اپنے ملک کی موجیں

تنویر قیصر شاہد  منگل 21 اکتوبر 2014
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

نیویارک آبادی کے لحاظ سے امریکا کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کی معاشی طاقت وحشمت کی وجہ سے اسے ’’دنیا بھر کا دارالحکومت‘‘ (Capital  of  the  World) بھی کہا جاتا ہے۔ انتظامی اعتبار سے اسے چار حصوں، جنھیں ’’بورو‘‘ (Borough) کہا جاتا ہے، میں تقسیم کیا گیا ہے: بروکلین، کوئنز، مین ہیٹن اور برونکس۔ مجھے ’’بروکلین‘‘ میں خاصا عرصہ رہنے کا موقع ملا ہے۔ یہی وہ بورو ہے جہاں ’’کونی آئی لینڈ ایونیو‘‘ کے ایک مختصر علاقے پر بسنے والے حصے کو ’’لٹل پاکستان‘‘ کہا جاتاہے کہ یہاں زیادہ تر آبادی پاکستانی خصوصاً پنجابی امریکیوں کی ہے۔ بروکلین میں میری رہائش گاہ میکڈ انلڈ ایونیو پر تھی۔

چرچ ایونیو ریلوے اسٹیشن سے میں   روزانہ ایف ٹرین پکڑ کر ’’کوئنز‘‘ کی جانب جاتا جہاں جیکسن ہائٹس کے نزدیک ہی میری ملازمت تھی۔ ’’جیکسن ہائٹس‘‘ میں بھی اگرچہ پاکستانی تاجروں کی دکانیں ہیں لیکن یہاں کا زیادہ تر کاروبار بھارتی نژاد دولتمند ہندوؤں کے ہاتھ میں ہے۔ یہیں میں نے غالباً دنیا کا سب سے بڑا گروسری اسٹور دیکھا جہاں دنیا بھر سے مصالحہ جات لائے جاتے ہیں۔ اس اسٹور کے مالک بھی بھارتی ہندو تاجر ہیں لیکن انتہائی مہذب اور بااخلاق۔ شاید ان کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہی حُسنِ اخلاق ہے۔ اس گروسری اسٹور پر ہر وقت پاکستانی، بھارتی، بنگلہ دیشی اور سری لنکن نژاد امریکی خواتین کا جمگھٹا لگا رہتا ہے کہ باورچی خانہ میں استعمال ہونے والی ہر شئے یہاں میسر ہے۔

میں صبح آٹھ بجے چرچ ایونیو اسٹیشن سے Fٹرین پکڑتا اور شام سات بجے کے قریب اسی ٹرین پر اسی زیر زمین ریلوے اسٹیشن پر اتر جاتا۔ ٹرین کبھی ایک دن بھی لیٹ نہ ہوئی، خواہ سردی کا موسم ہوتا اور خواہ موسمِ گرما۔ ٹھنڈا اسٹرابری مِلک مجھے ہمیشہ بہت مرغوب رہا ہے۔ (اب یہی عادت میرے ایک بیٹے کو بھی ہے) گرمیوں کے موسم میں، شام کے وقت میں چرچ ایونیو اسٹیشن، جس کے داخل اور خارج کے چار دروازے تھے، پر اترتا اور قریب ہی ایک اسٹور پر جاتا، وہاں سے زرد رنگ کے پیپر باکس میں ٹھنڈا اسٹرابری مِلک خریدتا اور مزے سے پیتا ہوا گھر کی راہ لیتا۔ یہ مشغلہ بلا ناغہ تھا۔ گلابی رنگ کا مزیدار دودھ جہاں ختم ہوتا، خالی ڈبہ وہیں کہیں پھینک دیتا۔ ایک روز اسی طرح معمول کے مطابق، جب کہ موسم خاصا حبس آلود تھا، اسٹور میں گیا، اسٹرابری دودھ کا ٹھنڈا ڈبہ خریدا اور نلکی منہ میں لے کر مزے سے پیتا ہوا گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔ مجھے یاد ہے، میں   نے اس روز سیاہ شارٹ اور نیلے رنگ کی ٹی شرٹ پہن رکھی تھی۔

دودھ کا ڈبہ جس جگہ ختم ہوا، وہاں ایک عمارت زیرِ تعمیر تھی۔ میں نے خالی ڈبہ وہیں پھینک دیا۔ اچانک ایک گاڑی کی اوٹ سے ایک سیاہ فام خاتون، جس نے NYPD کی وردی پہن رکھی تھی، نمودار ہوئی اور اس نے مجھے رک جانے کا اشارہ کیا۔ میں نے دیکھا اس کے ہاتھ میں ننھا سا کمپیوٹر بھی ہے، چالان کاٹنے والی ایک چرمی مجلد نوٹ بک بھی ہے اور اس کے پہلو میں سیاہ ڈنڈا بھی لٹک رہا ہے جو نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ کی یونیفارم کا لازمی جزو ہے۔

سیاہ فام پولیس والی میرے قریب آکر کھڑی ہوگئی۔ اس کے نیم گلابی موٹے ہونٹوں پر عجب مسکراہٹ تھی۔ مجھے کہنے لگی: ’’چونکہ تم نے خالی ڈبہ وہاں پھینک کر گند پھیلایا ہے اور قانون شکنی بھی کی ہے، اس لیے تمہیں پچاس ڈالر جرمانہ کرتی ہوں‘‘۔ ساتھ ہی اس نے اپنی سیاہ چرمی جلد والی نوٹ بک نکالتے ہوئے اپنے بھدے ہاتھ سے اس جانب اشارہ کیا جہاں میں نے اسٹرابری مِلک کا خالی ڈبہ پھینکا تھا۔ پولیس والی نے چالان کے چند خانے بھرے اور مجھ سے سوشل سیکیورٹی کارڈ طلب کیا تاکہ اس کا نمبر درج کرکے چالان مکمل کیا جاسکے۔ پچاس ڈالر کا جرمانہ تو خاصا زیادہ ہے یار! میں نے ایک لحظے کے لیے سوچا اور ساتھ ہی جھوٹ بول دیا۔ میں نے منمناتے ہوئے پولیس والی سے کہا: میڈم، ہاں یہ جرم تو یقینا ہے لیکن چونکہ پہلی بار کیا ہے، اس لیے مجھے معاف کردیا جائے۔ وہ طنز کے ساتھ زور سے مسکرائی تو اس کے سفید دانت اور گلابی مسوڑے صاف دکھائی دے گئے۔ ا

س نے خاموشی سے اپنا ننھا سا کمپیوٹر آن کیا اور پھر کچھ کہے بغیر اسکرین میرے سامنے کردی۔ وہاں حیرت انگیز ہی نہیں بلکہ سٹّی گم کردینے والے مناظر تھے۔ اسکرین پر میری تصویر بار بار ابھر رہی تھی اور متحرک تصاویر میں میں صاف دکھائی دے رہا تھا۔ میں نہ جانے کتنی بار خالی ڈبے پھینکنے کے جرم کر چکا تھا۔ چند منٹ میں فلم ختم ہوگئی۔ نیویارک پولیس کی کالی مادام نے کمپیوٹر آف کیا اور مجھے خاموشی سے تکنے لگی۔ میں مجرم بنا خاموشی سے کبھی اس کی جانب دیکھتا اور کبھی شرمندگی میں سامنے سڑک پر رواں دواں ٹریفک کو خالی نظروں سے دیکھنے لگتا۔ جرم تو ثابت ہوچکا تھا۔ پھر پولیس والی کی آواز ابھری: ’’جنٹلمین، تم نے بیک وقت دو جرائم کیے ہیں۔

کوڑا پھیلانے کا جرم بھی اور جھوٹ بولنے کا بھی۔ لگتا ہے شہری اخلاقیات کے حوالے سے تمہاری کسی نے تربیت کی ہے نہ تمہیں کسی نے تمیز سکھائی ہے۔ اب میں تجھے سو ڈالر جرمانہ کرتی ہوں۔‘‘ میں نے خاموشی سے اپنا سوشل سیکیورٹی کارڈ بٹوے سے نکال کر اسے تھما دیا۔ اس نے چالان فارم بھرا اور ایک کاپی مجھے دے دی۔ سر جھکائے میں گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔ نہایت ندامت کی کیفیت میں۔ اگلے روز صبح سویرے اٹھا، جج صاحب کے روبرو پیش ہوا اور ایک سو ڈالر کا جرمانہ ریاستِ نیویارک کے خزانے میں جمع کرا دیا۔

یہ واقعہ اس وقت اس لیے یاد آرہا ہے کہ چند گھنٹے قبل میرے ڈرائیور سے ٹریفک کے سرخ اشارے کی خلاف ورزی ہوگئی تھی۔ حادثہ ہوتے ہوتے بچ گیا کہ دوسری جانب سے رکی ٹریفک دریا کی طرح بہہ نکلی تھی۔ چوک میں کھڑے باوردی ٹریفک آفیسر نے میری گاڑی روکی اور ڈرائیور کو لائسنس اور گاڑی کے کاغذات سمیت باہر آنے کا اشارہ کیا اور خود کچھ دور نکڑ میں اُگے ایک چھوٹے سے درخت کے نیچے جاکھڑا ہوا تاکہ دھوپ کی تمازت سے محفوظ رہ سکے۔ میرا ڈرائیور دونوں اشیاء لے کر اس کے پاس چلا گیا۔ مجھے دور سے کم کم نظر آرہا تھا لیکن میں دیکھ سکتا تھا کہ ڈرائیور اور ٹریفک آفیسر کے درمیان تُو تُو، میں میں ہورہی تھی۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد ڈرائیور پسینے میں شرابور، مسکراتا ہوا واپس آکر اسٹیئرنگ پر بیٹھ گیا۔ میں نے پوچھا: کتنا جرمانہ ہوا ہے؟ وہ زور سے مسکرایا اور اپنے اوپر لگے آئینے میں مجھے دیکھتے ہوئے کہنے لگا: ’’تین سو روپے کا چالان کاٹ رہا تھا۔

میں نے کہا: صاحب، دھوپ بڑی ہے اور خدا قسم آج پہلی بار ٹریفک (قانون) کی خلاف ورزی کی ہے۔ ساتھ ہی میں نے گاڑی کے کاغذات والی کاپی میں پچاس پچاس کے دو نوٹ رکھ کر کاپی اسے پکڑا دی۔ اس نے پیسے جیب میں رکھ لیے اور کاپی مجھے واپس دے دی۔‘‘ وہ کالر کو گردن کی جانب موڑتے اور اے سی فین کو اپنی طرف کھولتے ہوئے کہنے لگا: ’’صاحب جی، تین سو روپے کی تو کوئی بات نہیں لیکن بینک میں پیسے جمع کرانے اور پھر کسی ٹریفک پولیس کے دفتر میں جا کر ڈرائیونگ لائسنس اور گاڑی کے کاغذات واپس لینے میں بڑی خواری بھگتنا پڑتی ہے اور سارا دن بھی ضایع ہوجاتا ہے۔ پھر آپ نے ناراض بھی ہونا تھا۔‘‘ اس نے سر کھجایا اور گاڑی آگے بڑھا دی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔