سیاست میں فاؤل پلے

عبدا لوارث  جمعـء 24 اکتوبر 2014

دنیا بھر میں سیاست کو ایک خدمت اور کبھی کبھی عبادت سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں جس طرح کی سیاست کی جاتی ہے۔ اس کے لیے منفی کا لفظ استعمال کرنا بھی کافی نرم اور مہذب لگتا ہے۔ سیاست کے لیے مذہب کی تعلیمات کو اپنے مقصد کی تشریح کرکے استعمال کرنا، لسانی اور زبان کی بنیاد پر لوگوں میں تفرقہ ڈالنا، مسلک اور ذاتیات کی بنیاد پر الزامات کی سیاست کرنا، ایک دوسرے کی ذاتی زندگی اور خاندان پر کیچڑ اچھالنا، جذباتی تقریروں سے عوام کے جذبات کو ابھارنا، علاقائی ترجیحات کو ملک کے عمومی مفاد پر ترجیح دینا، ملک کے اداروں جیسے عدلیہ اورفوج کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرنا یا ان پر اپنی حمایت یا مخالفت کی توجیح پیش کرنا وغیرہ وہ تمام چیزیں جن کو سیاست میں فاؤل پلے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے خطے کے تینوں ممالک یعنی پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش اس وقت اس قسم کی سیاست سے دوچار ہیں اور پرفارمنس کی بجائے صرف نفرتوں کے بیج بو کر اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے سیاستدان اور ان کی پارٹیاں مصروف عمل ہیں اور اگر کوئی ایک غلطی کرتا ہے تو دوسرے کی غلطیاں نکال کر اپنی غلطی کی توجیہہ تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے جب کہ یہ انگریزی محاورہ تو ہر کسی کو معلوم ہے کہ “Two wrong can not make it one right” پھر بھی اس کے باوجود اپنی غلطی کو ماننے کی بجائے دوسرے پر الزام تراشی کرنا اب معمول کی سیاست کا حصہ ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو آپ کو بزدل اور بے وقوف کہا جائے گا۔ اور پھر ایک حکمران کا طویل عرصے سے یہ راگ الاپنا بھی ایک معمول کی بات ہے کہ موجودہ برے حالات پچھلے حکمران کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ ہے۔

اور اگر پچھلے حکمران کی طرف سے کچھ اچھے کام ہاتھ لگ جائیں تو یا تو اس منصوبے کو اپنے کھاتے میں ڈال کر اپنی تختی لگانا تو فرض ہے یا پھر اس منصوبے کو ختم کردینا ضروری ہے تاکہ کہیں یہ نہ ہوجائے کہ پرانے حکمرانوں کو اس کا کریڈٹ مل جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سوچ کی وجہ سے حکمرانوں نے چاہے وہ صوبائی سطح پر ہوں یا وفاقی سطح پر اب صرف ان منصوبوں پر کام کرنا شروع کردیا ہے جو ان کے دور حکومت میں ہی پایہ تکمیل تک پہنچ جائیں تاکہ یہ نہ ہو کہ اگلے حکمران اس کا کریڈٹ لے جائیں۔ اس شارٹ ٹرم یعنی قلیل المدتی پالیسیوں کی وجہ سے شاید ہماری سیاست اور سیاستدانوں کی انا کی تسکین تو ہو جائے لیکن ملک یقینا نقصان سے دوچار رہتا ہے۔ اور ہم ملک کو ایسے چلتا ہوا دیکھتے ہیں جیسے ایک گھر بھی نہ چلتا ہو۔

یعنی بغیر کسی مناسب منصوبہ بندی کے بغیر جہاں تک تقریروں میں نعرے بازی، طوفان بدتمیزی اور ذاتی حملوں کا ذکر ہے تو اس کے بغیر تو کوئی بھی سیاسی تقریب جاندار خیال نہیں کی جاتی۔ بھلا کوئی ان سیاستدانوں سے یہ پوچھے کہ مغربی طرز سیاست اور جمہوریت جس کی وہ مثالیں دیکھتے تھکتے نہیں کیا وہاں بھی اس طرز عمل کو اپنایا جاتا ہے۔ کیا تقاریر میں اپنی پرفارمنس اور کارکردگی کو بنیاد بناکر صرف اپنے منشور کو بیان نہیں کیا جاسکتا یا پھر اپنی کارکردگی کچھ ایسی ہے جوکہ قابل ذکر یا قابل ستائش ہو نہ کہ اس کا ذکر کرنا مناسب ہو۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تمام ہی سیاسی جماعتوں میں آمریت رائج ہے اور اپنے سیاسی لیڈر سے اختلاف کرنے والے کو باغی اور مرتد تک قرار دیا جاتا ہے کہ اس نے پارٹی پالیسی اور نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی۔

کیا مغربی جمہوریت میں اراکین پارلیمنٹ اپنے سیاسی لیڈر کو ہدف تنقید بناکر اصلاح کا مشورہ نہیں دیتے یا وہاں بھی اختلاف رائے رکھنے والے کو ملک دشمن اور غدار کے نام سے پکارا جاتا ہے، اور اب تو ان تمام چیزوں کو نمک مصالحہ لگانے والے الیکٹرونک میڈیا کے بے مقصد ٹاک شوز بھی حاضر ہیں۔ جہاں پر بے سروپا بحث کو اچانک سمیٹ کر ایسے پروگرام ختم کیا جاتا ہے جیسے عوام کے قیمتی وقت کی کوئی وقعت اور اہمیت ہی نہیں۔ اس وقت ملک میں سیاسی کشیدگی جس عروج پر ہے۔

اس میں عید کے دنوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا جب کہ ملک کو درپیش مسائل ابھی بھی وہیں ہیں۔ لوڈشیڈنگ، مہنگائی، انتخابی نظام میں خرابیاں، سیلاب سے نمٹنے کی صلاحیت نہ ہونا، بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، بیروزگاری حتیٰ کہ ایک طویل فہرست سامنے ہے لیکن کس سیاستدان حکومت اور اپوزیشن کی نظر کرم اس پر ہو۔ عوام یہ تماشا ہر روز ایک نئی کروٹ لیتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ بھارت کی طرف سے مستقل بلا اشتعال فائرنگ ہو یا ڈرون حملہ یا پھر ہماری بہادر افواج کی جنگجوؤں کے خلاف فیصلہ کن جنگ ہو، ہماری سیاسی جماعتوں کو اپنی محاذ آرائی اور پوائنٹ اسکورنگ سے فرصت نہیں۔ بلکہ کچھ لوگ تو ایسے بھی ہیں کہ جو ان مسائل پر سیاست کر رہے ہیں جب کہ قومی مسائل اور اداروں پر سیاست کرنا یقینا ایک فاؤل پلے ہے۔

اس وقت ملک و قوم جن مسائل کا شکار ہے اس میں انتہائی سنجیدگی ، خلوص اور اتحاد وقت کا متقاضی ہے۔ اپنی پرفارمنس، اپنے منشور اور وژن پر سیاست کریں۔ کیونکہ وہ انسان کبھی کامیاب نہیں ہوتا جو اپنی کامیابی دوسروں کی ناکامیوں میں تلاش کرے اور کاش کہ اس پرانی نصیحت پر غور کیا جائے کہ ’’محنت کر حسد نہ کر‘‘۔ ہماری قوم بہت جذباتی ہے اور جوش و جذبے سے بھرپور۔ کاش کہ ہمارے لیڈرز اور سیاستدان اس جذبے کو مثبت طریقے سے استعمال کرکے اسے ملکی مفاد میں استعمال کریں نہ کہ اس کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کریں کیونکہ اس صورت میں تو صرف انتشار ہی پھیلے گا اور ہمارے دشمن اس کا فائدہ اٹھائیں گے کیونکہ جب قوم منقسم اور کمزور ہوتی ہے تو اس کا فائدہ اندرونی اور بیرونی دونوں دشمنوں نے اٹھانا ہوتا ہے اور بلاشبہ ہمارے ملک کے ایسے دشمنوں کی کوئی کمی نہیں۔

وزیرستان میں عید کے دنوں پر ڈرون حملہ اور بھارتی فوج کی بلااشتعال شیلنگ شاید اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ مثبت سیاست کریں۔ پرفارم کریں۔ اور اپنی پرفارمنس سے ہی دوسرے کو شکست دیں۔ شاید اس تعمیری مقابلے میں ملک و قوم کی فلاح و بھلائی پوشیدہ ہے۔ اب ملک و قوم میں کسی فاؤل پلے کا خمیازہ بھگتنے کی سکت موجود ہی نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔