نجیب جمال کی یگانہ کتاب

زاہدہ حنا  منگل 21 اکتوبر 2014
zahedahina@gmail.com

[email protected]

اب سے 130برس پہلے پیدا ہو نے والے مزاج کے نوکیلے’ نخر یلے‘ ہٹیلے اور نرگسی مزاج رکھنے والے میرزا یاس یگانہ چنگیزی ، 72برس جیے۔ ان 72برسوں میں زمانہ ان پر کیسے کیسے ستم توڑتا ہوا گزرا ، لیکن سچ پوچھیے تو اس ستم بلکہ سب و شتم کی کچھ ذمے داری خود یگانہ کی بھی تھی ۔ خوش نصیب ایسے کہ زندگی میں انھیں مالک رام اور دوارکا داس شعلہ جیسے ہم دم و دم ساز ملے تو یہ بھی کمال ہے کہ بعد ازم مرگ مشفق خواجہ اور نجیب جمال نے انھیں پھر سے جلا دیا ۔

نجیب جمال سے پہلی ملاقات اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں ہوئی اور وہیں انھوں نے اپنی کتاب ’یگانہ: تحقیقی اور تنقیدی جائزہ ‘ عنایت کی تھی اسے پڑھ کر یگانہ کے نصیبوں پر رشک آیا کہ انھیں نجیب جمال جیسا باکمال اور تہذیب یافتہ محقق میسر آیا جس نے ان کی شخصیت اور شاعری کی گہرائی میں جاکر ان کی ذات کی گرہیں ضرور کھولیں لیکن انھیں تماشہ نہیں بنایا ۔ نجیب نے ایک ایسے شاعر سے ہماری شناسائی کرائی جو تنازعات اور اختلافات کے بار گراں سے 60کی دہائی سے پس منظر میں چلا گیا تھا۔

نجیب جمال نے یگانہ کے مغل بچے ہونے کا بطورخاص ذکر کیا ہے اور کیسے نہ کرتے کہ حسب نسب پر یگانہ کی اتراہٹ ان کی زندگی پر بے حد وحساب اثر انداز ہوئی ۔ وہ لال قلعے پر مغلوں کا پرچم سرنگوں ہونے کے 27 برس بعد پیدا ہو ئے ۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان کے افق پر مغل تہذیب کی شفق بھی باقی نہیں رہی تھی اور رات نے اپنی چھاؤنی چھائی تھی ۔ ایسے میں ایک طرف ماضی کے سنہرے گل بوٹوں کے تذکرے تھے جو انھیں لبھاتے تھے اور دوسری طرف یہ حقیقت تھی کہ انھیں کسب معاش کے لیے کلکتہ ، لاہور ، حیدر آباد اور لکھنؤ کا رخ کر نا پڑا ۔ ان شہروں میں وہ جس ابتلا سے گزرے اور جو ناکا میاں انھیں ہوئیں انھوں نے ان کے مزاج میں اس تلخی کو جنم دیا جو آگے چل کر ان کے لیے زہر ہلاہل ثابت ہوئی ۔

یگانہ کی زندگی کے اس پہلوکا خال خال ذکر ہوتا ہے کہ وہ ایک بڑے شاعر ہونے کے ساتھ ہی اپنے زمانے کی سیاست سے بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے ۔ان کی بیٹی کے کہنے کے مطابق وہ بلا ناغہ انگریزی اخبار ’’ڈیلی نیوز ‘‘ پڑھتے اور سیاسی اور سماجی موضوعات پر قلم اٹھاتے ۔ وہ مسلمانوں کی جذباتی سیاست سے بیزار تھے اور اسے ’’بیداری موہوم ‘‘کا نام دیتے تھے ۔اسی طرف اشارہ کرتے ہو ئے نجیب نے ہمیں یاد دلا یا ہے کہ ’’یگانہ نے پہلی جنگ عظیم ،تحریک خلافت ، ترک موالات سیاسی ہنگامے ، جیل ، پھانسیاں ، گولیاں ‘‘ آزادی کے نعرے سب ہی سنے اور دیکھے لیکن حالات سے باخبر ہو نے کے باوجود انھوں نے سیاست کے رخ کو غیر متعین سمجھتے ہو ئے ، ان معاملات کو براہ راست اپنی شاعری میں کبھی موضوع نہیں بنا یا ۔ ‘‘

ہمیں نجیب کا شکر گزار ہو نا چاہیے کہ انھوں نے یگانہ کی زندگی کے وہ گوشے ہمیں دکھا دیے جن کا ہم نے کبھی ذکر بھی نہیں سنا تھا ۔ مثال کے طور پر وہ راجہ رام موہن رائے کی اس تحریک کا ذکرکرتے ہیں جو انھوں نے ستی کی رسم کو منسوخ کرنے کے لیے چلائی تھی اور اس کے بعد لارڈ بنٹنک نے اسے قانوناً ممنوع قرار دیا تھا ۔ یہ یگانہ کی پیدائش سے دہائیوں پہلے کی بات تھی لیکن ممنوع قرار دیے جانے کے باوجود ستی کی یہ رسم ختم نہ ہوسکی تھی ۔یگانہ اس رسم کے شدید مخالف تھے اسی لیے انھوں نے اس کے خلاف ایک مضمون ’’ رسم و رواج کا اثر ‘‘ لکھا ۔ لکھنو والوں سے ان کی کٹا چھنی اور پھر اس شہرمیں یگانہ کے ساتھ جو کچھ ہوا ، اس سے ہم خوب آگاہ ہیں لیکن یہ بات ہم میں سے اکثر نہیں جانتے کہ تنگ دستی نے انھیں اپنی نادر اور قیمتی کتابیں فروخت کرنے پر مجبور کیا ۔ اسی طرح نجیب ہمیں 1916۔1918اور 1922کے ان مضامین سے روشناس کراتے ہیں ۔ جن میں ہم اس یگانہ سے ملتے ہیں جو اپنشد ، گلستان سعدی اور نکات عروضی کے بارے میں ہمیں نئے رموز تعلیم کرتا ہے ۔

نجیب نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ’’ یگانہ کو تہذیب کی ہی نہیں شعر و ادب کی بھی انحطا ط پذیر روایت ملی تھی ۔ پہلی جنگ عظیم یعنی پانچ برس تک دنیا جنگ کا ایندھن بنی رہی اور دوسری جنگ عظیم کے 6برسوں نے آدھی دنیا کا حسن غارت کر دیا اور باقی آدھی دنیا اقتصادی طور پر پامال ہوگئی ہندوستان اس صورتحال سے بے حد متاثر ہوا ۔ ان حالات میں یگانہ ایک نئی آواز اور نیا لہجہ لے کر سامنے آئے ۔ یہ وہ نئی آواز تھی جس نے شاعری میں بناوٹ کے اصولوں کو برتنے کے بجائے زندگی کے مسائل کو موضوع بنا یا ۔ ان اشعار میں رجائیت اُمید اور حوصلے کا ایسا پہلو ملتا ہے جو ڈر کی چادر میں لپٹے ہوئے فرد کو یقین کا چہرہ دکھاتا ہے ۔

یگا نہ کی شخصیت اور تخلیقی بنت کا جائزہ لیتے ہو ئے نجیب کو سقراط کی یاد آتی ہے جو خود کو بڑ مکھی کہتا تھا ۔ اس کا خیال تھا کہ ہر سماج میں لازمی طور پر بڑ مکھی ہونی چاہیے جو لوگوں کو مسلسل کاٹتی رہے اور انھیں اپنی کمزوریوں اورکوتاہیوں کا احساس دلاکر انھیں اپنے گریبان میں جھا نکنے اور اپنے بارے میں غور وفکر پر مجبور کرے ۔نجیب نے یگانہ کو بڑمکھی سے تشبیہ دی ہے۔ وہ نرگسیت کا شکار تھے ۔ انھوں نے آخر تک اپنی انا کی پرورش کی اور بزغم خود ان کا ذاتی جوہر چمکتا گیا ۔ خود ستا ئشی کا یہی وہ احساس ہے ، جس کی بہتات کبھی کبھی تاریک راہوں میں مارے جانے کا سبب بنتی ہے ۔

معرکہ آرائی یگانہ کے مزاج کا بنیادی جزو تھی ، اسی مزاج  نے انھیں ’’غالب شکن ‘‘ بنا دیا ۔ غالب کے حوالے سے انھوں نے جتنے سخت حملے غالب کی شاعری پر کیے اس نے کئی سنجیدہ ادیبوں اور نقادوں کو ان کی طرف سے متنفرکردیا ۔ نجیب ان کی نر گسیت اورانا پرستی کی پرتیں کھولنے سے گریز کرتے ہیں  ۔ اس کے بجائے وہ کہتے ہیں کہ ان کی شخصیت کا مطالعہ ان کے لب و لہجے میں موجود ’’ جرات گفتار اور ہمت کردار ‘‘ سے ہو نا چاہیے  ۔ وہ بڑی سے بڑی بات بر ملا کہنے میں ذرا بھی جھجک محسوس نہیں کرتے تھے ۔ شاید اسی لیے انھوں نے ہمیشہ خسارے کا سودا کیا اور اختلاف رائے کے جرم میں یگانہ اپنی زندگی میں کئی بار قتل کیے گئے ۔

انھوں نے خوب لکھا ہے کہ یگانہ کی شخصیت کا مطالعہ در اصل ایک مضطرب اور بے چین روح کا مطالعہ ہے ۔ ان کی زندگی میں اگر طما نیت اور فراخی کا صرف ایک لمحہ تلا ش کیا جائے تو مایوسی ہوتی ہے ۔ سکون کا یہ لمحہ ہمیں واقعی 500صفحے کی اس کتاب میں نظر نہیں آتا لیکن یہ بھی ہے کہ شاید اسی اضطراب نے یگانہ کو ایک بڑا اور اہم شاعر بنا دیا ۔ وہ یقیناً اپنے زمانے سے بہت پہلے پیدا ہو ئے تھے ۔ ایسے لوگوں کو زمانے کے ستم سہنے ہی پڑتے ہیں ۔ یگانہ کہاں کے یکتا تھے کہ زمانہ ان کے ساتھ مہربانی کرتا ۔

ادبی محاذ پر چومکھی لڑنے والے یگانہ اپنے گھر والوں کے لیے ریشم کی طرح نرم تھے ۔ اس کا اندازہ ان کی بڑی بیٹی بلند اقبال کے نام ان کے خط سے ہوتا ہے ’’میری بچی ! تیرا بابا کیسی مجبوری میں تم لوگوں کو اس حال میں چھوڑ کر نکلا ہے اور حال یہ ہے کہ دل کو قرار نہیں۔ ایک لمحے کے لیے بھی یہاں کی گہماگہمی ، آؤ بھگت ، خاطر تواضع کچھ اچھا نہیں لگتا ہے ۔ ایک نواب صاحب نے آج میری بڑی پرتکلف دعوت کی تھی جس میں اور بھی بہت سے معززین شہر بلا ئے گئے تھے ۔ انواع اقسام کی نعمتیں دستر خوان پر سجائی جارہی تھیں ۔ کچھ دیر میں وہاں کے انتظامات دیکھتا رہا اس کے بعد لوگوں کی نظریں بچا کر چپکے سے نکل آیا ۔ اس احساس نے مجھے وہاں ٹکنے نہ دیا کہ میرے بچوں پر نہ معلوم کیا عالم گزر رہا ہوگا اور میں یہاں ایسی دعوتوں سے لطف اندوز ہوں یہ مجھ سے نہ ہوگا۔وہاں مجھے ہر طرف تلاش کیا جارہا ہوگا ۔میں جن صاحب کے یہاں مہمان ہوں ان کے کمرے میں بند تم کو خط لکھ کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کررہا ہوں ۔ دُعا کرو یہ آزمائش کے دن جلد ختم ہوں ہم لوگوں کے ‘‘ ۔

نجیب جمال کی زندگی کتابوں کے درمیان بسر ہوئی۔ انھوں نے تعلیم و تدریس کا شعبہ اختیار کیا اور یہی وابستگی انھیں قاہرہ کی جامعہ ازہرتک لی گئی ۔ وہ ان دنوں اسلامیہ یونیورسٹی بھاول پور میں ڈین فیکلٹی آف آرٹس ہیں ۔ شگفتہ مزاج اور شیریں بیان ۔ میں نے انھیں ان کے طالب علموں کے جھرمٹ میں دیکھا اور رشک کیا ۔ نجیب ایسے استاد نصیب والوں کو ملتے ہیں ۔ انھوں نے جس شیفتگی اور شائستگی سے یگانہ کی زندگی اور شاعری پر تحقیق کی ہے ، اس کے لیے انھیں یقینا بہت داد ملنی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔