی کے ذریعے اس نظام کی بہتری کے لیے تجاویز دیں، اور تو اور اُنہیں تو حکومت کی جانب سے کمیٹی کا چیئر مین بننے تک کی تجویز دی گئی مگر اُنہوں نے بے نتیجہ دھرنوں کے ذریعے تبدیلی لانے کو زیادہ ترجیح دی۔ حالانکہ اگر عمران خان صاحب حکومت پر انتخابی اصلاحات کرنے کے لیے زور ڈالتے تو لامحالہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ تحریکِ انصاف ہی کو ہوتا۔

دونوں فریقوں کی اسی لاپر واہی کے نتیجے میں اب تک الیکشن کمیشن کا کوئی مستقل سربراہ تعینات نہیں کیا جاسکا جو اس ادارے کی موثر فعالیت میں رکاوٹ بنا بیٹھاہے۔اگر یہی صورتحال رہی تو ہم کیسے ایک شفاف اور عوامی منشاء کی ترجمان جمہوریت پروان چڑھ پائے گی۔

عمران خان صاحب دھرنوں میں مصروف ہیں اور حکومت کی ترجیحات میں انتخابی اصلاحات شائد کہیں بھی نہیں، اس سے فی الوقت نہ حکومت کو کوئی نقصان پہنچ رہا ہے نہ ہی عمران خان صاحب کو، البتہ عوام سے اُس کا حقِ رائے دہی چھینا جارہا ہے، اُن کے ووٹ کی طاقت کو دبایا جارہا ہے۔ اور اُن سے اُن کی نمائندگی کا حق غصب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ابھی اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے خالی کی گئیں نشستوں پر ضمنی انتخابات کرائے جائیں گے اور اگر تب بھی یہی بد انتظامی دیکھنے میں آئی تو یہ ایک نئے سیاسی اضطراب کو جنم دے سکتا ہے۔

جمہوریت کو مستحکم کرنے کی حامی قوتیں، انتخابات اوران کے صحیح انعقاد سے منھ پھریں گی، تو اُن کا اپنا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔وہ وقت اب گزر گیا جب عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا تھا،اگرانہیں ان کا حق نہ دیا گیا تو یہ اپنا حق چھیننا خوب جانتے ہیں۔ ۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔