مسکرانا سیکھ لو

تشنہ بریلوی  جمعـء 24 اکتوبر 2014
tishna.brelvi@yahoo.com

[email protected]

جی ہاں قارئین کرام:
زندگی میں کامران و شاد رہنے کے لیے
اور کچھ سیکھو نہ سیکھو ، مُسکرانا سیکھ لو
(تشنہ بریلوی)

چند مثالوں سے مسکرانے کی اہمیت واضح ہوجائے گی۔ امریکی صدارتی امیدوار اب بہت پر اُمید تھا ۔ اُسے یقین تھا کہ وہائٹ ہاؤس اس کا انتظار کررہا ہے۔ یہ امیدوار پچھلی بار بھی صدارتی الیکشن لڑا تھا لیکن ناکام ہوا تھا کیونکہ اس وقت اس کا مقابلہ صدر فرینکلن روز ویلٹ سے ہُوا جو اپنی اقتصادی پالیسیوں کے سبب عوام میں اتنا مقبول تھا کہ سخت بیمار اور وہیل چیئر پر ہونے کے باوجود وہ کامیاب ہوگیا ۔ لیکن اب 1948کے الیکشن میں روز ویلٹ کے بجائے ٹرومین تھا جس کو ہرانا مشکل نہیں تھا ۔ اس لیے ری پبلکن امیدوار گورنر ڈیوی کو پوری امید تھی کہ اگلا صدر وہ خود ہوگا ۔ تمام اخبار ، ریڈیو اور نیوز چینل بھی ڈیوی کی فتح کے اشارے کررہے تھے حتیٰ کہ صدر ٹرومین بھی مایوس تھا۔

مگر ایک واقعہ ایسا پیش آیا کہ پانسا پلٹ گیا ۔ انتخاب سے چند روز پہلے ری پبلکن پارٹی کے ایک جلسے میں کچھ گڑ بڑ ہوگئی ۔ ڈیوی کو غصہ آگیا اور وہ بری طرح پارٹی ورکرز پر برس پڑا ۔ الیکشن کا نتیجہ آیا ’’ٹری بیون‘‘ نے ڈیوی کی جیت کی سرخی جمائی مگر ڈیوی ہارچکا تھا اور اس ہار کا سبب ڈیوی کا اپنا رویّہ تھا جو اس نے چند روز پہلے پیش کیا تھا ۔ اگر وہ اس موقعے پر نرمی سے کام لیتا اور غصے کے بجائے مسکراہٹ استعمال کرتا تو امریکی ووٹر اس کو یوں مسترد نہ کرتے ۔ ظاہر ہے کہ ’’غصیلا‘‘ صدر کس کو پسند ہوسکتا ہے۔

52 سالہ امریکی جنرل ابھی تک کوئی خاص کارنامہ انجام نہیں دے سکا تھا ۔ لیکن 7 ستمبر 1941کو ایک ایسا تباہ کن واقعہ پیش آیا کہ امریکی حکومت ہل کر رہ گئی ۔ جاپان نے پرل ہاربر کے امریکی اڈے پر زبردست حملہ کردیا اور بے حد نقصان پہنچایا ۔ امریکا اپنی غیر جانبداری ختم کر کے جنگ میں شامل ہوگیا ۔ لیفٹننٹ جنرل ڈوئٹ ڈی آئزن ہاور ’’آپریشن ٹارچ‘‘ کا کمانڈر بنا دیا گیا جس کا مقصد تھا شمالی افریقہ میں جرمن فوجوں کا مقابلہ کرنا جو یقینا ایک بہت مشکل کام تھا ۔

کسی فوجی افسر کے لیے قائدانہ صلاحیت بے حد اہم ہے جو بہت سی خوبیوں کا مجموعہ ہے ۔ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ فوجی افسر اپنے ماتحت سپاہیوں کی وفا داری حاصل کرسکے اس حد تک کہ سپاہی اس کے لیے جان کی بازی تک لگانے کے لیے تیار ہوجائیں ۔ اب آئزن ہاور کا امتحان شروع ہوا ۔ جب وہ شمالی افریقہ پہنچا تو ایک بڑے جلسے کا انتظام کیاگیا جہاں اسے ہزاروںسپاہیوں سے خطاب کرنا تھا ۔ ان میں امریکی ‘برطانوی، فرنچ ، عرب ، ہندوستانی اور افریقین فوجی شامل تھے ۔آئزن ہاور ان سب کے لیے معمّا تھا ۔اپنی عجیب وغریب وردی میں وہ فوجی سپہ سالار کے بجائے کوئی چوکیدار لگ رہا تھا ۔ آئزن ہاور نے خالص امریکی مڈویسٹ لہجے میں اپنی تقریر شروع کی جو کسی کے پلّے نہیں پڑ رہی تھی ۔ سب سپاہی بے چینی سے تقریر ختم ہونے کا انتظار کر رہے تھے ۔

بہر حال تقریر ختم ہوئی اور آئزن ہاور پلیٹ فارم سے نیچے اترا ۔ ایسا کرتے ہوئے اس کا پاؤں رپَٹ گیا اور وہ چاروں خانے چت دھڑام سے زمین پر گر گیا ۔ قہقہوں کی آسماں خراش آوازیں بلند ہوئیں ۔ سپاہیوں نے اجنبی سپہ سالار کی اس حالت کو بہت ’’انجوائے ‘‘ کیا اور ٹوپیاں ہوا میں اُچھالیں ۔ شکست خوردگی کے مارے ہوئے سپاہیوں نے اسے اپنی ’’فتح‘‘ گردانا اور سارا میدان نعروں سے بھرگیا ۔ لیکن تاریخ سانس روکے آئزن ہاور کے رد عمل کی منتظر تھی۔کیا وہ چپ چاپ کھسک گیا ۔ کیا اس نے غصّہ کا اظہار کیا ‘ ایسے ہی موقعے پر قیادت کا امتحان ہوتا ہے اور قائد بنتا یا ٹوٹتا ہے۔

آئزن ہاور بڑے اطمینان سے اٹھا ۔ اپنے پورے قد کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور چاروں طرف نظر دوڑا کر ہاتھ ہلا ہلا کر بڑی گرم جوشی سے تمام سپاہیوں کو اپنی مشہور مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا اور اس طرح یہ پیغام دیا کہ ’’ان کا امریکی سپہ سالار ایک مکمل فوجی کمانڈر ہے اور ایک آدھ معمولی ہزیمت اس کے عزم کو شکست نہیں دے سکتی ۔‘‘ آئزن ہاور نے اس موقعے پر چند جملے بھی بولے لیکن ’’بدن بولی‘‘ اپنا کام کررہی تھی اور افسر اورسپاہیوں کے درمیان اعتماد اور دوستی کا پل تعمیر کررہی تھی۔ پھر کیا ہوا:۔

پھر جو ہوا وہ معجزہ تھا اور کچھ نہ تھا

شمالی افریقہ میں فتح، سسلی پر قبضہ ، اٹلی پر کامیاب حملہ‘ حد سے زیادہ دشوار فرانس کے نارمنڈی ساحل پر دھاوا ، فرانس کی آزادی ۔ اور پھر اس جانباز اور مسکراتے ہوئے سپاہی کو کون روک سکتا تھا کہ وہ وہائٹ ہاؤس ہی کو فتح کرکے صدارتی تاج اپنے سر پر رکھے ۔

یہ تو ہوئیں دُورکی باتیں امریکا کی یورپ کی اور افریقہ کی۔ اب ذرا قریب آجائیے تاکہ ایک اورکامیاب خوش مزاج اور متبسّم رہنما سے تعارف ہو۔

دسمبر1941میں قائد اعظم نے کل ہند مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے جلسے کی ناگپور میں صدارت کی ۔ عیدالاضحی دو روز بعد ہونے والی تھی ۔ فیصلہ کیا گیا کہ عید کی نماز جلسہ گاہ کے میدان میں ہی ادا کی جائے گی ۔ پچاس ہزار سے زیادہ کا مجمع موجود تھا ۔ نماز ختم ہوتے ہی ہر شخص اپنے محبوب قائد سے ہاتھ ملانے کے لیے آگے بڑھا ۔یہ بھی ایک امتحان تھا ۔ کوئی اور ہوتا تو شاید خاموشی سے چلا جاتا یا چند ایک اہم لوگوں سے ہاتھ ملالیتا اور اس طرح اپنے چاہنے والوں کو مایوس کرتا لیکن انگلینڈ میں آسکر وائلڈ ، فرانک ہیرس اور ونسٹن چرچل جیسے پر مذاق اور Wittyدانشوروں کے درمیان زندگی گزارنے والا محمد علی جناح قیادت کے تمام رموز سے واقف تھا ۔

قائد اعظم مائک کی طرف آئے اور بولے ’’ مائی ڈیر فرینڈس ۔ آپ سب کو عید مبارک‘‘
’’عید مبارک قائد اعظم‘‘ مجمع زور سے چلایا۔

’’دوستو! میں یہاں دو چار لوگوں سے ہاتھ نہیں ملاؤں گا ۔ میں تو آپ میں سے ہر ایک کے ساتھ مصافحہ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
مجمع میں سے ہر ایک نے ہاتھ بڑھایا۔

’’ لیکن دوستو ! یاد رکھو کہ اگر میں نے ایسا کیا تو پھر میرے ہاتھ یہیں رہ جائیں گے۔‘‘
سارا مجمع قہقہہ بار ہوگیا اور قائد اعظم ہنستے ہوئے گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے ۔ انھوں نے اپنی خوش مزاجی اور مسکراہٹ سے حاضرین کے دل جیت لیے ۔

راہبر صاحبِ کردار کہاں سے لاؤں
پھر وہی قافلہٗ سالار کہاں سے لاؤں
( تشنہؔ بریلوی )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔