میاں نواز شریف کی مشکل

نصرت جاوید  منگل 21 اکتوبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

غالب خوش نصیب تھے۔ انھیں لکھنے کو مضامین غیب سے آجایا کرتے تھے۔ وگرنہ وہ صرف اپنی آنکھوں کے سامنے نظر آنے والی چیزوں پر ہی غور کرنے تک محدود رہتے توبے حد پریشان ہوجاتے۔ زلفیں سنوارتے محبوب کو دیکھ کر شاعر شاداں ہوجایا کرتے ہیں۔ غالب مگر اسی محبوب کو آرائش خمِ کاکل میں مصروف ہوا دیکھتے تو اندیشہ ہائے دور ودراز میں مبتلا ہوجاتے۔

چند دنوں سے میں بھی خود کو ایسے ہی اندیشوں میں گھرا ہوا محسوس کررہا ہوں۔ ریموٹ کا بٹن دباتا ہوں تو ٹی وی اسکرین پر منیر نیازی والی ’’حرکت تیز‘‘ نظر آتی ہے اور بے تحاشا شوروغوغا بھی۔ دو مہینوں سے زیادہ پھیلے دھرنوں کے بعد اب شہر شہر جلسے ہورہے ہیں۔ ان جلسوں میں نوجوان ہیں۔ عورتیں ہیں اور وہاں موجود سارے کے سارے شرکاء بہت پُرجوش بھی نظر آتے ہیں۔ ایسے جلسوں کے باقاعدہ آغاز کے قریب سوشل میڈیا پر کسی جلسے کے حامیوں اور مخالفین میں شدید جنگ شروع ہوجاتی ہے۔

’’کتنے لوگ تھے؟‘‘ والی لاحاصل بحث اور جلسے کے اختتام کے بعد ایسے Visualsکی تلاش جو کسی نہ کسی طرح اسے جلسوں سے وابستہ لوگوں کو شرمسار کرسکے۔ جلسوں کے اس مقابلے میں اب پیپلز پارٹی کے نوجوان رہنما بلاول بھٹو زرداری بھی کود پڑے ہیں۔ کئی لوگوں نے مجھے فون کیے اور ای میلز پیغامات بھیجے کہ میں کراچی میں ہوئے جلسے پر اپنی رائے کا اظہار کروں۔ میں نے ’’ہم چپ رہے ہم ہنس دیے‘‘ والا رویہ اپنانے ہی میں اپنی عافیت محسوس کی۔

ایک صحافی کے طورپر میرے لیے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی End Gameکیا ہے۔ ’’قبل از وقت انتخابات‘‘ اس سوال کا فطری اور سیدھا جواب ہے، اس جواب کے بعد مگر یاد رکھنا پڑتا ہے کہ قبل از وقت انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ نواز شریف بھی اس پر آمادہ ہوجائیں۔ میرا نہیں خیال کہ وہ محض جلسوں کے نہ رکنے والے سلسلے،چاہے ان میں حاضرین کی تعداد کتنی ہی ’’تاریخی‘‘ کیوں نہ ہوں، کی وجہ سے خود کو اس سلسلے میں مجبور پائیں گے۔ انھیں مجبور کرنے کے لیے تحریک انصاف کے اراکین کو قومی اسمبلی سے دیے اپنے استعفوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔ ان استعفوں کی منظوری بھی مگر پہلا قدم ہوگا۔

قبل از وقت انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے استعفوں کے بعد 1977ء کی طرح کوئی بھرپور احتجاجی تحریک چلانا ہوگی۔ اس تحریک کو اگر نواز حکومت قابو میں نہ لا سکی تو اپنے ہاتھ کھڑے کردے گی۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ یہ سوال X-Factor کے زمرے میں آتا ہے جو میرے جیسے لوگوں کے اذہان کو اندیشہ ہائے دور ودراز میں مبتلا کردیتا ہے۔ یہ اندیشے اس وقت شدید تر ہوجاتے ہیں جب ڈاکٹر طاہر القادری ’’قومی حکومت‘‘ کے مطالبے کے ذریعے 1977کے بعد والے مہینوں میں اٹھایا گیا ’’انتخاب سے پہلے احتساب‘‘ والا نعرہ بلند کرتے ہوئے بھی سنائی دیتے ہیں۔

عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری اپنے کلیدی ہدف یعنی نواز حکومت کی قبل از وقت رخصتی کے بعد نئے انتخابات کے حصول میں بالآخر کامیاب ہوں گے یا نہیں۔ اس سوال کا اعتماد کے ساتھ فی الحال میں تو کوئی جواب فراہم نہیں کرسکتا۔ ان دونوں حضرات کی اب تک سب سے بڑی کامیابی مگر یہ بھی ہے کہ انھوں نے نواز حکومت کو مفلوج ہوا ضرور دکھادیا ہے۔ اپنے گزشتہ دو ادوار میں نواز شریف صاحب یہ تاثر پھیلانے میں یقیناً کامیاب رہے کہ وہ ملک کے لیے اقتصادی ترقی کا ایک خاص ہدف طے کیے ہوئے ہیں۔ میرے جیسے لوگوں کو ان کا اقتصادی ماڈل صرف بزنس فرینڈلی نظر آیا کرتا تھا۔ لاہوراسلام آباد موٹروے جیسے منصوبے بھی مجھے پاکستان جیسے غریب ملک میں ’’تاج محل‘‘ بنانے کی کوشش نظر آیا کرتے تھے۔

حقائق مگر یہ بھی ہیں نواز شریف نے اپنی ان پالیسیوں کی وجہ سے اپنے ووٹ بینک میں بدستور اضافہ کیا۔ ان کی وجہ سے وہ ’’جنرل ضیاء اور ان کی باقیات‘‘ کی سرپرستی سے آزاد ہوئے اور بالآخر اس قابل بھی کہ IJIجیسے اتحادوں کی زنجیروں سے آزاد ہوکر انھوں نے پاکستان مسلم لیگ نون کو قومی اسمبلی میں اپنے تئیں اکثریتی جماعت کی حیثیت میں مضبوط اور مستحکم دِکھنے والی حکومتیں قائم کرنے کے قابل بنایا۔ ان کے دونوں ادوار اور خاص طورپر 1997 کے بعد سے بظاہر ’’مضبوط ومستحکم‘‘ دِکھنے والی حکومتوں کو مگر ثبات نصیب نہ ہوسکا۔ 2013کے بعد بہت سارے لوگوں کو یقین تھا کہ اب کی بار ان کی حکومت کو یہ ثبات مل جائے گا۔

آصف علی زرداری نے بے ثباتی کے مسلسل ماحول میں کسی نہ کسی طرح ایوانِ اقتدار میں پانچ سال مکمل کر ہی لیے تھے۔ میرے جیسے لوگوں کو گمان تھا کہ نواز شریف اپنے تجربے کی بنیاد پر ان سے کہیں زیادہ ٹھوس بنیادوں پر اپنی ثباتی کا تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یہ مگر ہو نہیں سکا۔ وجوہات اس بے ثباتی کی بعینہ وہی ہیں جو ان کے گزشتہ ادوارمیں نمایاں رہیں۔ میڈیا ہمارا بہت مستعد اور ضرورت سے زیادہ آزاد بھی ہوچکا ہے مگر ان وجوہات کو ٹھوس حوالوں کے ساتھ بیان کرنے سے قاصر۔

نواز شریف کے گزشتہ ادوار کی بے ثباتی سے جڑی وجوہات کے ساتھ ہی ساتھ اب کی بار ایک اور پہلو بھی ابھر کر سامنے آیا ہے جسے کماحقہ توجہ نہیں مل پارہی۔ آصف علی زرداری کی طرح شہباز شریف صاحب نے بھی 2008 سے 2013تک اپنی آئینی مدت پوری کی تھی۔ مرکزی حکومت کے مقابلے میں ان دنوں وہ ہمیشہ گڈگورننس کی ایک بھرپور علامت نظر آئے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن نے مگر ان کی اس ساکھ کو شدید دھچکہ لگایا۔ بتدریج کئی ذہنوں میں بلکہ یہ سوالات آنا شروع ہوگئے کہ محض ’’محنتی اور ایماندار‘‘ سرکاری افسروں پر منحصر گورننس کا ’’شہباز شریف ماڈل‘‘ سیاسی بحرانوں سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت سے یکسر محروم کیوں نظر آتا ہے۔

ایک ذہین اور متحرک انسان کی شہرت رکھتے ہوئے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو اپنی گورننس کے اس ماڈل پر پوری جانفشانی سے غور کرنے کے بعد واضح انداز میں Course Correction کی طرف بڑھنا چاہیے تھا۔ وہ ایسا کرنے میں قطعی ناکام رہے اور ’’بے ثباتی‘‘ کا تاثر مزید شدت اختیار کرتا چلا گیا۔ ایم کیو ایم نے سندھ حکومت سے الگ ہوکر اس تاثر کو شدید تر بنادیا ہے۔ بلاول بھٹو کے کراچی والے جلسے اور اس کے فوری بعد ایم کیو ایم کی سندھ حکومت سے علیحدگی نے تاثر بلکہ یہ دیا ہے کہ قبل از وقت انتخابات قریب آرہے ہیں۔ اس لیے سندھ کی یہ دوطاقتور جماعتیں خود کو اپنی اپنی Core Constituency کے ساتھ شدت اور توانائی کے ساتھ جڑنے پر مجبور محسوس کررہی ہیں۔ نواز شریف اور ان کے ساتھی محض اپنے ’’مینڈیٹ‘‘ پر زور دیتے ہوئے بے ثباتی کے اس تاثر کا مداوا نہیں کرسکتے۔ انھیں بہت جلد کوئی نیا بیانیہ ہمارے سامنے رکھنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔