عالمی اردو کانفرنس اور تلخ حقیقتیں (پہلاحصہ)

خرم سہیل  منگل 21 اکتوبر 2014
khurram.sohail99@gmail.com

[email protected]

گزشتہ ہفتے کو آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیراہتمام منعقد ہونے والی ’’عالمی اردو کانفرنس‘‘ نے 7 برس پورے کرلیے۔ مجھے اس مرتبہ بھی تفکرات نے گھیرے رکھا کیونکہ ایک ایسا ادبی جلسہ، شہر بھر کو جس کا انتظار رہتا تھا، وہ سطحی رویوں میں بدلنے لگا، اس میں مصنوعی پن اور یکسانیت عود آئی۔ یہ سب کیوں اور کیسے ہوا؟ ان جوابات کے لیے کچھ تلخ حقائق کو سمجھنا ہوگا۔ اتفاق اور اختلاف آپ کا حق ہے، مگر حق بات کہنا میرا فرض ہے۔

رواں برس مارچ 2014 کو ایک خبر مختلف اخبارات میں شایع ہوئی ’’کراچی کے ایک گھر سے پراسرار طور پر ہلاک ہونے والی دو خواتین کی لاشیں ملیں۔ ان کے نام سراج المنیر اور صالحہ کوثر تھے۔ یہ دونوں سگی بہنیں تھیں، غیر شادی شدہ اور گھر میں اکیلی رہتی تھیں ۔ دونوں کا تعلق تدریس جیسے معتبر پیشے سے تھا ۔‘‘ خبر دینے والوں نے تو خبر دے دی مگر صد افسوس جن حلقوں کا کام اس خبر پر چونکنا تھا، وہ نہیں چونکے کیونکہ بے حسی کی کیفیت میں حیران ہونے اور درد محسوس کرنے کی حس اپنی صلاحیت کھو بیٹھتی ہے ۔

یہ دونوں بہنیں گزشتہ کئی دہائیوں سے مشاعروں، ادبی محفلوں اور جلسوں میں شرکت کرتی تھیں ۔ ان میں سے ایک خاتون جن کا نام ’’سراج المنیر‘‘ تھا، وہ شاعرہ تھی اور ’’تسنیم‘‘ تخلص کرتی تھی ۔ شہر کراچی کی معروف ادبی شخصیت پروفیسر یونس حسنی اس کے شعری مجموعے ’’خوشبو گلاب کی‘‘ کا پیش لفظ لکھتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’یہ کتاب محترمہ سراج المنیر تسنیم کی ہائیکو نظموں کا مجموعہ ہے جو خوبصورت پھولوں، پتیوں، لہلہاتے سبزہ زاروں ، ٹھاٹھیں مارتے سمندروں، جوہڑوں میں ٹرٹراتے مینڈکوں ، رات کے اندھیروں میں نور بکھیرنے والے جگنوؤں کا دیس ہے ، تسنیم نے اپنے آپ کو ہائیکو کی اس جامعیت میں تلاش کرلیا ہے ۔‘‘ یہ اس شاعرہ کی بات ہو رہی ہے جس کی لاش کو 5دن کے بعد گھر سے تعفن اٹھنے پر اہل محلہ نے نکال کر دفنایا ۔

پاکستان کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ ’’ادا جعفری‘‘ جو ابھی زندہ ہیں، انھوں نے اپنی آپ بیتی کا عنوان ’’جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ رکھا تھا، شاید ایسا لگتا ہے کہ انھیں یہ اندازہ تھا کہ ایک وقت آئیگا جب ان سے اہل اردو ایسے ہی بے خبر ہو جائینگے ۔ ان سے کہیں کم سطح کی شاعرات جس طرح عالمی اردو کانفرنسوں کا حصہ یا موضوع بن رہی ہیں یہ بڑی عجیب بات ہے ۔

سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا، یہ دو مثالیں تو ان کی ہیں، جن سے بظاہر آرٹس کونسل کراچی کی کوئی جذباتی وابستگی نہیں مگر غفلت اور بے حسی کے اثرات سے ان کے اپنے بھی محفوظ نہیں رہے ۔ ایک مثال آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی گورننگ باڈی کی رکن، پاکستان کی قابل فخر اور معروف شخصیت ’’فاطمہ ثریا بجیا‘‘ ہیں جو اسی برس اپنے گھر میں غسل خانے میں گر کر زخمی ہوئیں ، فالج کے حملے نے ان کے بدن کا دایاں حصہ مفلوج کردیا ۔ مجال ہے اس اردو کانفرنس میں ان کے لیے موضوع کے طور پر کسی سیشن میں جگہ نکلی ہو، یا انھیں کسی بہانے سے یاد کیا گیا ہو ، ہر چند کہ وہ جب صحت مند تھیں ، تو اسی اردو کانفرنس میں انھیں ہر سطح پر شامل رکھا گیا ۔ جہاں اردو کی ایک مقامی شاعرہ (اس بات سے قطع نظر کہ اس کی شاعری کیسی تھی) کی ناگہانی موت کے لیے سرد مہری ہو ، پاکستان کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ اور کئی نسلوں کی فکری آبیاری کرنیوالی ڈراما نگار بستر علالت پر ہو اور مجرمانہ خاموشی طاری کیے ان جلسوں میں ان کو یکسر فراموش کردیا گیا ہو ، وہ ہمارے کس کام کی ؟

فاطمہ ثریا بجیا کے تناظر میں دیکھیں تو شاید زہرہ نگاہ، انور مقصود کے نام ابھی تک اس لیے اس کانفرنس میں دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ ان سے ابھی استفادہ ممکن ہے ۔ بجیا بستر سے جا لگیں تو آرٹس کونسل والے بھول گئے، وہ انھیں تب تک یاد تھیں ، جب وہ گورنر کراچی کی مشیر تھیں ۔ آرٹس کونسل والے یہ بھی بھول گئے کہ اپنی ویب سائٹ پر بجیا کو ممبران کی ویلفیئر کمیٹی کی سربراہ لکھ رکھا ہے ۔ کاش ویلفیئر کا تھوڑا سا احساس خود ان کے لیے بھی ہوتا تو کیا تھا ۔ اب ویب سائٹ کا ذکر نکلا تو بتاتا چلوں، خواتین کو چیئرمین نہیں لکھتے، چیئرپرسن لکھا جاتا ہے، ویب سائٹ پر گورننگ باڈی کی تمام خواتین کو چیئرمین لکھ رکھا ہے ۔

اب آتے ہیں موجودہ عالمی اردو کانفرنس کے معاملات کی طرف، تو قارئین کو یاد ہوگا، گزشتہ برس کالم میں پروفیسر سحر انصاری سے میں نے شکوہ کیا تھا کہ بہت سے صحافی، ادیب اور محقق بالخصوص نوجوان اور چند سینئر ایسے ہیں جن سے مشاورت کی جاسکتی ہے مگر ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اس مرتبہ تو پروفیسر سحر انصاری سے بھی شکوہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عملی طور پر وہ خود اس کانفرنس سے باہر دکھائی دیے۔ اس سلسلے میں پہلی پریس کانفرنس سب کو یاد ہوگی جس میں ادبی کمیٹی کے چیئرمین کے بغیر جن لوگوں نے میڈیا سے بات کی، ان میں سے ایک بھی آدمی کا تعلق ادب کے شعبے سے نہیں تھا، یہ الگ بات ہے کہ پھر انھیں خیال آگیا ۔ اسی سلسلے کی دوسری پریس کانفرنس میں پروفیسر سحر انصاری کو میڈیا سے بات کرنیوالے وفد میں کونیوالی آخری کرسی مل گئی جس پر وہ خاموشی اور صبر کا دامن تھامے بیٹھے رہے ۔ اس اردو کانفرنس (عالمی کا لفظ رہنے دیجیے، اس پر آگے چل کر بات ہوگی) کے لیے چونکہ شہر کراچی میں رہنے والے عوام جن کے ووٹوں کی وجہ سے ہر سال اس ادارے کے چیئرمین اور دیگر عہدوں اور ان پر فائز ہونیوالوں کا تعین ہوتا ہے اور یہ عوامی ادارہ ہے اس لیے یہاں کے عوام چاہتے تھے کہ ان سے مشاورت کی جائے تاکہ اس اہم جلسے کا معیار برقرار رکھا جائے ۔ اس مرتبہ بھی یہ فریضہ تو نبھایا گیا مگر کیسے، وہ روداد کچھ یوں ہے ۔

ستمبر کے تیسرے ہفتے میں ہونے والا مشاورتی اجلاس بلایا گیا، شرکا کی تعداد بہت زیادہ نہیں تھی لیکن اس کے باوجود وہاں موجود اہم شخصیات میں افضا احمد سید، فرہاد زیدی، رسا چغتائی، عذرا عباس، اوج کمال، انیس باقر، منظر ایوبی، عالیہ امام، شاہد رسام اور دیگر شامل تھے۔ اس موقع پر سیکریٹری آرٹس کونسل احمد شاہ کا کہنا تھا۔ ’’ہم پورا سال ہر سطح پر رابطے میں ہوتے ہیں اور لوگوں سے مشورہ بھی کرتے ہیں۔ ہم سے ایک شکوہ کیا جاتا ہے کہ ہم سے کیوں نہیں پوچھا جاتا، ہم اس بات کا برا بھی مان سکتے ہیں کیونکہ ہم اس کو یوں بھی سوچ سکتے ہیں کہ ہم نہیں پوچھتے کسی سے، ہماری گورننگ باڈی کررہی ہے، ہم یہ کام بہت اچھی طرح کررہے ہیں اور ہم بہت کامیاب بھی ہیں، لیکن یہ اچھی بات ہے کہ شہر کے دیگر لوگ بھی اس اردو کانفرنس پر اپنا حق ملکیت جتا رہے ہیں ۔‘‘

مشاورت کے لیے اکٹھے ہونیوالے اس جلسے میں سب نے فرداً فرداً اظہار خیال کیا۔ اکثریت کا کہنا تھا کہ ہمیں مشورے کے لیے بلایا تو جاتا ہے مگر ان مشوروں پر عمل نہیں کیا جاتا ۔ گزشتہ سال کا حوالہ دیتے ہوئے ایک صاحب نے کہا کہ ادھر ہم مشاورت کرکے گھر گئے اور اگلے دن چھپا ہوا پروگرام ہمارے گھر بذریعہ ڈاک موصول ہوگیا ۔ احمد شاہ اور فاطمہ حسن نے اس کی تردید کی اور کہنے لگے کہ ابھی کچھ بھی طے نہیں کیا گیا ۔

لیکن کتنی عجیب بات ہے۔ اس مرتبہ بھی اردوکانفرنس کا پروگرام مشاورتی اجلاس کے چند دن بعد ہی مل گیا، وہ تو ہم تک پہنچنے میں تھوڑی تاخیر اس لیے ہوئی کہ پروگرام پر تاریخیں غلط چھپ گئیں جس کی وجہ سے اس کو دوبارہ چھاپنا پڑا ۔ حسب روایت مشاورتی اجلاس میں دی گئی کوئی تجویز اس قابل نہیں تھی کہ اس کو شامل کیا جاتا ۔ مشاورت کے نام پر یہ ناٹک بھی خوب رہا ۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔