مولانا غلام اعظم کا انتقال

ایڈیٹوریل  جمعـء 24 اکتوبر 2014
پروفیسر غلام اعظم ایک دینی اسکالر اور عمر رسیدہ بزرگ تھے, فائل فوٹو

پروفیسر غلام اعظم ایک دینی اسکالر اور عمر رسیدہ بزرگ تھے, فائل فوٹو

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما مولانا غلام اعظم جمعرات کے دن ڈھاکہ کے ایک اسپتال میں انتقال کر گئے۔  مرحوم کو جمعہ کے دن ان کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ان کی طبیعت خراب ہونے کے باعث انھیں جیل سے اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ انتقال کے وقت  ان کی عمر 91 برس تھی۔ گزشتہ برس ڈھاکہ کی ایک خصوصی عدالت نے انھیں 90 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اس وقت ان کی اپنی عمر بھی 90 سال ہوچکی تھی۔

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے دیگر لیڈروں کی طرح مولانا غلام اعظم پر بھی 1971ء میں مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے دوران پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کا الزام تھا تاہم خصوصی عدالت میں ان پر حکومت کے خلاف سازش اور قتل عام میں ملوث ہونے کے الزامات بھی عاید کیے گئے تھے۔ وزیر اعظم حسینہ شیخ بنگلہ دیش کی علیحدگی کی تحریک کے بانی شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی ہیں۔ وہ اس وقت ملک کی وزیراعظم ہیں۔

قیام پاکستان کی تحریک میں بنگالی مسلمان ہر اول دستے میں تھے اور 1940ء میں لاہور میں ہونے والے تاریخی جلسے میں قرارداد پاکستان پیش کرنے والے مولوی اے کے فضل حق کا تعلق بنگال سے تھا۔ یہ جلسہ قائد اعظم کی زیر صدارت ہوا تھا۔ تاہم بعد ازاں مشرقی پاکستان والوں کو عدم مساوات کے شکوے لاحق ہو گئے جن کو غیروں کی طرف سے کچھ زیادہ ہوا دی گئی اور پاکستان کا ایک بازو بالٓاخر الگ ہو گیا۔ بہر حال بنگلہ دیش میں پاکستان کو متحد رکھنے والے مقامی رہنمائوں کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے‘ اسے درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔

پروفیسر غلام اعظم ایک دینی اسکالر اور عمر رسیدہ بزرگ تھے۔ اصولی طور پر انھیں سزا نہیں سنائی جانی چاہیے تھی۔ انھیں طویل مدتی سزا دے کر بنگلہ دیش میں عالمی سطح پر نیک نامی نہیں کمائی۔ جن افراد کے خلاف بنگلہ دیشی عدالتیں کارروائیاں کر رہی ہیں‘ وہ بنگلہ دیش میں رہ رہی ہیں۔ 1971میں جو کچھ ہوا وہ حالات کا تقاضا تھا ۔ان ایام کے معاملات پر سیاسی کارکنوں پر مقدمے چلانا اور انھیں سزائیں سنانا انصاف نہیں کہلاتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔