کولمبیا میں مَردوں کے رات کو گھر سے باہر نکلنے پر پابندی

ع۔ر  منگل 21 اکتوبر 2014
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کولمبین حکومت نے مردوں کے باہر نکلنے پر پابندی عائد کرنے کا آئیڈیا سندھ حکومت سے لیا ہو۔ فوٹو: فائل

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کولمبین حکومت نے مردوں کے باہر نکلنے پر پابندی عائد کرنے کا آئیڈیا سندھ حکومت سے لیا ہو۔ فوٹو: فائل

جمہوریہ کولمبیا براعظم جنوبی امریکا کے شمال مغرب میں واقع ایک ملک ہے۔ اس کی سرحدیں پناما، وینزویلا، برازیل، ایکواڈور اور پیرو سے ملتی ہیں۔

براعظم ایشیا میں بیشتر لوگ کولمبیا کو عالمی شہرت یافتہ پاپ سنگر شکیرا کے وطن کے حوالے سے جانتے ہیں۔ کولمبیا میں خواتین کے خلاف جرائم بڑھتے جارہے ہیں۔ مردوں کی جانب سے خواتین پر بڑھتے ہوئے مجرمانہ حملوں کا تدارک کرنے میں پولیس ناکام ہوگئی ہے۔ لہٰذا حکومت رات کے اوقات میں، ملک بھر میں مَردوں کے باہر نکالنے پر پابندی عائد کرنے پر غور کررہی ہے۔ اس سلسلے میں آزمائشی طور پر بُکارا مانگا میں مردوں پر پابندی کا اطلاق کردیا گیا ہے۔ بُکارامانگا کولمبیا کا پانچواں بڑا شہر ہے جس کی آبادی ساڑھے پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔

بکارامانگا میں عورتوں پر مجرمانہ حملوں اور ان کے خلاف ہونے والے دیگر جرائم کی شرح دوسرے شہروں سے زیادہ ہے۔ اسی لیے اس شہر کے مردوں کو رات میں گھروں کے اندر رہنے کا پابند کیا گیا ہے۔

’مَردوں پر کرفیو‘ لگانے کا تصور نیا نہیں ہے۔ 1970ء کے عشرے میں اسرائیل میں بھی عورتوں کے خلاف جرائم کی صورت حال سنگین ہوگئی تھی۔ اسرائیلی حکومت نے بھی یہی اقدام اٹھایا تھا۔ یہ دوسری بات ہے کہ پابندی کے باوجود صورت حال میں بہتری نہیں آسکی تھی اور خواتین اسی طرح جرائم کا نشانہ بنتی رہی تھیں۔

بکارامانگا میں اندھیرا پھیل جانے کے بعد مردوں کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی کے منصوبے کو خواتین کی حمایت کرنے والے حلقوں میں پذیرائی ملی ہے۔ منصوبے کے حامیوں میں بکارامانگا چیمبر آف کامرس کے صدر جوآن کامیلو بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین مردوں سے زیادہ پُرامن ہوتی ہیں اور تقاریب کے دوران بھی بہترین رویے کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ میرے خیال میں رات کو مردوں کے باہر نکلنے پر پابندی عورتوں کے خلاف جرائم محدود کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔

پابندی کے نفاذ کے سلسلے میں مردوں کو یہ رعایت ضروری دی گئی ہے کہ ہنگامی صورت حال پیش آنے پر وہ باہر نکل سکتے ہیں مگر اس کے لیے ان کے پاس میئر کے دفتر سے جاری کردہ اجازت نامہ ہونا چاہیے، جس میں یہ وضاحت درج ہو کہ وہ کرفیو کے دوران باہر کیوں نکل رہے ہیں۔ اس تجربے کے نتائج کے بعد پابندی کا دائرہ دیگر شہروں تک وسیع کرنے پر غور کیا جائے گا۔

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کولمبین حکومت نے مردوں کے باہر نکلنے پر پابندی عائد کرنے کا آئیڈیا سندھ حکومت سے لیا ہو۔ جو ٹارگٹ کلنگ میں اضافے کو بنیاد بناتے ہوئے موٹرسائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد کرتی رہتی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ قتل و غارت گری کا سلسلہ پھر بھی جاری رہتا ہے، البتہ اس پابندی کی وجہ سے عوام ضرور مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کچھ یہی حال ان دنوں بکارامانگا کے مردوں کا ہے جو رات کے کرفیو کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پولیس اور حکومت نے اپنی نااہلی چھپانے کے لیے انھیں مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ یہ کسی طرح بھی جائز نہیں کہ عورتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کی سزا انھیں دی جائے۔ اگر جرائم بڑھ رہے ہیں تو پولیس مجرمان کو پکڑے، اس کے لیے تمام مردوں کو موردالزام ٹھہرانا اور ان کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی عائد کرنا کہاں کا انصاف ہے۔

اوّل تو مردوں کے رات کو باہر نکلنے پر پابندی ہی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اگر باہر نکلنا پڑجائے تو پہلے میئر کے دفتر سے اجازت نامہ حاصل کیا جائے۔ بکارا مانگا کے مردوں کے علاوہ خواتین نے بھی مقامی حکومت سے سوال کیا ہے کہ اگر بیوی کی طبیعت خراب ہوجانے پر شوہر کو اسے فوری طور پر اسپتال لے جانا ہو تو کیا وہ پہلے میئر کے دفتر جاکر اجازت نامہ وصول کرے گا؟ پھر یہ کہ دفتر تو دن کے اوقات میں کُھلتا ہے تو کیا وہ صبح ہونے کا انتظار کرتا رہے گا چاہے اس دوران اس کی بیوی دنیا سے گزرجائے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔