- انصاف کے شعبے سے منسلک خواتین کے اعداد و شمار جاری
- 2 سر اور ایک دھڑ والی بہنوں کی امریکی فوجی سے شادی
- وزیراعظم نے سرکاری تقریبات میں پروٹوکول کیلیے سرخ قالین پر پابندی لگادی
- معیشت کی بہتری کیلیے سیاسی و انتظامی دباؤبرداشت نہیں کریں گے، وزیراعظم
- تربت حملے پر بھارت کا بے بنیاد پروپیگنڈا بے نقاب
- جنوبی افریقا میں ایسٹر تقریب میں جانے والی بس پل سے الٹ گئی؛ 45 ہلاکتیں
- پاکستانی ٹیم میں 5 کپتان! مگر کیسے؟
- پختونخوا پولیس کیلیے 7.6 ارب سے گاڑیاں و جدید آلات خریدنے کی منظوری
- اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما کو عمرے پرجانے کی اجازت دے دی
- مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو، پہلی بار وزیر خزانہ کی جگہ وزیر خارجہ شامل
- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
(دنیا بھر سے) - اقوام متحدہ کو کارکردگی مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے
کیلنڈر پر جب بھی 24اکتوبر کی تاریخ کروٹ لیتی ہے اقوام متحدہ کو اپنا عالمی دن منانا یاد آجاتا ہے کیونکہ 1945ء میں یہی وہ دن تھا جب اقوام متحدہ کے پانچ مستقل ممبران کے دستخطوں نے اس عالمی ادارے کے قیام کا باقاعدہ اعلان کیا اور صرف 3سال بعد ہی یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ اس دن کو سالانہ کی بنیاد پر منایا جائے گا تاکہ لوگوں کو اِس ادارے کی خدمات سے آگاہ کیا جاسکے۔ بات صر یہیں تک نہیں رکتی بلکہ 1971ء میں تو جنرل اسمبلی میں یہ بھی قرارداد پیش کی گئی کہ اس دن تمام ممبر ریاستوں میں عوامی چھٹی کا اعلان بھی کیا جائے۔مگر اس قرارداد کے ساتھ بھی وہی ہوا جو کشمیر کے معاملے پر طے ہونے والی قراردادوں کے ساتھ ہوا۔
بحثیت ایک پاکستانی میں جب بھی اقوام متحدہ کے کردار پر نظر دوڑاتا ہوں تو ماسوائے ایک ،اقوام متحدہ مجھے اپنے تمام بنیادی مقاصد کے حصول میں ناکام رہا ہے اور وہ واحد مقصد جس میں اقوام متحدہ کو کامیابی حاصل ہوئی ہے کسی نئی عالمی جنگ کو وقوع پذیر ہونے سے روکنا ہے۔
میں شاید اِس لیے بھی اقوام متحدہ کے خلاف ہوں کہ گزشتہ ساٹھ برس سے زائد کا عرصہ بیت چلا ہے مگر ابھی تک اقوام متحدہ کشمیر اور فلسطین کے مسئلے کا کوئی حل نہیں نکال پایا لیکن جب مشرقی تیمور کا مسئلہ پیش آیا تو فوراً حل ہو گیا، سوڈان کا مسئلہ پیش آیا تو فوراً سے پیشتر جنوبی سوڈان کوعلیحدہ کر کے عیسائیوں کے لئے علیحدہ ملک بنا دیا گیا۔
اور مجھے اپنے خیالات کی حمایت 1997ء سے 1999ء تک اقوام متحدہ میں اسرائیل کی نمائندگی کرنے والے ’’ڈور گولڈ‘‘نے اپنی کتاب ’’ ٹاور آف بابل‘‘ کی کتاب میں بھی نظر آتی ہے جس میں اقوام متحدہ کے رخِ روشن سے نقاب اتار کر اس کے پیچھے چھپے مکروہ اور بھیانک چہرے سے دنیا کو خوب متعارف کروایا ہے۔گھر کا بھیدی خود بتاتا ہے کہ کس طرح اقوام متحدہ نامی یہ دنیا کا منصف امن کے نام پر مخصوص قوتوں کے ہاتھ کا ایک کھلونا بنا ہوا ہے اور اُن کے مقاصد کی تکمیل کے لئے راہیں ہموار کر رہا ہے۔
لیکن میرے جذبات اپنی جگہ، میں اقوام متحدہ سے اختلاف کرنے کا حق بھی رکھ سکتا ہوں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امن کے میدان کے علاوہ اقوام متحدہ کے باقی ماندہ ادارے شاید اپنا کام بالکل ٹھیک ٹھیک ادا کررہے ہیں پھر چاہے بات ہو یونیسیف کی، یونیسکو، ڈبلیو ایچ او کی پھر کسی بھی دوسرے ادارے کی بات کرلی جائے۔ مجھے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ افریقہ میں جس ایبولا نے تباہی مچائی ہوئی ہے اُس حوالے سے آگاہی بھی اِس اقوام متحدہ نے ہی پھیلائی ہے اور پاکستان کو بھی تیار رہنے کا حکم اِسی ادارے نے دیا ہے وگرنہ ہمیں تو اِس بیماری کا معلوم ہی نہ چلتا جیسے ڈینگی اور دوسری بیماریوں کے بارے میں ہمارا حال ہوتا ہے۔
کمزور معیشتوں کی مدد کا سہرا بھی شاید عالمی ادارے کے سر ہے اگرچہ اِس حوالے سے بھی افواہیں گردش کرتی رہتی ہیں کہ یہ سرمایہ کاروں کی حمایت کے مترادف ہے لیکن اگر سازشی ذہن سے ہٹ کر سوچا جائے تو ہمیں اِس کی قدر کرنی چاہیے ۔
ادارہ چاہے پھر قومی ہو یا بین الاقوامی ، یہ ناممکن ہے کہ اُس ادارے کی کارکردگی سے تمام لوگ مطمئن ہوں اور شاید یہی معاملہ اقوام متحدہ کے ساتھ بھی ہے کہ اِس ادارے کے کھاتے میں یقیناًکچھ بہت اچھے کارنامے بھی ہیں اور ہمیں اِس کا بہرحال اقرار کرنا چاہیے مگر امن جیسے مسئلے پر اِد ادارے کو اپنی کارکردگی کو فوری طور پر بہتری لانی چاہیے تاکہ لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی اِس ادارے کی موجودگی کو اچھے انداز میں لے سکیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔