ہم اتنے سادہ بھی نہیں

جاوید قاضی  ہفتہ 25 اکتوبر 2014
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

بھلا ہو ان صاحب کا، کہ آپ ہمیشہ وہ کام کرتے ہیں جس سے خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل جائے۔ آج یہ لفظ ’’مہاجر‘‘ کی کچھ ایسی تشریح کر بیٹھے جس کا کہیں کوئی نہ حوالہ نہ کوئی ایسی تاریخ ہے۔ ابھی کل ہی تو سندھ بمبئی ریزیڈنسی سے ستر سالوں بعد جدا ہو کے ریاست بنی تھی، نوے سال بعد 1843 کے چارلس نیپیئر کے حملے کے بعد، جس میں ایک مہاجر نے نعرہ لگایا جو افریقہ سے ہجرت کرکے آئے تھے، اس کا نام ہوش محمد شیدی تھا، وہ ’’مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں‘‘ جس کی پاکیزگی کو پامالی تک لے کر آئے ہیں صرف اپنی ناقص کارکردگی کو چھپانے کے لیے اور پھر کیا ہونا تھا یار لوگوں نے بھی اس پر وہ ہنگامہ برپا کیا جس سے اور کوئی نہیں بلکہ میرا بدنصیب سندھ اور بد نصیب کراچی خمیازہ بھگتے گا ۔

ان کی پارٹی کل تک وفاق پرست تھی اور آج یوں کہیے کہ اب جب چھ سالوں میں کچھ دے نہیں سکے، تو بالآخر patriotism is the last refuge of a scoundrel کی طرح انھوں نے بھی ایسے شوشوں میں ہاتھ ڈالا ہے جس سے ان کی حاکمیت برقرار رہے اور سندھ میں مقبولیت بھی ۔ اور مارے کون گئے، کراچی والے، سندھ اور پورا پاکستان ۔ کتنا سستا بنا دیا ہے، انھوں نے سیاست کو ۔ بس لوگوں کے جذبات کو چھیڑو اور راج کرو ۔

یوں تو کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے، وقت کے ساتھ کچھ اور شناختیں بھی اس کے نصیب میں آئیں، جو خاص شناخت اسے ملی وہ تھی ’’لاشیں گرانے کا شہر‘‘ یہ تو صورتحال کی منطق ہی بتائے گی کہ لاشیں کس طرح گرتی ہیں مگر یہاں کوئی بھی کسی وقت مارا جاسکتا ہے ۔ اس بار تو چوروں نے ایدھی کو بھی نہ بخشا، ورنہ چوری، ڈاکے، بھتے و تاوان بھی ایک بہت بڑی صنعت ہے اس شہر کی ۔ روشنیوں کے اس شہر میں آئے دن ہڑتال بھی رہتی ہے ۔ طرح طرح کے رنگ و مزاج ہیں اس شہر کے ، طرح طرح کے مذاہب و عقیدے ہیں ، زبانیں ہیں تو ثقافتیں بھی ہیں ۔

کراچی جسے ساؤتھ ایشیا کا نیویارک ہونا تھا۔ وہ شہر جیسے ناسٹرو ڈیمس کی کتھا بن گیا ہے۔بندہ نوا علاقے لیاری میں خانہ جنگی کی فضا ہے، مدرسے ہیں کہ کلاشنکوفوں کے ڈیرے ہیں ، سہراب گوٹھ ہے کہ منشیات کا اڈہ بھی ہے تو مذہبی انتہا پرستوں کا ڈیرا بھی ، کچھ اس طرح ہے اس شہر کی روداد غم ۔

نہ دید ہے نہ سخن ہے‘ نہ حرف ہے نہ پیام

کوئی بھی حیلائے تسکین نہیں اور آس بہت ہے

تم آج کچھ بھی نہ پوچھو کہ دل اداس بہت ہے

تیس سال پہلے اس شہر میں تیزی سے صنعتوں کا جال بچھا، کچھ اچھا نہیں لگا، کچھ صاحب اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو، چنانچہ امن وامان خراب ہوا صنعتیں اس طرح منتقل ہوکے پنجاب چلی گئیں جس طرح اب کی بار صنعتیں اکھڑ کر ڈھاکہ جا رہی ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں یہ جو دبئی ہے وہ کراچی کی بدامنی کا شہر ہے اور یہی کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر کراچی امن کا گہوارا بن جائے تو پھر بہت سی سرمایہ کاری جو دبئی میں ہو رہی ہے وہ یہاں منتقل ہوجائے گی ۔

کراچی بنا تو بمبئی کے گورنر لائیڈ کے ان دو فیصلوں کی وجہ سے جو 1920 میں اس نے کیے ، ایک تو اسے بمبئی کو وسیع کرنا تھا جوکہ مختلف جزیروں پر مبنی تھا اور دوسرا بڑا کام اس کا سکھر بیراج کا عظیم منصوبہ تھا۔ برٹش لائبریری لندن میں پرانے ڈاکیومنٹ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ سکھر بیراج بننے کے بعد گندم کی پیداوار بڑھ گئی جسے درآمد کرنے کے لیے کراچی میں ویسٹ وہارف بندرگاہ کا بنانا ناگزیر ہوچکا تھا ۔ ورنہ اس سے پہلے کے ٹی بندر ہوا کرتا تھا ، نیٹی جیٹی کے ساتھ ، سب سے بڑی بندرگاہ ، لیکن وہاں سے اتنی ساری گندم وغیرہ کو بھیجنا مشکل تھا ۔ مورخ لکھتا ہے کہ 1910 تک یہ کے ٹی بندر تھا جو کراچی کی انتظامیہ وغیرہ کو قرض دیتا تھا شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے۔

اب کے بار ہر قسم کی نفرت کی سیاست کا گڑھ بن گیا ہے یہ کراچی ۔ اس شہر کے اپنے نہیں چاہتے کہ یہ شہر آگے بڑھے ۔ پیپلز پارٹی اس شہر کو عوام کی نمایندگی کرتا ہوا میونسپل نظام نہیں دینا چاہتی، وفاق بھی کوئی یہاں کے ٹرانسپورٹ نظام کو بہتر کرنے میں سنجیدہ نہیں ۔ لاہور کا ٹرانسپورٹ نظام دیکھیے، اسلام آباد و پنڈی کے درمیان بھی میٹرو بس آرہی ہے لیکن اس شہر میں کچھ بھی نہیں ہو رہا ۔ اس شہر کا بہت سارا حصہ کنٹونمنٹ میں آتا ہے اور وہ عوام کے نمایندہ لوگ نہیں چلاتے جس کی وجہ سے وہاں اور بھی مسائل ہیں ۔

اوپر سے ’’مہاجر‘‘ لفظ کی ’’توہین‘‘ کر کے جو ایک طرح سے سندھیوں کا ایک رات میں لیڈر بننے کی کوشش کی گئی ہے اس نے اس شہر کی اکثریت کے جذبات کو رنجور کیا ہے۔ بہت ہی تعظیم ہے اس لفظ کے لیے اور سب سے بڑی بات جو کوئی چاہتا ہے کہ اسے مہاجر کے نام سے پہچانا جائے یہ اس کا حق بنتا ہے ۔ کچھ دنوں پہلے جنرل مشرف نے ایک بیان دیا تھا کہ وہ پہلے سندھی ہیں اور پھر پاکستانی ہیں ۔ مجھے ان سے بہت سے اعتراضات اپنی جگہ لیکن ان کا بیان اچھا لگا تھا ۔ مہاجروں میں بہت سے ایسے ہیں جو قیصر بنگالی کی طرح سندھ کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں وہ دراصل یہ جنگ لڑتے ہوئے پاکستان کے ہر مظلوم کے ساتھ جڑنا چاہتے ہیں ۔

اگر مہاجر میں یہ تاثر جڑ جائے کہ جمہوریت در حقیقت وڈیروں کا راج ہے تو کل اگر آمریتیں آئیں تو کراچی کے لوگ پھر اس کا استقبال نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے ۔ آمریتیں انھیں میونسپل نظام دیتی ہیں ۔ آمریتیں کراچی میں سرمایہ کاری کرتی ہیں۔ اور جمہوریتوں میں یہ شہر وڈیروں کے حوالے ہوجاتا ہے ۔ ہر طرف پراڈو کلچر ان وڈیروں کے باڈی گارڈز دندناتے پھرتے ہیں ۔

ٹھیک ہے اس شہر کی سب سے بڑی آبادی مہاجر ہے لیکن پٹھانوں کا بھی پاکستان میں سب سے بڑا کوئی شہر اگر ہے تو وہ کراچی ہے ۔ پنجابی بھی ادھر بہت رہتے ہیں ، سندھی ہیں بلوچ ہیں، بنگالی ہیں ، برمی ہیں ۔ سب یہاں روزگار کی تلاش میں آتے ہیں ۔

میرا دعویٰ ہے اس شہر نے دبئی سے بھی بہت آگے جانا ہے تو ممبئی سے بھی، کیونکہ ممبئی زمین کے اعتبار سے محدود ہے، دبئی ریت پر بنا ہوا شہر ہے جو اپنی صرف Investment Friendly پالیسی کا کھاتا ہے۔ جب کہ کراچی کی زمین محدود نہیں وہ حیدرآباد و ٹھٹھہ تک پھیل جائے گا ۔ کراچی کے اندر نجی شعبے میں کام کرتے ہوئے ادارے بہت خوب جا رہے ہیں وہ چاہے تعلیم میں ہوں یا کسی اور کام میں ۔ اس شہر کی خواندگی کی شرح 100 فیصد ہے ۔

مجھے یاد ہے کل جب جنرل مشرف نے کسی سندھی اخبار کے ایڈیٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ سندھیوں کو میں اہم جگہوں پر مامور نہیں کرسکتا کیوں کہ وہ میرٹ پر پورا نہیں اترتے ۔ کسی زمانے میں لیاقت علی خان صاحب نے بھی یہ کہا تھا کہ سندھی گدھا گاڑی چلانے والی قوم ہے ۔ جنرل مشرف نے یہ بیان ایک خاص تناظر میں دیا تھا کہ وہ مہاجروں کو اپنا بنانا چاہ رہے تھے باقی سندھیوں کی ان کو فکر نہیں تھی کیونکہ وہ وڈیروں کے ذریعے ان کو سنبھال لیں گے ۔ لیکن سندھیوں پر آمریت عذاب کی طرح برسی ہے ۔

ان کے لیے نئے صوبوں کی بات ، ون یونٹ کی بات کی طرح ہے ۔ لیکن مجھے تو صوبے کہیں بنتے نظر نہیں آرہے۔ اور اگر کوئی جمہوری و آئینی طریقہ استعمال کرکے یہ شوق پورا کرنا چاہتا ہے تو اس کا جواب بھی ادھر موجود ہے ۔ اس لیے سندھیوں کو ان کے مہاجروں کے بارے اس بیان سے ڈرنا نہیں چاہیے اور جمہوریت سے بدظن ہونے کی ضرورت نہیں ۔

سندھ میں ایک بہت بڑی دہقانوں کی جنگ کی تاریخ موجود ہے۔ جب کراچی کے مہاجروں، باشعور مہاجر نے اپنے آپ کو سندھ کے دہقانوں کی تحریک کے ساتھ جوڑا تھا ۔ ہم اتنے سادہ بھی نہیں ، اور ہوں گے بھی نہیں جو ان صاحب کے بیان کی اصل حقیقت کو نہ سمجھ سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔