پاک افغان تعلقات کا نیا دور

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 25 اکتوبر 2014
tauceeph@gmail.com

[email protected]

پاکستان اور افغانستان میں اشرف غنی کے صدر منتخب ہونے کے بعد دوستی اور تعاون کے ایک نئے دور کی ابتدا کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ صدر ممنون حسین صدر اشرف غنی کے صدر کے عہدے کی حلف برداری کے موقع پر کابل گئے تھے، ان کی کابل میں صدر اشرف غنی سے خصوصی ملاقات ہوئی تھی، اب وزیر اعظم کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز کابل گئے۔ صدر اشرف غنی کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ صدر اشرف غنی نے یہ دعوت قبول کر لی۔ صدر ممنون حسین نے کہا تھا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں تعاون کو تیار ہے۔

اس موقع پر افغان صدر اشرف غنی نے تجویز پیش کی تھی کہ دونوں ممالک کو تعاون کو وسعت دینے کے لیے مختلف شعبوں کے ورکنگ گروپ بنانے چاہئیں۔ انھوں نے بینکنگ، سرمایہ کاری، تعلیم، توانائی، سیکیورٹی اور انٹیلی جنس شیئرنگ سمیت تجارت کے شعبوں میں پاکستان سے تعاون کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کابل موٹر وے، پشاور جلال آباد اور چمن قندھار ریلوے لنک منصوبے شروع کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ قندھار اور گوادر کو آپس میں لنک کرنے پر بھی بات چیت کی گئی۔

افغان صدر اشرف غنی نے تجویز دی کہ دونوں ممالک ہائیڈرو پاور کے مشترکہ منصوبے شروع کریں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ذمے اس کام کو سونپا، جس کے بعد واشنگٹن میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان انتہائی کم ٹرانزٹ ٹیرف پر بجلی کی درآمد کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ جس پر چند دن پہلے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور افغانستان کے وزیر خزانہ عمر زاخلوال نے دستخط کیے۔

واضح رہے کہ ماضی میں دریائے کابل کے پانی کا معاملہ دونوں ممالک کے درمیان متنازعہ رہا ہے۔ کرزئی دور حکومت میں اس مسئلے پر تلخی بھی پیدا ہوئی۔ پاکستان کے سفارتی عملے اور ٹیکنوکریٹس نے اس معاملے پر کام کیا ہے۔ یوں اب کابل کے دوست تسلیم کرتے ہیں کہ دریائے کابل پر پچاس فیصد پاکستان اور پچاس فیصد افغانستان کا حق ہے۔ دریائے چترال کے پانی پر ساٹھ فیصد پاکستان اور چالیس فیصد افغانستان کا حق ہے۔

دریائے کنڑ پر تین ڈیم بننے کی گنجائش ہے جس سے سارے فاٹا میں آبپاشی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ جب کہ فاٹا کے برابر کے رقبے پر افغانستان میں آبپاشی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ تینوں ڈیموں سے گیارہ سو میگا واٹ بجلی پید ا کی جا سکتی ہے جس سے ان علاقوں میں بجلی کے بحران سے نمٹا جا سکے گا۔

اس ملاقات میں افغان صدر نے، پاکستان، افغانستان اور چین کے سہ فریقی مذاکرات کی تجویز پیش کی، جس کا صدر ممنون حسین نے خیر مقدم کیا۔ واضح رہے کہ اس تجویز پر عملدرآمد سے افغانستان میں بھارتی غلبے کی پاکستانی شکایت کا ازالہ ہو سکے گا۔ افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے بھی صدر ممنون حسین سے ملاقات کی۔ عبداللہ عبداللہ خود چل کر صدر ممنون حسین سے ملاقات کے لیے پہنچے۔ عبداللہ عبداللہ نے کہا ماضی بھول جائیں، آئیں ایک نئے دور کا آغاز کریں، نئے سرے سے باہمی دوستی اور احترام کے جذبے کے ساتھ تعلقات شروع کریں گے۔

جب افغانستان میں کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی تھی تو افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کا خاندان لاکھوں افغانوں کی طرح پاکستان میں آباد ہوا تھا، حامد کرزئی کا خاندان قندھار کا رہنے والا تھا، اس بنا پر خاندان کوئٹہ میں آباد ہوا۔ افغان جنگ کے دوران حامد کرزئی کے عسکری مقتدرہ سے اچھے روابط تھے، وہ افغان مجاہدین میں پاکستان نواز کہلاتے تھے، جب کابل پر طالبان نے قبضہ کیا اور ملا عمر نے افغانستان پر اپنی خلافت قائم کی تو حامد کرزئی ان گروہ کے رہنمائوں میں شامل تھے جو طالبان کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے۔ جب نائن الیون  کے بعد امریکا اور اتحادی فوجوں نے افغانستان پر حملہ کیا تو حامد کرزئی جی ایچ کیو اور امریکی سی آئی اے سے قریبی رابطے میں تھے۔

یہی وجہ تھی کہ حکومت پاکستان نے افغانستان کی صدارت کے لیے حامد کرزئی کا نام تجویز کیا۔ امریکا، اتحادیوں اور شاید بھارت نے بھی حامد کرزئی پر اتفاق رائے کیا، حامد کرزئی نے تعلیم بھارت میں مکمل کی ہے اس لیے حامد کرزئی اور بھارت ایک دوسرے کے آشنا تھے، بہرحال پاکستان کی مدد سے حامد کرزئی افغانستان کے صدر بن گئے اور دو میعاد تک وہ صدارت پر فائز رہے۔ اگرچہ صدر حامد کرزئی اور صدر پرویز مشرف میں دوستانہ تعلقات قائم تھے مگر جب مقتدرہ نے Strategic Depth  کی پالیسی پر عمل جاری رکھا، تو افغانستان کی حکومت نے پاکستان پر طالبان کی سرپرستی کا الزام لگایا۔

پاکستان نے افغانستان میں بڑھتے ہوئے بھارتی اثرات پر اعتراضات کیے تو صدر کرزئی پاکستان سے دور ہو گئے، پھر کابل کے اطراف کے علاقوں میں طالبان کی سرگرمیوں کا الزام پاکستان پر لگا۔ آصف زرداری نے اپنی تقریب حلف برداری میں حامد کرزئی کو مدعو کیا، اس موقع پر ہونے والی پریس کانفرنس میں دونوں رہنمائوں نے دہشت گردی کے خاتمے اور ترقیاتی منصوبوں میں اشتراک اور اقتصادی ترقی کے لیے پاکستان کی امداد پر اتفاق کا اظہار کیا گیا۔ طالبان کی افغانستان میں سرگرمیاں تیز ہوئیں، اب طالبان قندھار اور جلال آباد اور کابل میں خود کش حملے کرنے لگے۔

افغان حکومت اور امریکی فوجی کمانڈ نے ان حملوں کا ذمے دار پاکستان کو قرار دینا شروع کیا، پاکستان نے جواب میں قبائلی علاقوں اور پختونخوا میں ہونے والی دہشت گردی کی ذمے داری ان عناصر پر عائد کی جو افغانستان کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ جب مسلح افواج نے سوات میں آپریشن کر کے طالبان کا قبضہ ختم کرایا تو طالبان کے رہنما ملا فضل اللہ کے بارے میں بتایا گیا کہ اس نے افغانستان میں پناہ لی ہوئی ہے، افغانستان میں بھارتی مداخلت کے بڑھنے کی خبریں شایع ہونے لگیں۔

صدر حامد کرزئی نے سابق صدر مشرف کو کوئٹہ اور اطراف کے شہروں کی ان عمارتوں کی تفصیلات فراہم کی جہاں طالبان کے رہنمائوں کی روپوشی کی اطلاع تھی مگر صدر مشرف نے ایک پریس کانفرنس میں حامد کرزئی کی فراہم کردہ فہرست کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا۔ یہ بات عام ہوئی کہ بھارت افغانستان میں سڑکیں تعمیر کر رہا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کی سرحد سے متصل شہروں میں بھارتی قونصل خانے قائم ہوئے تھے، صدر زرداری اور حامد کرزئی کے قریبی تعلقات کے باوجود دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ رہے، اس صورتحال کا فائدہ بھارت سمیت کئی ممالک کو ہوا۔ پاکستان، افغانستان کا پڑوسی ملک ہونے کی حیثیت سے افغانستان کی ترقی اور امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے جو اقدامات کر سکتا تھا وہ نہیں کر سکا۔

جب میاں نواز شریف نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو انھوں نے افغانستان سے دوستی کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے دونوں ممالک کے تعلقات بہتر بنانے کے اقدامات کیے۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے اس ضمن میں اہم کردار ادا کیا۔

محمود اچکزئی کے افغان رہنماؤں سے قریبی تعلقات تھے، ان کے قبیلے کے بہت سے افراد صدیوں سے افغانستان میں آباد ہیں، محمود اچکزئی کی سابق صدر کرزئی اور دوسرے رہنماؤں سے طویل ملاقاتیں ہوئیں، مقتدرہ سے حرارت حاصل کرنے والے صحافیوں نے حامد کرزئی اور محمود اچکزئی ملاقاتوں کو منفی رنگ دینے کی کوشش کی، محمود اچکزئی کی ان کوششوں کے مثبت نتائج برآمد ہوئے، صدر ممنون حسین اور صدر اشرف غنی کے درمیان طویل ملاقات ہوئی، انھوں نے پاکستان آنے پر آمادگی کا اظہار کیا اور دونوں ممالک کے وفود نے زندگی کے مختلف شعبوں میں جن میں اقتصادی شعبہ خاص طور پر شامل ہے، دونوں ممالک کے تعاون کو آخری شکل دی گئی، دو پڑوسی ممالک میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

اب افغان صدر اشرف غنی پاکستان آئیں گے تو اس تعاون میں مزید راہیں کھل جائیں گی۔ پاکستان اور افغانستان میں تعاون مذہبی انتہا پسندی، غربت و افلاس کے خاتمے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ صدر ممنون حسین نے اپنے کابل کے دورے کے دوران حقیقی معاملات پر معاہدہ کر کے دوستی اور تعاون کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ہٹا دیا ہے۔ اب فیصلہ ساز قوتیں نواز شریف حکومت کی اس پالیسی کی مکمل حمایت کریں تو یہ تعاون ترقی کی علامت بن جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔