- نیب کا قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں غیر قانونی بھرتیوں کا نوٹس
- رضوان کی انجری سے متعلق بڑی خبر سامنے آگئی
- بولتے حروف
- بغیر اجازت دوسری شادی؛ تین ماہ قید کی سزا معطل کرنے کا حکم
- شیر افضل کے بجائے حامد رضا چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نامزد
- بیوی سے پریشان ہو کر خودکشی کا ڈرامہ کرنے والا شوہر زیر حراست
- 'امن کی سرحد' کو 'خوشحالی کی سرحد' میں تبدیل کریں گے، پاک ایران مشترکہ اعلامیہ
- وزیراعظم کا کراچی کے لیے 150 بسیں دینے کا اعلان
- آئی سی سی رینکنگ؛ بابراعظم کو دھچکا، شاہین کی 3 درجہ ترقی
- عالمی و مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں اضافہ
- سویلین کا ٹرائل؛ لارجر بینچ کیلیے معاملہ پھر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھیج دیا گیا
- رائیونڈ؛ سفاک ملزمان کا تین سالہ بچے پر بہیمانہ تشدد، چھری کے وار سے شدید زخمی
- پنجاب؛ بےگھر لوگوں کی ہاؤسنگ اسکیم کیلیے سرکاری زمین کی نشاندہی کرلی گئی
- انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے پی ایچ ایف کے دونوں دھڑوں سے رابطہ کرلیا
- بلوچ لاپتہ افراد کیس؛ پتہ چلتا ہے وزیراعظم کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ
- چوتھا ٹی20؛ رضوان کی پلئینگ الیون میں شرکت مشکوک
- ایرانی صدر کا دورہ اور علاقائی تعاون کی اہمیت
- آئی ایم ایف قسط پیر تک مل جائیگی، جون تک زرمبادلہ ذخائر 10 ارب ڈالر ہوجائینگے، وزیر خزانہ
- حکومت رواں مالی سال کے قرض اہداف حاصل کرنے میں ناکام
- وزیراعظم کی وزیراعلیٰ سندھ کو صوبے کے مالی مسائل حل کرنے کی یقین دہانی
مولانا غلام اعظم کا انتقال
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما مولانا غلام اعظم جمعرات کے دن ڈھاکہ کے ایک اسپتال میں انتقال کر گئے۔ مرحوم کو جمعہ کے دن ان کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ان کی طبیعت خراب ہونے کے باعث انھیں جیل سے اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 91 برس تھی۔ گزشتہ برس ڈھاکہ کی ایک خصوصی عدالت نے انھیں 90 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اس وقت ان کی اپنی عمر بھی 90 سال ہوچکی تھی۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے دیگر لیڈروں کی طرح مولانا غلام اعظم پر بھی 1971ء میں مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے دوران پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کا الزام تھا تاہم خصوصی عدالت میں ان پر حکومت کے خلاف سازش اور قتل عام میں ملوث ہونے کے الزامات بھی عاید کیے گئے تھے۔ وزیر اعظم حسینہ شیخ بنگلہ دیش کی علیحدگی کی تحریک کے بانی شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی ہیں۔ وہ اس وقت ملک کی وزیراعظم ہیں۔
قیام پاکستان کی تحریک میں بنگالی مسلمان ہر اول دستے میں تھے اور 1940ء میں لاہور میں ہونے والے تاریخی جلسے میں قرارداد پاکستان پیش کرنے والے مولوی اے کے فضل حق کا تعلق بنگال سے تھا۔ یہ جلسہ قائد اعظم کی زیر صدارت ہوا تھا۔ تاہم بعد ازاں مشرقی پاکستان والوں کو عدم مساوات کے شکوے لاحق ہو گئے جن کو غیروں کی طرف سے کچھ زیادہ ہوا دی گئی اور پاکستان کا ایک بازو بالٓاخر الگ ہو گیا۔ بہر حال بنگلہ دیش میں پاکستان کو متحد رکھنے والے مقامی رہنمائوں کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے‘ اسے درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
پروفیسر غلام اعظم ایک دینی اسکالر اور عمر رسیدہ بزرگ تھے۔ اصولی طور پر انھیں سزا نہیں سنائی جانی چاہیے تھی۔ انھیں طویل مدتی سزا دے کر بنگلہ دیش میں عالمی سطح پر نیک نامی نہیں کمائی۔ جن افراد کے خلاف بنگلہ دیشی عدالتیں کارروائیاں کر رہی ہیں‘ وہ بنگلہ دیش میں رہ رہی ہیں۔ 1971میں جو کچھ ہوا وہ حالات کا تقاضا تھا ۔ان ایام کے معاملات پر سیاسی کارکنوں پر مقدمے چلانا اور انھیں سزائیں سنانا انصاف نہیں کہلاتا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔