- فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
- کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
سوشل گیمنگ انڈسٹری
کمپیوٹر سائنس اور انٹرنیٹ کی دنیا میں آن لائن گیمز کا شعبہ تیزی سے ترقی کررہا ہے۔
ذہنی آزمائش کے ساتھ تفریح کا سامان کرتے یہ گیمز اپنی خالق کمپنی کے لیے انتہائی منافع بخش ثابت ہورہے ہیں۔ ان کے لیے ’’ورچوئل انڈسٹری‘‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2010 میں اس صنعت کا حجم 3.65 ارب ڈالر تھا، جو رواں برس کے اختتام تک 12 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ صنعت کتنی تیزی سے ترقی کی منازل طے کررہی ہے۔ انٹرنیٹ پر کھیلے جانے والے گیمز میں بیک وقت دو یا اس سے زائد افراد بھی حصہ لے سکتے ہیں اور اسی خصوصیت کی بنا پر اسے سوشل گیمنگ بھی کہا جاتا ہے۔
سوشل نیٹ ورکنگ کی ابتدا ہوئی تو چند ویب سائٹس نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی اور ان کے ذریعے صارفین ایک دوسرے سے رابطے میں رہنے لگے۔ ان ویب سائٹس کے ذریعے انٹرنیٹ کا صارف چیٹنگ اور ای میل جیسی سہولت کے ساتھ دیگر سرگرمیاں انجام دینے لگا اور پھر انہی کے ذریعے سوشل گیمنگ بھی پروان چڑھی۔
سماجی رابطے کی مقبول ویب سائٹس میں فیس بک، مائی اسپیس، ٹویٹر کے علاوہ کئی اور ویب سائٹس کے صارفین کی تعداد کروڑوں تک پہنچ چکی ہے اور انہی کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے سوشل گیمنگ ویب سائٹس کا سلسلہ شروع کیا گیا، جس کے نتیجے میں پلے فش جیسی کئی ویب سائٹس وجود میں آئیں۔
ان ویب سائٹس پر یوزر رجسٹرڈ ہو کر اپنے پسندیدہ گیمز کھیل سکتا ہے، لیکن اس کے لیے اسے معمولی ادائی کے عوض گیم سے متعلق مختلف ’’ورچوئل پروڈکٹس‘‘ خریدنی ہوتی ہیں۔ سوشل گیمنگ ویب سائٹس پر ہر گیم کے لیے مختلف قیمتوں کی ورچوئل پروڈکٹس موجود ہوتی ہیں۔ ورچوئل پروڈکٹس کی فروخت ہی دراصل ویب سائٹ کی آمدنی کا سب سے اہم ذریعہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف کمپنیوں کی پروڈکٹس کی تشہیر سے بھی آمدنی ہوتی ہے۔
گیمز کی یہ ویب سائٹس اتنی تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں کہ ان کی خالق کمپنیاں کروڑوں ڈالر کی مالک بن چکی ہیں۔ Zynga، MegaZebra، Wooga، 5 Minutes اور Playfish چند مقبول ترین آن لائن گیمنگ ویب سائٹس ہیں۔ مذکورہ بالا ویب سائٹس نے دل چسپ اور ایسے گیمز متعارف کروائے، جن میں بیک وقت کئی کھلاڑی حصہ لے سکتے ہیں اور اسی خصوصیت نے آن لائن صارفین کو اس جانب متوجہ کیا۔
یہ کھیل مختصر عرصے ہی میں بے حد مقبول ہوگئے اور اسی مناسبت سے ورچوئل انڈسٹری کا حجم بھی وسیع ہورہا ہے۔ آن لائن گیمز کا صارف اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں کے ساتھ مل کر اپنے پسندیدہ گیمز کھیل سکتا ہے اور اپنے لیے ورچوئل پروڈکٹس کے ساتھ ساتھ احباب کے لیے ’’ورچوئل تحفے‘‘ بھی خرید سکتا ہے۔ کسی گیم میں شامل تمام کھلاڑی ایک دوسرے کی خریدی گئی ورچوئل پروڈکٹس دیکھ بھی سکتے ہیں۔
ورچوئل انڈسٹری میں منافع کی شرح عام کاروباری دنیا کے مقابلے میں اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اس میں نہ تو رسد میں کمی کا کوئی مسئلہ ہے اور نہ ہی پیداواری عمل کی ضرورت۔ مادی مصنوعات بنانے والے اداروں کے برعکس سوشل گیمنگ کمپنی کو اپنے ہر یوزر کے لیے پروڈکٹ تیار نہیں کرنی پڑتی بلکہ ایک گیم کے لیے بنائی گئی تمام ورچوئل پروڈکٹس بیک وقت لامحدود یوزر خرید سکتے ہیں۔
اس طرح ورچوئل پروڈکٹس کی تیاری پر صرف ایک بار لاگت آتی ہے اور اس کے بعد آمدنی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اسی لیے سوشل گیمنگ انڈسٹری میں سرمایہ کاری کا حجم بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے اور نئی کمپنیاں قائم ہو رہی ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔