ملتان کا الیکشن

نصرت جاوید  جمعرات 23 اکتوبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

ملتان کے ضمنی انتخاب کو ٹی وی والوں نے یقینا بہت جاندار اور چسکے دار بنا دیا تھا۔ اس کے نتائج آجانے کے بعد ہماری اسکرینوں پر رونما ہوئے تجزیہ کاروں نے بھی بہت توانائی دکھائی۔ تحریک انصاف کے روایتی ناقدوں کی اکثریت نے بالآخر یہ تسلیم کر ہی لیا کہ کم از کم پنجاب میں عمران خان کی ’’ہوا‘‘ بندھ گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کا اس صوبے میں اب کوئی مستقبل نہیں رہا۔ نواز شریف سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی اب ٹھنڈے دل سے فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیندہ انتخابات میں کس کا ٹکٹ کام آئے گا۔

رنگ میں بھنگ ڈالنے کی عادت میری بہت پرانی ہے۔ اسکرینوں پر موجود شوروغوغا کے درمیان بارہا یہ سوچتا رہا کہ یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے۔ میری حیرانی وپریشانی اس وقت اور زیادہ ہوجاتی ہے جب کافی پڑھے لکھے اور ملکی سیاست پر معتبر رائے دینے کے اہل مانے جانے والے افراد کے کالم ذرا غور سے پڑھتا ہوں۔ کئی دنوں سے وہ ہمیں مسلسل بتائے چلے جارہے ہیں کہ 1970ء کے بعد عمران خان وہ سیاست دان ثابت ہورہے ہیں جنہوں نے ہماری سیاست کو مکمل طور پر بدل دیا ہے۔ اب پرانی سیاست گری خوار ہوچکی ہے۔ اشرافیہ کے دن تمام ہوئے اور راج کرے گی خلقِ خدا ہونے ہی والا ہے۔ رنگ میں بھنگ ڈالنے کی عادت سے مجبور میں سوائے ’’لگدا دے نئیں پرشید‘‘ سوچ کر بس خاموش ہوجاتا ہوں۔

جاوید ہاشمی ہماری سیاست کا یقینا ایک بڑا نام ہے۔ اس کی ملتان کے ضمنی انتخاب میں ہار ایک اہم واقعہ ہے۔ مگر سیاسی داؤ پیچ اور انتخابی حرکیات پر سرسری نظر رکھنے والا ہر شخص اس ہار کے لیے ذہنی طور پر تیار تھا۔ جاوید ہاشمی کا سب سے بڑا وصف ہمیشہ ’’وکھری ٹائپ‘‘ کا نظر آتے رہنا ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں احتجاجی سیاست کے ذریعے نام کمانے والے اکثر سیاست دانوں کے ساتھ ایسا ہی معاملہ رہا ہے۔ معراج محمد خان 1970ء کی دہائی میں ہاشمی ہی کی طرح ہمارے سیاسی اُفق پر کئی برسوں تک بہت نمایاں رہے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تو انھیں ایک بار اپنا جانشین بھی قرار دے دیا تھا۔

یہ ’’جانشین‘‘ مگر کسی بھی ایوان کے لیے ساری زندگی منتخب نہ ہوپایا۔ بھٹو کے اندازِ حکمرانی سے موصوف نے بائیں بازو کی نظریاتی اصول پسندی کے نام پر اختلاف کیا۔ اس کی وجہ سے اقتدار کے ایوانوں سے نکل کر جیل بھی گئے۔ پھر اپنی ایک جماعت بنائی۔ وہ زیادہ کامیاب نہ ہوپائی تو عمران خان کے ساتھ مل گئے۔ چند روز ان کے ساتھ چل کر کنارہ کشی اختیار کرلی اور پھر مکمل گوشہ نشینی۔

ہماری حالیہ تاریخ میں طلباء سیاست میں نام کمانے کے بعد آگے بڑھنے والوں میں ایک نام محمد علی درانی کا بھی ہوا کرتا تھا۔ قاضی حسین احمد مرحوم کو ’’ڈھول ڈھمکا‘‘ سیاست کی طرف مائل کرنے کا الزام ان کے سرتھونپا جاتا تھا۔ بالآخر وہ سردار فاروق خان لغاری کی سرپرستی میں چلے گئے۔ اس سرپرستی کی بدولت سینیٹ میں آئے اور شیخ رشید جیسے ’’ماہر ابلاغیات‘‘ کی جگہ شوکت عزیز اور جنرل مشرف کے وزیر اطلاعات بنے۔ وہاں سے فارغ ہوئے تو بہاولپور کو الگ صوبہ بنانے کی تحریک چلانا چاہی۔ ان دنوں نہ جانے کہاں ہوتے ہیں۔

طلباء سیاست کے ذریعے ’’وکھری ٹائپ‘‘ کی شہرت بنانے والے افراد کا اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ انتخابی سیاست کے تقاضوں کو پوری طرح نہیں سمجھتے۔ اس سیاست میں سب سے اہم ایک ’’حلقہ‘‘ ہوتا ہے جہاں سے آپ کو قومی یا صوبائی اسمبلی تک پہنچنا ہوتا ہے۔ اس حلقے میں سب سے اہم بات آپ کا ’’ڈیرہ‘‘ ہوتا ہے اور اس کے ذریعے تھانے کچہری وغیرہ سے جڑے مسائل کے تدارک کے لیے ووٹروں کی سرپرستی۔ جاوید ہاشمی کو شکست دینے والے عامر ڈوگر نسلوں سے اس سیاست سے پوری طرح واقف ہیں۔ موصوف کے بزرگ صلاح الدین ڈوگر اس حوالے سے ملتان کا ایک بڑا نام سمجھے جاتے تھے۔

یوسف رضا گیلانی کا ستارہ جن دنوں عروج پر تھا تو موصوف ان کے ساتھ جڑ گئے۔ ان کی وفات کے بعد عامر نے بھی گیلانی کیمپ سے اپنی وابستگی کو برقرار رکھا۔ شہری متوسط طبقے کے وہ افراد جو ٹی وی اسکرینوں پر ٹاک شوز دیکھ کر پارسا اور اصولی سیاست کے دیوانے بن چکے ہیں حلقوں کی سیاست کرنے والے ’’ڈوگروں‘‘ کو پسند نہیں کرتے۔ عمران خان اور ان کی تحریک انصاف سے ان کی محبت کی اصل وجہ بھی یہی نفرت ہے۔ مگر کپتان کو اقتدار میں آنا ہے اور اقتدار میں آنے کے لیے انھیں خود اور اپنی جماعت کو اکثریت کے ساتھ قومی اسمبلی میں لانا ہے۔ اس حقیقت کی وجہ سے شاہ محمود قریشی جیسے جدی پشتی مخدوم اور حلقوں کی سیاست کے کھلاڑی کپتان کی مجبوری ہیں۔

ملتان کی جو نام نہاد Electoral Space ہے، تاریخی طورپر اس کے لیے اصل مقابلہ قریشیوں اور گیلانیوں کے درمیان ہی ہوتا رہا ہے۔ مخدوم رشید کے جاوید ہاشمی اس تناظر میں وہاں ایک ’’گھس بیٹھئے‘‘ تھے۔ اسی لیے تو ایک نہیں کئی بار نون والوں نے انھیں تخت لہور کی کسی Safe Seat سے ضمنی انتخاب میں منتخب کروا کر قومی اسمبلی میں بھیجا۔ کپتان ہی کی طرح کسی زمانے میں لاہور سے آئے صنعت کار نواز شریف حلقوں کی سیاست کے غلام نہ سمجھے جاتے تھے۔ ان کی قریشیوں اور گیلانیوں سے قربت ہو نہ سکتی تھی۔ گیلانی، نواز شریف کو شاہ محمود قریشی سے کہیں پہلے سمجھ گئے اور 1988ء میں یوسف رضا پیپلز پارٹی میں آگئے۔

شاہ محمود کو 1993ء میں اندازہ ہوا کہ ’’باری‘‘ اس سال محترمہ بے نظیر کی ہے۔ ڈاکٹر صفدر عباسی ان کے ایچی سن کالج کے دوست تھے۔ ان کی وساطت سے نواز شریف کو چھوڑ کر PPP میں چلے آئے۔ یوسف رضا نے مگر ان کی گڈی محترمہ کے دربار میں چڑھنے نہ دی۔ آصف علی زرداری نے بھی انھیں وزیر اعظم نامزد کیا۔ شاہ محمود ان کے وزیر خارجہ تو بنے مگر ’’باجو کی گلی‘‘ سے راستہ مل جانے کے انتظار میں رہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری نے وہ راستہ بالآخر فراہم کردیا۔ بھٹو نے ایوب خان کی وزارتِ خارجہ کو چھوڑ کر ذوالفقار علی بھٹو بننے کا راستہ ڈھونڈا تھا۔ شاہ محمود کو ’’تاشقند‘‘ تو ملا مگر بھٹو نہ بن پائے۔ کپتان کی سرپرستی میں آنا ہی پڑا۔

جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف کو تخت یا تختے والے دھرنے کے عین درمیان چھوڑا تو اس جماعت کے ملتان میں موجود نوجوان غصے میں تلملا اٹھے۔ نوجوانوں کے اس غصے کو شاہ محمود نے بڑی ذہانت سے ملتان کی مقامی سیاست کے حوالے سے اپنے دو ’’شریکوں‘‘ یعنی ہاشمی اور گیلانی کو شکست دینے کے لیے استعمال کیا۔ اصل چوٹ انھوں نے مگر اپنے ازلی حریف یعنی یوسف رضا گیلانی کو پہنچائی۔

’’ڈوگروں‘‘ کو گیلانی کیمپ سے جدا کرنے کے بعد اپنی سرپرستی میں لیا اور ’’خرگوش کو بلاّ بنا دیا‘‘  ہاشمی کی شکست یقینی تھی اور ہوئی بھی مگر اصل نقصان میں دوبارہ عرض کردوں یوسف رضا گیلانی کو ہوا کیونکہ ان کے نامزد کردہ جاوید صدیقی کو عبرتناک شکست ہوئی۔ ملتان کے اس ضمنی انتخاب کے بعد ملتان فی الحال جدی پشتی مخدوم شاہ محمود کا ہوا۔ ’’جدی پشتی مخدوم‘‘ اگر ’’ڈوگروں‘‘ کے ذریعے اپنے ازلی ’’شریکوں‘‘ کو ذلت ورسوائی پہنچائیں تو ’’پرانی سیاست گری خوار‘‘ نہیں ہوتی۔ ویسی کی ویسی رہتی ہے۔ بس مہرے بدل جاتے ہیں۔ کھیل بھی وہی رہتا ہے اور بساط بھی وہی۔ اسے ’’پرانے‘‘ اور ’’نئے پاکستان‘‘ کے درمیان فیصلہ کن جنگ قرار دینا کم از کم میرے لیے تو ممکن نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔