بلوچستان، تعلیم کی زبوں حالی

مجاہد حسین  منگل 21 اکتوبر 2014

دنیا بھرمیں ایک بات طے ہوچکی ہے کہ اب تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں، یہی وجہ ہے کہ وہی اقوام ترقی یافتہ ہونے کا اعزاز حاصل کررہی ہیں جو تعلیمی میدان میں گرانقدر اقدامات کررہی ہیں۔ پاکستان کو قائم ہوئے 67 سال ہوچکے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ملک میں تعلیمی پسماندگی پر حکومتی سطح پر تمام جمہوری حکومتوں کے ادوار میں کسی قسم کے موثر اقدامات نہیں کیے گئے، جس کی وجہ سے ملک بھر میں خواندگی کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ غیر سنجیدگی کے باعث کئی تعلیمی ادارے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔

بچے زمین پر بیٹھ کر علم کی پیاس بجھا رہے ہیں۔ اساتذہ کی حالت یہ ہے کہ بیشتر گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں جب کہ کئی گھوسٹ اسکول بھی کام کررہے ہیں، جوقومی خزانے پر بوجھ ہے۔ صوبہ سندھ میں تعلیم کی جانب توجہ دینے یا محکمہ تعلیم میں کوئی بہتری نہ ہونے کی بڑی وجہ سیاسی محاذ آرائی ہے۔ خیر پختونخوا میں تعلیم کے حوالے سے اقدامات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں، البتہ پنجاب میں ہر دور میں کچھ نہ کچھ پیش رفت ہوئی لیکن اسے اطمینان بخش بہرحال نہیں کہا جاسکتا، جب کہ بلوچستان میں موجودہ حکومت کی جانب سے تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود شعبہ تعلیم کی صورتحال انتہائی خراب ہے، جس پر غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ ساتھ خود حکومتی حلقوں کی جانب سے بھی تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ صوبے میں اسکول جانے کی عمر کے دو تہائی بچے اسکولوں سے باہر اور سرکاری اسکولوں میں صرف چھ فیصد اسکول ہائی جب کہ 37 فیصد اسکول ایک ہی کمرے پر مشتمل ہیں۔

محکمہ تعلیم حکومت بلوچستان کے ذرایع اور فروغ تعلیم کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں کل 12 ہزار 3 سو 47 سرکاری اسکول ہیں، جن میں 58 فیصد اسکولوں میں صرف ایک استاد تعینات، جب کہ اساتذہ کی 17 فیصد منظور شدہ اسامیاں خالی ہیں۔ سرکاری اسکولوں کا انفرااسٹرکچر انتہائی خراب ہے جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 47 فیصد اسکولوں کی عمارتوں کی حالت غیر اطمینان بخش ہے، صوبے کے ہر 5 میں سے 4 اسکولوں میں بجلی، ہر 3 میں سے 2 اسکولوں میں پینے کا پانی، ہر 4 میں سے 3 اسکولوں میں حاجت خانوں اور ہر 4 میں سے 3 اسکولوں کو چار دیواری تک میسر نہیں ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں اسکول جانے کی عمر کے 27 لاکھ بچے ہیں، جن میں 18 لاکھ اسکول نہیں جاتے۔ پرائمری اسکول میں داخلہ لینے والے 8 لاکھ 65 ہزار 3 سو 37 بچوں میں سے 57 فیصد پرائمری پاس کرنے سے قبل تعلیم کو خیرباد کہہ دیتے ہیں، اسکول نہ جانے والے بچوں میں لڑکیوں کی شرح زیادہ ہے۔ 5 سے 16 سال کی عمر کی 62 فیصد لڑکیاں اسکولوں سے باہر ہیں۔ پرائمری اسکولوں میں لڑکیوں کے داخلے کی شرح 35 فیصد ہے جوکہ ہائی اسکول تک پہنچتے پہنچتے صرف 4 فیصد رہ جاتی ہے۔

قوم پرستوں کی قیادت میں قائم موجودہ حکومت نے صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ کیا ہے مگر آج بھی بلوچستان میں اندازاً 216 فرضی یا غیر فعال اسکول ہیں۔ صوبے کا تعلیمی معیار پورے ملک میں سب سے خراب ہے اور تعلیمی درجہ بندی کے لحاظ سے بلوچستان کا کوئی بھی ضلع اوپر کے درجوں میں نہیں آتا۔ تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود بلوچستان کے اسکولوں میں ہر روز 14 فیصد اساتذہ غیر حاضر رہتے ہیں، اساتذہ کی کمی اور تعلیمی ابتری کے باعث زیر تعلیم طلبا کی صلاحیت متاثر ہورہی ہے، جس کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ پانچویں میں زیر تعلیم 51 فیصد بچے اردو کہانی روانی سے نہیں پڑھ پاتے، 71 فیصد انگریزی کا ایک بھی جملہ روانی سے نہیں پڑھ سکتے اور 61 فیصد ایسے ہیں جو ریاضی کے عام سوال بھی حل نہیں کرسکتے۔ ماہرین تعلیم کے مطابق اس پریشان کن صورتحال کی مختلف وجوہات ہیں جن میں اسکولوں کی کمی، اسکولوں میں سہولیات کی عدم فراہمی، اساتذہ کی کمی اور غیر حاضری، سیاسی بنیادوں پر تعیناتیاں اور مڈل و ہائی اسکولوں کے طویل فاصلے پر قائم ہونے جیسے محرکات سرفہرست ہیں۔

بلوچستان میں تعلیم مکمل کیے بغیر اسکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد انتہائی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ پرائمری اسکول میں داخلہ لینے والے بچوں کی تعداد 8 لاکھ 65 ہزار 337 ہے، مڈل اور سکینڈری اسکول میں پہنچ کر یہ تعداد تقریباً 7 لاکھ کم ہوکر صرف ایک لاکھ 91 ہزار 300 رہ جاتی ہے۔

اسکول میں داخلہ لینے والے 57 فیصد بچے پرائمری پاس کرنے سے پہلے ہی اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ صوبہ میں لڑکوں کی شرح 34 فیصد ہے، صرف 23 فیصد لڑکیاں ایسی ہیں جو کبھی اسکول گئی ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں 61 فیصد لڑکے ایسے ہیں جو کبھی اسکول گئے ہیں۔ بلوچستان میں گورنمنٹ اسکولوں کی تعداد ضرورت سے بہت کم ہے۔ تعلیم کی ناکافی فراہمی نہایت سنگین مسئلہ ہے۔ بلوچستان میں گورنمنٹ اسکولوں کی کل تعداد 12347 ہے جن میں سے صرف 6 فیصد ہائی اسکول ہیں، زیادہ تر بچے گورنمنٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ 5 سے 16 سال کی عمر کے 76 فیصد بچے گورنمنٹ اسکولوں میں جب کہ 19 فیصد پرائیوٹ اسکولوں میں جاتے ہیں اور صرف 5 فیصد بچے مدرسوں میں داخل ہیں، زیادہ تر لڑکیاں تعلیم مکمل کیے بغیر اسکول چھوڑ دیتی ہیں۔ پرائمری اسکول میں خواتین کے داخلے کی شرح 35 فیصد ہے جوکہ مڈل اسکول کی سطح پر 9 فیصد اور ہائی اسکول میں جاکر صرف 4 فیصد رہ جاتی ہے۔

بلوچستان کے 30 اضلاع میں سے 13 اضلاع کا اسکور 50 سے بھی کم ہے، اساتذہ کی کثیر تعداد اسکولوں سے غیر حاضر رہتی ہے، بلوچستان کے اسکولوں میں ہر روز 14 فیصد اساتذہ غیر حاضر رہتے ہیں۔ بلوچستان کے 37 فیصد اسکول ایک ہی کمرہ جماعت پر مشتمل ہیں، بلوچستان کے کچھ علاقوں میں یہ صورتحال اور بھی خراب ہے، جیسا کہ بارکھان کے 81 فیصد اسکول صرف ایک کمرہ جماعت پر مشتمل ہیں۔ پنجگور میں نجی تعلیمی ادارے وزیراعلیٰ کی مکمل یاددہانیوں کے باوجود شرپسندوں کے نشانے پر رہنے کے بعد بالآخر بند ہوچکے ہیں۔ حکومت کی جانب سے جب بھی امن و امان کی بہتری کے دعوے کیے جاتے ہیں اس کے اگلے ہی روز صوبہ میں کہیں نہ کہیں سے دھماکوں کی گونج سنائی دیتی ہے جو تمام بہتری کے اقدامات پر پانی پھیر دیتے ہیں اور حکومت پھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہ جاتی ہے۔

مبصرین کا صوبے کی صورتحال کے تناظرمیں کہنا ہے کہ چونکہ صوبے میں انتہا پسندی، دہشت گردی، علیحدگی اور عصبیت پسندی کی فضا برپا ہے، صوبہ میں ایک ضلع یا علاقہ سے دوسرے ضلع یا علاقے میں جانا تقریباً غیر محفوظ ہوگیا ہے، یعنی صوبہ بھر میں نو گو ایریاز بن چکے ہیں لیکن اس حقیقت کو حکومتی سطح پر کبھی بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ جب تک زمینی حقائق کو تسلیم نہیں کیا جاتا بلوچستان کسی بھی لحاظ سے ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا وفاقی حکومت بالخصوص صوبائی حکومت کی جانب سے محض دعوؤں پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ آگ کے اس دریا کو عبور کرنے کے لیے پہلا قدم ضرور اٹھائے، اگلا قدم خودبخود اٹھے گا اور امید ہے کہ یہ فرد واحد سے کارواں کی شکل اختیار کرلے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔