سجی اردو کی محفل

اقبال خورشید  منگل 21 اکتوبر 2014
 آرٹس کونسل آف پاکستان کی ساتویں عالمی اردو کانفرنس 2014۔ فوٹو: ایکسپریس

آرٹس کونسل آف پاکستان کی ساتویں عالمی اردو کانفرنس 2014۔ فوٹو: ایکسپریس

سیاست اور سماج کی عداوتوں، حکومتوں کی بے اعتنائی اور ناموافق حالات کے باوجود اردو نے ہار نہ مانی۔ اپنی لچک، مٹھاس اور نفاست سے دلوں کو گرویدہ اور دماغوں کو اسیر کرتی اس زبان کے الفاظ اوراق کی زینت بڑھانے کے بعد آج جدید ٹیکنالوجی کے ہم سفر بنے کمپیوٹر اور موبائل فون کی اسکرینوں پر جگمگا رہے ہیں۔

افراد اور اداروں کے ناموں کی ایک جھلمل کرتی دور تک پھیلی کہکشاں ہے، جس کے ہر ستارے نے اس زبان کو اجالا، نکھارا، سنوارا اور اس کے زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کا اہتمام کیا۔ آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی بھی ایک ایسا ہی ادارہ ہے جو عہد حاضر میں مختلف کاوشوں کے ذریعے اردو کی خدمت انجام دے رہا ہے۔ ان کاوشوں میں سالانہ عالمی اردو کانفرنس سرفہرست ہے۔ اس سلسلے کی ساتویں کانفرنس جمعرات 16 اکتوبر کو شروع ہوکر اتوار 19 اکتوبر کو اختتام پذیر ہوئی۔ یہ عالمی اردو میلہ کئی مراحل سے گزر کر اپنے پیچھے فکروخیال کے کتنے ہی پہلو چھوڑگیا، جس کی روداد آپ کی نظر ہے۔

’’پہلا دن‘‘

٭ پہلا سیشن: زبان و ادب کی مجموعی صورت حال: آج کے تناظر میں

ملک کے معروف دانشور، محقق اور افسانہ نگار انتظار حسین نے افتتاحی اجلاس سے اجلاس کے صدر کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ادب کے میدا ن میں آنے والوں کو ایک ہزار راتوں کے اندھیروں کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ مجلس صدارت میں عبداللہ حسین، مسعود اشعر، ضیاء محی الدین، ڈاکٹر افضال حسین، افتخار عارف، پروفیسر سحر انصاری، ڈاکٹر پیر زادہ قاسم، مستنصر حسین تارڑ، عطاالحق قاسمی، خلیل طوقار، رضا علی عابدی اور صدر آرٹس کونسل پروفیسر اعجاز احمد فاروقی شامل تھے۔

صدر مجلس نے مزید کہا کہ جب پہلی اردو کانفرنس کا انعقاد ہوا تو کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ یہ کانفرنس تواتر کے ساتھ منعقد ہوتی رہیں گی۔ کراچی بلاشبہ دمشق سے آگے بڑھ گیا ہے۔ کراچی والوں نے کمال کر دکھایا ہے۔ افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے بھارت سے آئے ہو ئے مندوب ڈاکٹر قاضی افضال حسین نے کہا کہ اردو نے ثابت کردیا ہے کہ یہ دنیا بھر میں ترسیلی طور پر رابطے کی زبان ہے۔ سابق شیخ الجامعہ کراچی ڈاکٹر پیر زادہ قاسم نے کہا کہ اردو ادب کی یہ سب سے بڑی کانفرنس ہے۔ زبان ادب ثقافت کو موجودہ صورت حال میں دیکھنا چاہیے معاشرہ بدلتا رہتا ہے۔

معاشرے کی نفسیات میں بڑی تبدیلیاں آچکی ہیں ہمارے معاشر ے نے اپنی ترجیحات بدل لی ہیں۔ زبان، ادب، ثقافت اب ہماری ترجیحات میں شامل نہیں رہے۔ ہم غیرمحسوس طور پر عالم گیر کلچر کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ سیکریٹری آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہر زبان ایک تہذیب کو جنم دیتی ہے۔ اردو نے بھی ایک تہذیب کو جنم دیا ہے اور افراد ادارے کی Moving Force ہوا کرتے ہیں۔ اردو کا دیگر تمام زبانوں سے رشتہ یہ اردو کانفرنس ہے۔ ہم مسلسل اردو کی ترقی و ترویج کے کوشاں ہیں اور انشاء اللہ رہیں گے۔

٭ دوسرا سیشن: مشتاق احمد یوسفی کی کتاب شعر یاراں کی تقریب اجرا

اردو دنیا کے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی نئی کتاب شام ’’شعر یاراں‘‘ کی تقریب رونمائی کی صدارت ممتاز شاعرہ زہرہ نگاہ نے کی۔ کمپیئرنگ احمد شاہ نے کی۔ معروف افسانہ نگار انتظار حسین، ضیاء محی الدین، عطاالحق قاسمی، انور مقصود، عبداللہ حسین، آغا ناصر، مستنصر حسین تارڑ، ڈاکٹر فاطمہ حسن، شاہد رسام، کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی، صوبائی وزیر فیصل سبزواری اور افتخار عارف بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ افتخار عارف نے کہا کہ آج بہت ہی یادگار دن ہے۔ مشتاق یوسفی کی پہلی چار کتابوں میں دس، دس بر س کا وقفہ ہ تھا اور اب 25 سالوں کے وقفے کے بعد مشتاق یوسفی کی پانچویں کتاب سامنے آئی ہے۔

لفظ کے انتخاب کے سلسلے میں جتنا محتاط میں نے مشتاق یوسفی کو پایا کسی اور کو نہیں پایا۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہا کہ یہ تاریخی لمحہ اور موقع ہے اور ہم اس لمحے کا حصہ بن گئے ہیں۔ انور مقصود نے کہا کہ میں نے مشتاق یوسفی کی ابتدائی چار کتابیں آب گم، سرگزشت، خاکم بدہن اور چراغ تلے پڑھی ہیں اور اب اس پانچویں کتاب کو بھر پور انداز سے پڑھوں گا۔ ضیاء محی الدین نے کہا کہ مشتاق یوسفی کا علم بے حد وسیع ہے۔ تقریب کی صدر زہرہ نگاہ نے کہا کہ مشتاق یوسفی نے اپنی تحریروں سے ہمیں جینے اور مسکرانے کا موقع دیا۔ وہ طنز و مزاح کی معراج کو پہنچ گئے ہیں۔

٭ آخری سیشن: کلاسیکی رقص

کانفرنس کے پہلے روز کا آخری پروگرام کلاسیکی رقص پر مبنی تھا، جس میں بین الاقوامی شہرت یافتہ پاکستانی رقاصہ شیما کرمانی اور ان کے گروپ نے بر صغیر کے اساتذہ شعراء کے کلام پر کلاسیکی رقص کا خوب صورت مظاہرہ کیا۔ آرٹس کونسل کی جانب سے شیماکرمانی کو سماجی خدمات پر آکسفورڈ کی سربراہ امینہ سید اور احمد شاہ نے خصوصی شیلڈ پیش کی۔

’’دوسرا دن‘‘

٭ پہلا سیشن: اردو کو جدید ناول اور افسانہ

دوسرے روز کا پہلا اجلاس ’’اردو کا جدید ناول اور افسانہ‘‘ کے موضوع پر ہوا۔ مجلس صدارت میں انتظار حسین، عبداللہ حسین، مستنصر حسین تارڑ، اسد محمد خان، مسعود اشعر، نجم الحسن رضوی، انیس اشفاق، زاہدہ حنا، فرحت پروین شامل ہیں، جب کہ نظامت کے فرائض عرفان جاوید نے انجام دیے۔

معروف کالم نگار و افسانہ نویس زاہد ہ حنا نے اپنے موضوع ’معاصر افسانے میں عورت کی آواز‘ میں کہا کہ خواتین تخلیق کاروں نے ان موضوعات پر بھی لکھا ہے جن پر لکھتے ہوئے مرد قلم کار بھی گھبراتے ہیں۔ معروف افسانہ نگارنجم الحسن رضوی نے کہا کہ ایسی محفلوں نے نقاد کو آگے اور تخلیق کار کو پیچھے کر دیا ہے۔ مبین مرزا نے کہا کہآج کا قاری معاشرے کی ذہنی ساخت تحریروں میں دیکھنا چا ہتا ہے۔ ڈاکٹر امجد طفیل نے ’اردو ناول نئی صدی میں‘ کے موضوع پر کہا کہ ترقی پسند تحریک نے اردو ناول کے ساتھ بڑا ظلم کیا ہے۔

اردو ناول نگار اس صدی میں اپنے ارد گرد کے ماحول پر حقیقت پسندی سے نظر جمائے ہوئے ہے۔ اردو میں ہمیشہ اچھا اور اہم ناول لکھا گیا ہے۔ بھارت کے شہر لکھنٔو سے آئے ہوئے افسانہ نگار انیس اشفاق نے ’اردو میں جدید ناول۔ ایک مطالعہ ‘پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں انسانیت کا استحصال افسانے کا خاص موضوع بن گیا ہے۔ ممتازادیب اخلاق احمد نے ’جدید افسانہ اور سماج۔اجنبی یا آشنا؟‘ کے موضوع پر کہا کہ ادب اور سماج کا تعلق کبھی بہت برا نہیں رہا ہے۔ آج کا افسانہ آج کے سماج سے آشنا ہے۔ عنبرین حسیب عنبر نے اپنے مضمون بہ عنوان’اردو افسانہ اکیسویں صدی میں‘ کہا کہ اکیسویں صدی میں سب سے بڑا مسئلہ موضوع کا انتخاب ہے۔

٭ دوسرا سیشن: اردو زبان کو درپیش مسائل اور اس کا مستقبل

کانفرنس کے دوسرے روز’’اردو زبان کو درپیش مسائل اور اس کا مستقبل‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے ممتاز ناول نویس اور افسانہ نگار انتظار حسین نے کہا کہ اردو کے سلسلے میں گلوبلائزیشن واقعی ایک مسئلہ ہے، لیکن اردو کو فروغ پانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اردو کے سب سے زیادہ خطاکار اس کے اپنے لوگ ہیں۔ ممتاز اسکالر اور سنیئر براڈ کاسٹر رضا علی عابدی نے کہا کہ اردو عجیب سی زبان ہے یہ کسی کی بھی نہیں ہے لیکن سب کی ہے۔ ڈاکٹر قاضی افضال حسین نے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ ہم گلو بلائزیشن کا شکار ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے کہا کہ اردو کی طاقت ہے کہ ہم اردو بولتے ہیں۔

ڈاکٹر ناصر عباس نیئر نے کہا کہ اردو کو بعض حقیقی چیلینجز کا سامنا ہے۔ اردو کو اپنی بقاء کے لیے اپنی اتھارٹی بنانا ہوگی۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے اپنے موضوع اردو کی ترویج میں غیرسرکاری اداروں کا کردار پہ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آرٹس کونسل اس موضوع کے تناظر میں ایک اہم کردار ادا کررہی ہے۔ ڈاکٹرنجیبہ عارف نے اپنے موضوع اردو زبان کے عصری مسائل اور جامعات کا کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اردو ادب کو ہم اپنی تہذیبی اور ثقافتی شناخت قراردیتے ہیں، لیکن اردو کے بدلتے ہوئے لہجوں پر کون توجہ دے رہا ہے۔

٭ تیسرا سیشن: بیاد رفتگاں

’’بیادرفتگاں‘‘ کے زیرعنوان سیشن سے خطاب کرتے ہوئے معروف ادیب شاعر، کالم نگار اورسابق سفیر عطاالحق قاسمی نے کہا کہ احمد ند یم قاسمی میں انکسار ی کوٹ کوٹ کر بھر ی ہوئی تھی۔ ان میں حس مزاح بہت زبردست تھی۔ معروف شاعر جاذ ب قریشی نے سلیم احمد کی یادوں کو دہراتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے معاشرے کی بدنمائیوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی تھی۔ وہ ادھورے آدمی کی بکھری ہوئی خواہشوں سے انسان کو بچانا چاہتے تھے۔

سنیئر صحافی اور ادیب احفاظ الرحمن نے سنیئر صحافی شفیع عقیل کی یادوں کے حوالے سے لکھے گئے مقالے کو علی احمد خان نے پڑھا۔ احفاظ الرحمٰن نے اپنے مقالے میں شفیع عقیل کی زندگی اور فن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان کا اسلوب منفرد تھا۔شفیع عقیل نے آرٹ کی زبان کو اردو میں بخوبی ڈھالا۔ وہ بے حد عمدہ ادیب اور کالم نویس تھے۔ وہ شہرت سے دور بھاگتے تھے۔ چٹان کی طر ح مضبوط آدمی تھے۔ وہ بہت عمدہ صحافی تھے۔اندر سے وہ ایک تنہا روح کی طرح سفر کررہے تھے۔

ڈاکٹر آصف فرخی نے ممتاز شاعر محبوب خزاں کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ محبوب خز اں کو وہ نام اور مقام نہیں ملا جس کے وہ مستحق تھے، لیکن وہ منفرد شاعر کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ اظہر عباس ہاشمی نے سرشار صدیقی کے بارے میں کہا کہ سرشار صدیقی اردو کے ایک سچے عاشق تھے۔ وہ بڑے کھرے آدمی تھے۔ عقیدے کے معاملے میں کبھی بے عقیدہ نہ رہے۔ معروف مصور شاہد رسام نے صادقین پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صادقین پر ہمیشہ تخلیق کا جنون سوار رہتا تھا۔ وہ زندگی تاریخ فلسفہ، ادب اور آرٹ میں ڈوبے رہنے والے آدمی تھے۔ صدارت فرہاد زیدی نے کی۔ نظامت کے فرائض نصرت علی نے انجام دیے۔

٭ چوتھا سیشن: اردو کی نئی بستیاں اور تراجم کی روایت

چوتھے سیشن میں ’’اردو کی نئی بستیاں اور تراجم کی روایت ‘‘ کے حوالے سے صدارتی خطبہ دیتے ہوئے معروف شاعر و دانش وار امجد اسلام امجد نے کہا کہ موجود ہ دور میں تراجم کا کام بہت اہم ہے۔ آرٹس کونسل کے سیکریٹری احمد شاہ نے بیرون ملک سے آنے والے مندوبین کا شکریہ ادا کیا۔  ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے غیرملکی مندوبین کے لیے اعلان کیا کہ انہیں جو کتابیں درکار ہوں گی وہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی جانب سے مفت فراہم کی جائیں گی اور کتابوں کو بذریعہ ہوائی جہاز ان کے ممالک تک پہچانے کے اخراجات بھی حکومت پاکستان برداشت کرے گی۔

ارشد فاروق نے کہا کہ فن لینڈ میں سرکاری اسکولوں میں بچوں کو اردو سیکھنے کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ ترکی سے آئے ہوئے خلیل طوقار نے کہا کہ اردو ترکوں کی پسندیدہ زبان ہے۔ ترکی میں اردو کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ ایک صد ی سے جاری ہے۔ مصر سے آئے ہوئے ابراہیم محمد ابراہیم نے کہا کہ مصر میں  اصل مسئلہ اردو زبان کی کتابوں کی عدم فراہمی ہے۔ اس موقع پر معروف شاعرہ فرحت پروین نے مصر کے طالب علموں کے لیے ایک لاکھ روپے مالیت کی اردو کتابیں خرید کر دینے کا اعلان کیا۔

کینیڈا کے شہر ٹورنٹو سے آئے ہوئے اشفاق حسین نے کہا کہ ٹورنٹو اردو کا جدید مرکز بن چکا ہے۔ امریکا سے آئے ہوئے سعید نقوی نے کہا کہ امریکا کے ادبی منظرنامے کا مرکزی کردار پاکستان سے درآمد شدہ ہے۔ نیویارک اور لاس اینجلس میں اردو کے حوالے سے سب سے زیادہ سرگرمیاں ہوتی ہیں۔

’’تیسرا دن‘‘

٭ پہلا سیشن: اردو کا معاصر شعری تناظر

کانفرنس کے تیسرے دن کے پہلے سیشن بہ عنوان ’’اردو کا شعری تناظر‘‘ سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے اردو دنیا کے ممتاز دانشور و شاعرافتخار عارف نے کہا کہ دنیا کے ادبی منظر نامے میں یہ صدی ناول کے ہاتھ چلی گئی ہے۔ شاعری کا سفر پیچھے کی طرف جا رہا ہے اور افسانے کے طویل ہو نے کی باتیں بھی خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ مجلس صدارت میں کشور ناہید، امجد اسلام امجد، جاذب قریشی، رساء چغتائی اور پروفیسر سحر انصاری بھی شامل تھے۔ نظامت سلمان صدیقی نے کی۔

محمد احمد شاہ نے کہا کہ آج شہر کے سارے راستے بند ہیں اس کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ کراچی کے لوگ ادب نواز ہیں۔ بھارت سے آئے ہوئے عبید صدیقی نے کہا کہ بیسویں صدی میں فکشن، نظم، نثر نگاری اور غزل کے میدانوں میں جتنا عمدہ اور بھاری کام ہوا اس کی مثال نہیں ملتی۔ ڈاکٹر نجیب جمال نے کہا کہ فیض کی نظم ’مجھ سے پہلی سی محبت‘شعری جمالیات کی اعلی مثال ہے۔

ڈاکٹر ضیا الحسن نے کہا کہ غزل کا تربیت یافتہ قاری ہمیشہ غزل کی جہتوں سے محظوظ ہوتا ہے۔ جاذب قریشی نے اپنے کہا کہ شعر و ادب کا تجزیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ کسی بھی لکھنے والے نے کسی ایک اسلوب پہ طبع آزمائی نہیں کی بلکہ زیادہ اسلوب کی بات ہے۔ عذرا عباس نے کہا کہ نثری نظم اکیسویں صدی میں دا خل ہوگئی ہے اور رواں دواں ہے۔ ڈاکٹر تنویر انجم نے کہا کہ ہر نثری نظم اپنی اہمیت رکھتی ہے۔

٭ دوسرا سیشن: اردو اور پاکستانی زبانوں کے رشتے ناتے

’’اردو اور پاکستانی زبانوں کے رشتے ناتے‘‘ کے زیرعنوان ہونے والے سیشن میں ملک کے ممتاز دانشور امر جلیل نے صدارتی خطبے میں کہا کہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور اردو زبان قدرت کا کرشمہ ہے۔ اس زبان کا اگر چہ کوئی جغرافیائی حصہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود یہ زبان د نیا بھر میں سمجھی جاتی ہے۔

سید مظہر جمیل نے کہا کہ سندھی اور اردو کے رشتے آج کے نہیں ہیں اور نہ ہی محض بنے بنائے ہیں بلکہ بنیاد ی رشتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دونوں زبانوں کے قواعد بھی مشترکہ ہیں۔ امداد حسینی نے کہا کہ ہماری زبانوں کو ایک مخصوص ذہنیت سے خطرہ ہے۔ مظہر الحق صدیقی نے کہا کہ زبان ہوتی ہی مادری ہے اگر آپ کی ماں ہے تو آپ کی مادری زبان ہے۔ مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ بہت سی چیزیں اردو اور سندھی میں حیرت انگیز طور پر مشترکہ ہیں۔

ڈاکٹر نذیر تبسم (خیبر پختون خواہ) نے کہا کہ اردو دیگر زبانوں کے لیے ایک ماخذ کا درجہ رکھتی ہے۔ بلوچستان سے تشریف فرما ڈاکٹر کمیل قزلباش نے کہا کہ بلوچستان میں کچھ عناصر زبان کی بنیاد پر نفرت پھیلا رہے ہیں، مگر وہاں اہل قلم  اردو کی بنیاد پہ جمع ہوتے ہیں۔ اکبر لغاری نے کہا کہ اردو زبان سے دوسری زبانوں کے روابط 1947ء سے شروع نہیں ہوتے۔ ان رشتوں کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ ڈاکٹر صغریٰ صدف (لاہور) نے کہا کہ اردو پنجابی زبان کی بیٹی ہے۔

٭ تیسرا سیشن: ذرایع ابلاغ اور زبان

کانفرنس کے تیسرے دن کے تیسرے اجلاس میں ’’ذرائع ابلاغ اور زبان‘‘ کے موضوع پر اظہارخیال کیا گیا۔ مجلس صدارت میں انتظار حسین، آغا ناصر، فرہادزیدی، رضاعلی عابدی، مسعود اشعر شامل تھے۔ مقررین میں اصغر ندیم سید، عبیدصدیقی، حارث خلیق، مجاہد بریلوی، طاہر نجمی، نذیر لغاری شامل تھے۔ نظامت احمد شاہ نے کی۔ ممتاز ادیب انتظار حسین نے صدارتی کلمات میں کہا کہ زبان کے حوالے سے صرف ابلاغیات کے شعبے کو بد نام نہ کیا جائے۔ معاشرے کے ہر شعبے میں اخلاقیات اور زبان تباہ ہوتی جارہی ہے۔

آرٹس کونسل کے سیکریٹری محمد احمد شاہ نے کہا کہ ٹی وی چینلز اور اخبارات کو زبان کے حوالے سے تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ حارث خلیق نے کہا کہ ہمارے ہاں دانش کی زبان اب اردو نہیں رہی ہے۔ مجاہد بریلوی نے کہا کہ ایک دو اخبار کو چھوڑ کر کسی میں مدیر نہیں ہے جس کی وجہ سے خرابی پیدا ہوتی جارہی ہے۔ مسعود اشعر نے کہا کہ اردو زبان کو بگاڑنے میں ہمار ے میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ روزنامہ ایکسپریس کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر طاہر نجمی نے کہا کہ ہمارے سیاست داں اور اینکرز جو کچھ عوام کے ساتھ کررہے ہیں کیا وہ مذکر رہ گئے ہیں؟ اور کیا عوام کو مونث تسلیم کرلیا گیا ہے؟

آغا ناصر نے کہا کہ ریڈیو، ٹی وی کا مزاج اب بدل گیا ہے۔ سیٹھوں نے چینلز کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جن لوگوں کو لیا ہے وہ براڈ کاسٹر نہیں ہیں اس میں قصور پیمرا کا بھی ہے۔ عبیدصدیقی نے کہا کہ ابلاغ عامہ میں ہمیشہ عام فہم اور سادہ زبان استعمال کرنا چاہیے۔ اصغر ندیم سید نے کہا کہ مکالمہ اسے کہتے ہیں ’’جیسے بند ہ بندے سے بات کرتا ہے۔‘‘ رضا علی عابدی نے کہا کہ اب گلی گلی نکڑ نکڑ پر چینلز کی دکانیں بن گئی ہیں۔ اچھی زبان گفتگو کی زبان ہوتی ہے۔

آغا ناصر نے کہا کہ ہمارے زمانے میں تلفظ کی درستی کے لیے لاہور اور کراچی میں ماہر ین رکھے جاتے تھے۔ فرہاد زیدی نے کہا کہ اچھی زبان کسی بھی اخبار میں ملازمت کے لیے ضروری ہونا چاہیے۔ نذیر لغاری نے کہا کہ اس شہر میں آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ لوگ جوش ملیح آباد ی اور غالب کا انٹرویو کرنا چاہتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہم نے لفظ کو سمجھنے کا معاملہ قاری ناظر اور سامع پر چھوڑ دیا ہے۔

٭ چوتھا اجلاس: ترقی پسند تحریک کے اردو ادب پر اثرات

’’ترقی پسندتحریر کے اردو ادب پر اثرات‘‘ کے موضوع پر منعقدہ اجلاس سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے انجمن ترقی پسند مصنفین کے صدر پروفیسر مسلم شمیم نے کہا کہ تر قی پسندیدیت کے آغاز سے طبقاتی سماج وجود میں آیا۔ اس موقع پر پروفیسر سحرانصاری، ڈاکٹر انیس اشفاق، کشورناہید، زاہدہ حنا، سید مظہر جمیل، اشفاق حسین، صباء اکرام بھی موجود تھے۔ پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ پروفیسرسحرانصاری ترقی پسند وہ لوگ ہیں جہنوں نے تکلیفیں اور صعوبتیں برداشت کرکے اس تحریک کو زندہ رکھا اور اردو ادب کو بھی اس تناظر میں زندہ رکھا۔

فیض صاحب نے اپنی نظم تنہائی میں اس سوچ کو سامنے رکھا ہے۔ ٹورنٹو سے آئے ہوئے ڈاکٹر اشفاق حسین نے کہا کہ اس تحریک میں اتنی طاقت ضرور ہے کہ 80 برسوں کے بعد بھی اس پر بات کی جارہی ہے۔ کشور ناہید نے کہا کہ جادو وہ ہے جو سر چڑ کر بولے۔ انیس اشفاق نے کہا کہ ترقی پسند تحریک کو کسی نے مرنے نہیں دیا۔ ضیاء الحق کے زمانے میں بھی اور دیگر آمروں کے زمانے میں بھی۔ زاہدہ حنا نے کہا کہ اردو میں ترقی پسند تحریک نے اپنی راہ خود متعین کی تھی۔ آج کے ادیب کے سامنے ترقی پسند تحریک کے ساتھ ساتھ دیگر عوامل بھی موجود ہیں۔ سید مظہر جمیل نے کہا کہ اس تحریک کی اہمیت اور افادیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔

٭ پانچواں اجلاس: یارک شائر ادبی فورم کی تقریب اعزازات

اس دن کا پانچواں اجلاس یارک شائر ادبی فورم کی تقریب اعزازات تھی۔ فورم کے صدر رضا علی عابدی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ فورم بیشتر خواتین کے ہاتھوں میں ہے۔ نظامت غزل انصاری نے کی۔ پروفیسر سحر انصاری، ڈاکٹر مبین مرزا، عنبرین حسیب عنبراور غزل انصاری کے شوہر اور فضاعلی اعظمی اسٹیج پر موجود تھے۔ غزل انصاری نے کہا کہ یارک شائرادبی فورم پچھلے تین برسوں سے اردو کانفرنس میں شرکت کررہا ہے۔ آج ہمارا لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ 3 پروفیسر سحر انصاری کو تفویض کیا جارہا ہے اور فضا اعظمی کو بھی پیش کیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر مبین مرزا نے کہا کہ سحرانصاری ہمارے عہد کے بڑے قدآور نقاد، استاد اور شاعر ہیں۔

انہوں نے شاعری اور تنقید میں جو کام کیا وہ قابل قد ر ہے۔ عنبرین حسیب عنبر نے فضا اعظمی پہ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت سنیئر شاعر ہیں۔ مقدار اور معیار کے لحاظ ان کا ادب میں بڑا مقام ہے۔ ان کی نظموں میں ایک فکری وحدت ملتی ہے۔ احمد شاہ نے کہا کہ آج اردو ادب میں جو مقام پاکستان کو حاصل ہے، اس میں سحر انصاری کو خصوصی کریڈٹ جاتا ہے اور ان سات اردو کانفرنسوں کا کارنامہ سحرانصاری کے سر جاتا ہے۔ اس کے بعد پروفیسر سحر انصاری کو پچاس ہزار روپے نقد اور لائف اچیومنٹ ایوارڈ احمد شاہ اور رضاعلی عابدی نے تفویض کیا۔ دوسرا لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ اور نقد پچاس ہزار روپے فضا اعظمی کو تفویض کیے گئے۔

٭ چھٹا اجلاس: تقریب اجرا، میر باقر علی: داستان گو

کانفرنس کے تیسرے دن چھٹے اجلاس میں عقیل عباس جعفری کی کتاب’’میر باقر علی داستان گو‘‘ کی تقریب اجراء ہوئی۔ عقیل عباس جعفری نے کتاب کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ میر باقر علی داستان گو کو یہ فن وراثت میں ملا تھا۔ بزم اور عزم کو اس انداز سے پیش کرتے تھے کہ آنکھوں کے سامنے پورا نقشہ آجاتا تھا۔ اجلاس میں ضیاء محی الدین سے تربیت پانے والے نوجوان فن کار فوادخان اور نذر الحسن نے نہایت ہی خوب صورت اور روایتی انداز میں داستان ’طلسم ہو شربا، داستانِ امیر حمزہ‘‘کا ایک حصہ پیش کرکے حاضرین سے بے پناہ داد وصول کی۔

٭ ساتواں اجلاس: کتابوں کی تقریب اجرا

کراچی (تیسرا دن ساتواں اجلاس) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقدہ ساتویں عالمی اردو کانفرنس میں کتابوں کی اجراء کا اجلاس منعقد کیا گیا جس میں ڈاکٹر اسلم فرخی، فراست رضوی، ڈاکٹر نجیب جمال اور کشور ناہید کی کتابوں کی رونمائی کی گئی۔ اس اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ڈاکٹر قاضی افضال نے کہا کہ یہ کتابیں پرانی یادوں اور کھوئے ہوئے لوگوں کو یاد کر نے کے لیے ہیں۔ کشور ناہید کی کتاب ’’نوٹ بک‘‘ کی اجراء کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے مبین مرزا نے کہا کہ کشور ناہید کی اس چھوٹی سی کتاب کی اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں لاہور کی ادبی زندگی اور پاکستان کی سیا سی زندگی کے بہت سے حوالے درج ہیں۔

ڈاکٹر اسلم فرخی کی کتاب ’’رونق بزم جہاں‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہو ئے پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ یہ اسلم فرخی کے خاکوں کی کتاب ہے۔ اسلم فرخی کا سب سے اہم کام ان کی کتاب دبستانِ نظام ہے جس میں انہوں نے حضرت نظام الدین اولیاء اور ان کے رفقاء کی زندگی کے مختلف ادوار کو چشم دید کی حیثیت سے بیان کیا ہے۔ فراست رضوی کی کتاب ’’درد کی قندیل‘‘ کی تقریب اجراء میں خطاب کرتے ہوئے لکھنٔو سے آئے ہوئے ڈاکٹر انیس اشفاق نے کہا کہ فراست رضوی نے اس کتاب میں بہت اچھی رباعیاں کہی ہیں اور انہوں نے رباعی کو روایتی انداز سے نکالا ہے۔

کتاب کے مصنف فراست رضوی نے کہا کہ درد کی قندیل میں جدید علوم کو شامل کر نے کی کوشش کی گئی ہے۔ ڈاکٹر نجیب جمال کی کتاب’’یگانہ،تحقیق و تنقیدی مطالعہ‘‘کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے زاہدہ حنا نے کہا کہ بعدازمرگ مشفق خواجہ اور نجیب جمال نے یگانہ کی زندگی کے وہ گوشے بھی دکھائے جن سے ہم نا واقف تھے۔ کتاب کے مصنف نجیب جمال نے کہا کہ میری خوش نصیبی ہے کہ اس کتاب کا پہلا تبصرہ انتظار حسین صاحب نے لکھا تھا۔

’’چوتھا دن‘‘

٭ پہلا اجلاس: اردو زبان اور نعتیہ ادب

چوتھے روز کے پہلے اجلاس ’’اردو زبان اور نعتیہ ادب‘‘ سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی نام ور علمی و ادبی شخصیت افتخار عارف نے کہا کہ متحدہ ہندوستان کی جتنی شاعری ہے تما م کی تمام مذہبی شاعری ہے۔ مغرب میں بھی شاعروں نے مذہبی عقائد کو موضوع بنایا ہے۔ اردو میں بے حد اچھی نعتیں لکھی گئی ہیں مگر جتنے مجموعے قیام پاکستان کے بعد لکھے گئے اس سے پہلے برصغیر میں نہیں لکھے گئے تھے۔

اس موقع پر پروفیسر سحر انصاری، صبیح الدین صبیح رحمانی، شوکت عابد، گوہر اعظمی اور ڈاکٹر عزیز احسن موجود تھے۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر ہما میر نے کی، جب کہ اجلاس کا آغازقاری حامد محمود قادری کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کے بعد راشد اعظم نے رسول اللہﷺ کے خدمت میں نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ آرٹس کونسل کے نائب صدر محمود احمد خان نے کہا کہ میں آج اس اجلاس میں تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔

پروفیسر سحر انصاری نے کہا اردو کانفرنس میں نعتیہ ادب کو شامل کر نا ایک خوش آئند عمل ہے۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ نعت گو شاعر صبیح رحمانی نے کہا کہ یہ تاریخی لمحہ ہے جب عالمی اردو کانفرنس میں نعتیہ ادب کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ گوہر اعظمی نے کہا کہ بر صغیر میں اردو ادب کے جتنے شعراء ہیں ان سب نے ادب میں نعتیہ کلام کو بھی شامل کیا ہے۔ شوکت عابد نے کہا کہ غزل کی طرح نعت میں بھی تسلسل کے ساتھ شاعری ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر عزیز احسن نے کہا کہ فیض اور اقبال نے بھی نعتیہ شاعری کی ہے۔

٭ دوسرا اجلاس: حالی و شبلی کا جشن صد سالہ

دوسرا اجلا حالی وشبلی کے جشن صد سالہ کے عنوان سے ہوا۔ ہندوستان سے آئے ہوئے علی گڑھ یونیورسٹی کے پروفیسر قاضی افضال حسین نے کہا کہ شبلی اگرچہ شاعری میں خیال بندی کے قائل نہ تھے لیکن ان کی شاعری میں بھی خیال بندی نظر آتی ہے۔ شبلی کا تصور تھا کہ شاعری کے ذریعے قوموں میں بیداری پیدا کی جا سکتی ہے۔ شبلی اردو ادب کے پہلے شخص ہیں جنہوں نے لفظ کی تعبیرات پر گفتگو کی۔

اس موقع پر انتظار حسین، افتخار عارف، فراست رضوی اور ڈاکٹر نعمان الحق نے بھی شبلی و حالی کی ادبی خدمات کو بے حد سراہا۔ افتخار عارف نے کہا کہ اردو ادب کی دنیا میں نہ تو حالی جیسا پیدا ہوا ہے اور نہ ہی شبلی جیسا۔ معروف مصنف وادیب ڈاکٹر نعمان الحق نے اپنے مقالے ’حالی سے تجدید ملاقات‘ میں کہا کہ حالی نے اگرچہ بہت اچھی غزل کہی ہے لیکن ان کی تنقید پر مسدس حاوی ہے۔ فراست رضوی نے اپنے مقالے ’شبلی اور مشرقی شعریات میں کہا کہ ان کی مشرقیت قابل تحسین ہے۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے جو اس اجلاس کی نظامت کر رہی تھیں نے کہا کہ شبلی اور حالی مجسم تاریخ ہیں۔

٭ تیسرا سیشن: اردو ڈراما روایت اور مسائل

کانفرنس کے چوتھے اور آخری روز کا تیسرا اجلاس اردو ڈراما، روایت اور مسائل کے موضوع پر ہوا۔ صدارت کمال احمد رضوی نے کی جبکہ دیگر مقررین میں اصغر ندیم سید، طلعت حسین، عطاالحق قاسمی، امجد اسلام امجد، حسینہ معین اور اقبال لطیف شامل تھے۔ نظامت زین احمد نے کی۔ کمال احمد رضوی نے صدارتی خطاب میں کہا کہ آج کے ڈرامے کے زوال کے بہت سے اسباب ہیں۔ طنز و مزاح میں اب وہ کشش، دل کشی اور بے ساختگی نہیں رہی یہ بہت بڑا المیہ ہے۔

حسینہ معین نے کہا کہ اسٹیج پر شروع میں بہت اچھے ڈرامے ہوئے تھے لیکن بدقسمتی سے اب ہم پیچھے کی طر ف جانا شروع ہوگئے ہیں۔ امجد اسلام امجد نے کہا کہ ہمارا ڈراما قدیم اور جدید روایت کا امتراج ہے۔ اصغر ندیم سید نے کہا کہ ڈرامے کے زوال کی ایک وجہ اس کا کمرشیل ہونا ہے۔ نورالہٰدی شاہ نے کہا کہ پاکستانی سوسائٹی تیزی سے زوال کی طرف جارہی ہے۔ عطاالحق قاسمی نے کہا کہ اب یہ عالم ہے کہ پروڈیوسر کو بتانا پڑتا ہے کہ یہ جملہ مزاحیہ اور یہ سنجیدہ ہے۔

٭ چوتھا اجلاس: ضیا محی الدین۔ منتخب اقتباسات

کانفرنس کے آخری روزپانچویں اجلاس میں ضیاء محی الدین نے میلہ لوٹ لیا۔ ضیاء محی الدین کو سننے کے لیے آرٹس کونسل میں ان کے سیکڑوں مداح موجود تھے۔ آرٹس کونسل کا آڈیٹوریم لوگوں سے کچھاکھچ بھر ا ہوا تھا جبکہ سبز ہ زار پر بھی لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ضیا ء محی الدین نے مختلف اقتباسات سنا کر حاضرین سے بے پناہ داد حاصل کی۔ ناپا کے ڈائریکٹر ارشد محمود نے کہا کہ ضیاء محی الدین سخن فہم ہیں۔ ان کے انداز اور آواز کی رینج بہت وسیع ہے۔ اس موقع پر استاد نفیس خاں ستار پر سنگت کررہے تھے۔

ابتدا میں ضیاء محی الدین نے محمد حسین آزاد کے فسانہ عجائب سے پڑھت کی ۔ دوسرا اقتباس میر باقر علی داستان گو کا تھا جب انہوں نے میرا جی کی نظم سمندر کا بلاوا پیش کی۔ انہوں نے آخر میں مشتاق احمد یوسفی کی شگفتہ تحریر کو دل چسپ پیرائے میں پیش کیا۔ آخر میں آرٹس کونسل کے صدر پروفیسر اعجاز احمد فاروقی نے ضیاء محی الدین کو پھولوں کا تحفہ پیش کیا۔ اس موقع پر نائب صدر محمود احمد خان، خازن ڈاکٹر ہمامیر، ڈاکٹر فوزیہ، ایوب شیخ، شہناز صدیقی، ڈاکٹر قیصر سجاد،اقبال لطیف ودیگربھی موجود تھے۔

٭ اختتامی اجلاس

کانفرنس کا اختتامی اجلاس اتوار کے روز منعقد ہوا، جس سے خطاب کرتے ہوئے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے سیکریٹری محمد احمد شاہ نے کہا کہ عالمی اردو کانفرنس کراچی کی روایت بن گئی ہے۔ ہم اس روایت کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے آرٹس کونسل کی سرگرمیوں کو کراچی شہر کا آئینہ بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی شہر کے باذوق دانشوروں اور پاکستان سمیت پورے عالم سے دانش وروں کی آمد نے ہمارے حوصلے بڑھائے ہیں۔

احمد شاہ نے بتایا کہ 29 نومبر کو ہم ایکسی لینسی ایوارڈ کی تقریب کا انعقاد کریں گے۔ اختتامی اجلاس کی صدارت انتظار حسین نے کی دیگر شرکاء میں پروفیسر سحرانصاری، اسد محمد خان، افتخار عارف، رضاعلی عابدی، مسعود اشعر، امینہ سید، نورالہٰدی شاہ، ڈاکٹرانیس اشفاق، حسینہ معین، اعجاز فاروقی، محمود احمد خان، شہناز احمد صدیقی، فرہاد زیدی، امجد اسلام امجد، ڈاکٹر ہما میر شامل تھیں۔ ڈاکٹر انیس اشفاق نے کہا کہ اس آرٹس کونسل کی چار دیواروں میں ایک جن ہے وہ جن احمد شاہ ہیں، جو قوت عمل اور انتظامی صلاحیت ان میں دیکھی وہ کسی جن ہی میں ہوسکتی ہے۔

یوں ساتویں عالمی کانفرنس اختتام کو پہنچی۔

قراردادیں

٭اردو کا دیگر قومی زبانوں سے کوئی اختلاف نہیں، اس لئے ان کے باہمی روابط کے فروغ کو ترجیحی بنیادوں پراہمیت دی جائے۔ اس کے لیے ساری پاکستانی زبانوں میں بچوں کو پرائمری تعلیم کی سہولت فراہم کی جائے۔

٭وطن عزیز کے بہت سے نوجوان کسی Foreign Language میں مہارت نہ ہونے کی وجہ سے ترقی کے موقع حاصل نہیں کر سکتے۔ اس امتیاز کو ختم کیا جائے۔ اور انہیں اپنے جوہر کے اظہار اور ترقی کا موقع فراہم کیا جائے۔

٭جو ادارے قومی اور صوبائی سطح پر اردو زبان و ادب کی ترویج کے لیے بنائے گئے ہیں، ان میں سے کئی ادارے ایک عرصے سے سربراہ کے بغیر ہیں۔ ان اداروں میں اہل اور متحرک سربراہان کو فوری طور پر متعین کیا جا ئے۔

٭ شہر کی ایک بڑی شاہراہ یونیورسٹی روڈ کا نام بدل کر شارع اردو کیا جائے۔

٭اردو اور دوسری قو می زبانوں کے ما بین روا بط کے فروغ اور استحکام کے لیے صوبا ئی سطح پر ادیبوں اور فن کاروں کے وفود کے دورے کرائے جائیں اور ان کی کتابوں کے تراجم کا اہتمام کرایا جائے۔

٭ وفاق اور صوبوں کی سطح پر دارالترجمہ قائم کیے جائیں۔

٭ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان امن کے رشتے کی بحالی کا آغاز کتا بوں کی ترسیل کو بہتر بنانے کے عمل سے کیا جا ئے۔ اس کے لیے سب سے پہلے ڈاک خر چ کو کم کیا جا ئے۔

٭پاکستان اور ہندوستان کے مابین ادیبوں، فن کاروں، تاجروں اور صنعت کاروں کے لیے ویزے کی فراہمی میں آسانی پیدا کی جائے اور انھیں پولیس رپورٹنگ سے مستشنیٰ ویزا دیا جائے۔

٭نوجوانوں کو اپنی تہذیبی اور ثقافتی اقدار اور مظاہر سے روشناس کرا نے کے لیے حکو متی سطح پر خصوصی اقدامات کیے جائیں۔

مشاعرہ

کانفرنس کے موقع پر مشاعرے کا بھی اہتمام کیا گیا، جس کے مہمان خصوصی نیشنل بینک آف پاکستان کے صدر منیر کمال تھے۔ صدارت معروف شاعر رساء چغتائی نے کی۔ اس موقع پر دنیا بھر سے آئے ہوئے معروف شعراء￿ کرام نے اپنا کلام پیش کیا۔

ان میں ہندوستان سے آئے ہوئے خوشبیر سنگھ شاد، رنجیت سنگھ چوہان، عبید صدیقی، انیس اشفاق، امیر امام، ابھیشیک شکلا، ایران سے افتخار عارف، کینیڈا سے اشفاق حسین، امریکا سے عشرت آفریں، برطانیہ سے نجمہ عثمان سے جب کہ پاکستان بھر سے کشور ناہید، پروفیسر سحر انصاری، عطاالحق قاسمی، پیرزادہ قاسم، انور شعور، فہمیدہ ریاض، امجد اسلام امجد، سرمد صہبائی، امداد حسینی، صابر طفر، شاہدہ حسن، حارث خلیق، نذیر تبسم، احمد فواد، ڈاکٹر ضیاء الحسن، علی کمیل قزلباش، عباس تابش، صغرا صدف، لیاقت علی عاصم، اجمل سراج، قمر رضا شہزاد، شکیل جاذب، اقبال پیرزادہ، راشدہ ماہین ملک، حجاب عباسی اور گلفام نقوی شامل تھے۔ نظامت عنبرین حسیب عنبر نے کی۔ مشاعرہ رات گئے جاری رہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔