De Hogeweyk، ذہنی مریضوں کا گاؤں

مرزا ظفر بیگ  اتوار 26 اکتوبر 2014
اس مرکز کی ایک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ مختلف انداز کے گھروں میں مختلف طرز کا میوزک بجتا ہے، فوٹو: فائل

اس مرکز کی ایک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ مختلف انداز کے گھروں میں مختلف طرز کا میوزک بجتا ہے، فوٹو: فائل

Dementia نامی دماغی بیماری ایک ایسا مرض ہے جو انسان کو بالکل مجبور و لاچار کردیتا ہے۔اس بیماری کا شکار مریض زندگی میں کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتا، اس کے لیے عام لوگوں کے ساتھ رہنا اور صحیح زندگی گزارنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے دماغی امراض کے عالمی ماہرین نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ ایسے مریضوں کے لیے کوئی علیحدہ جگہ آباد کریں گے، کوئی بستی یا گاؤں بسائیں گے جو صرف ڈیمینشیا کے مریضوں کے لیے مخصوص ہوگا۔ چناں چہ کافی چھان بین اور سوچ بچار کے بعد ہالینڈ کے ایک ٹاؤن اور میونسپلٹی Weesp  میں ایک گاؤں منتخب کیا گیا، جس کا نام De Hogeweyk ہے، اسے  Hogeweyk بھی کہا جاتا ہے۔

یہ گاؤں شمالی ہالینڈ کے صوبے میں واقع ہے اور اپنے پرفضا مقام کی وجہ سے بڑی شہرت رکھتا ہے۔ اس طرح Hogewey کو خاص طور سے ڈیمینشیا کے مریضوں کے لیے ایک ماڈل گاؤں کی حیثیت دی گئی۔ اس میں خاص طور سے اس بات کا خیال رکھا گیا کہ یہاں ڈیمینشیا میں مبتلا بڑے بوڑھوں اور بزرگوں کو ہر طرح کی سہولت اور آسانی فراہم کی جائے اور انہیں کسی بھی طرح کی پریشانی نہ ہو۔

Hogewey نامی اس مرکز کا طریقۂ علاج یا تھراپی بڑی زبردست ہے۔ یہاں سارا دن متاثرہ افراد کے سامنے ایسی چیزیں بار بار لائی جاتی ہیں، انہیں وہ کچھ دکھایا جاتا ہے جس کے ذریعے انہیں بھولی ہوئی چیزیں دوبارہ یاد آسکتی ہیں اور اس طرح ماضی کے گم شدہ اوراق ان کے سامنے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ یہ طریقہ ویسے تو خاصا قدیم اور روایتی ہے، مگر یہ ڈیمینشیا کے مریضوں کے علاج میں کافی مؤثر ثابت ہوا ہے۔

یہ کام عام طور سے گھروں پر بھی کیا جاسکتا ہے، مگر اس گاؤں کے اس خصوصی مرکز میں جس انداز سے ان کی دیکھ بھال اور ان کا علاج کیا جاتا ہے، اس کے باعث ڈیمینشیا کے مریضوں کو زیادہ علاج کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ زیادہ مقدار میں دوائیں کھاتے ہیں، مگر پھر بھی یہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ متحرک و فعال ہوجاتے ہیں۔ اس گاؤں یا مرکز کا ماحول ہی ایسا ہے جس میں یہ مریض بہت خوش اور مطمئن رہتے ہیں۔

اس مرکز میں کام کرنے کا طریقہ وہی ہے جو فلم The Truman Showمیں دکھایا گیا ہے۔ یہ فلم ایسے مریضوں کے علاج میں مددگار ثابت ہوئی ہے۔ یہاں نگرانی اور دیکھ بھال کرنے والا پورا اسٹاف، ڈاکٹر اور نرسیں چوبیس گھنٹے یعنی دن رات کام کرتے ہیں اور کسی بھی مریض کی ایک آواز پر فوراً اس کے پاس پہنچتے ہیں۔

اس مرکز میں 152 مریض رہتے ہیں، جن کی چوبیس گھنٹے دیکھ بھال کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے، مگر یہاں کے سبھی ڈاکٹر، نرسیں اور عملہ خدمت خلق کے سچے جذبے سے سرشار ہے، اس لیے انہیں ڈیمینشیا کے مریضوں کی خدمت کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔

Hogewey کی عمارت اس طرح ڈیزائن کی گئی ہے کہ دیکھنے میں وہ ایک گاؤں لگتی ہے۔ اس میں ایک ٹاؤن اسکوائر بھی ہے، سپر مارکیٹ بھی، ہیئر ڈریسنگ سیلون بھی ہے، تھیٹر، کیفے، ریسٹورنٹ اور شراب خانہ بھی موجود ہے، تاکہ یہاں رہنے والے مریضوں کو کسی بھی چیز کی کمی محسوس نہ ہو۔ اس کے علاوہ اس گاؤں میں ایک دو نہیں پورے 23گھر بھی موجود ہیں۔ ہر گھر مختلف انداز اور اسٹائل کا ہے جو دیکھنے میں مریضوں کو ذرا بھی عجیب نہیں لگتا ہے، بل کہ انہیں ہر گھر میں اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔ ہر گھر میں چھے سے سات افراد رہتے ہیں۔

یہاں سات مراکز ایسے بھی ہیں جہاں کے گھر جدید انداز کے بنائے گئے ہیں۔ یہ ان مریضوں کے لیے ہیں جو پہلے سے ہی شہری علاقوں میں رہتے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے گھروں کے طرز تعمیر میں ولندیزی یا ڈچ جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ پھر یہاں ایسے لوگوں کے لیے علیحدہ گھر تعمیر کیے گئے ہیں جو دست کاری کے کام کرتے رہے ہوں، اس کی تجارت کرتے رہے ہوں۔ یہاں رہنے والے بعض لوگوں کی انڈونیشیا کے ساتھ ذہنی وابستگی بھی ہے اسی لیے انہیں ایسے گھر فراہم کیے گئے ہیں جہاں انہیں ایسا محسوس ہو جیسے وہ انڈونیشیا میں ہیں۔

اس کے علاوہ گھر تعمیر کرنے والوں، تھیٹر اور سنیما میں کام کرنے والوں کی رہائش کے لیے ان کی دل چسپیوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ مذہبی رجحان رکھنے والوں کے لیے رہائش فراہم کرنے پر خصوصی دھیان دیا گیا ہے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔

ڈیمینشیا کے مرض میں مبتلا مریضوں کے لیے بنائے گئے اس خصوصی مرکز کے تمام ڈاکٹر، نرسیں اور دیگر عملہ اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ وہ یہاں رہنے والے مریضوں کو وہ تمام سہولیات فراہم کریں کہ انہیں ایسا لگے جیسے وہ اپنے گھر پر ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کی یادداشت واپس آسکے، تاکہ وہ ایک بار پھر زندگی کی گہما گہمی میں لگ جائیں۔

اس خاص مرکز کے رہائشی (ڈیمینشیا کے مریض) سپر مارکیٹ میں ضروری شاپنگ بھی کرتے ہیں اور حسب ضرورت کھانا تیار کرنے میں تعاون بھی کرتے ہیں، جس سے انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے گھر میں ہیں۔

مریضوں کی نگہداشت کر نے والے عملے کے افراد دن میں عام لباس میں ملبوس ہوتے ہیں، نہ وہ کسی طرح کی وردی پہنتے ہیں اور نہ کوئی خاص لباس، بلکہ عام لباس میں اسی لیے رہتے ہیں تاکہ ڈیمینشیا کے مریض ان کی وردیوں سے پریشان نہ ہوں اور یہ نہ سمجھیں کہ وہ کسی اسپتال یا پاگل خانے میں قید ہوگئے ہیں، بل کہ یہ لوگ اپنے مریضوں کو  زیادہ سے زیادہ سہولت اور آرام پہنچانے کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔

مریضوں کی خدمت کے لیے عام گھرانوں میں پڑوسی یا دوست آگے آجاتے ہیں، مگر اپر کلاس میں اس کام کے لیے نرسیں یا ملازمین موجود ہوتے ہیں، اس لیے گھر والے اپنے بزرگوں کی کوئی خدمت نہیں کرتے۔ چناں چہ مذکورہ بالا مرکز میں اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ یہاں رہنے والے لوگ اپنے مددگاروں کو اپنے نوکر نہ سمجھیں بلکہ دوست یا پڑوسی سمجھیں۔

اس مرکز کی ایک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ مختلف انداز کے گھروں میں مختلف طرز کا میوزک بجتا ہے، اسی طرح ہر ایک گھر کا اندرونی ڈیزائن بھی الگ ہوتا ہے۔ یہی چیز کھانے پینے کی ، ٹیبل کی سیٹنگ میں ہوتی ہے۔

ہر گھر کے اندر رہنے والوں نے اپنے بڑے بڑے بیڈروم بنوارکھے ہیں۔ ان کے گھروں میں بڑے لیونگ روم بھی ہیں جہاں وہ آنے والے مہمانوں سے مل بھی سکتے ہیں اور باتیں بھی کرسکتے ہیں۔اسی طرح ان لوگوں کے اپنے کچن اور ڈائننگ روم بھی ہیں۔

اس خاص گاؤں کے گھروں اور کمروں کے دروازوں پر کوئی تالا یا لاک نہیں ہوتا۔ یہاں رہنے والے سبھی لوگ ایک دوسرے سے آزادانہ طور پر مل جل سکتے ہیں، واک کرسکتے ہیں یا گاؤں کے چاروں طرف سائیکل چلاسکتے ہیں۔ ان کا جی چاہے تو یہ سپرمارکیٹ اور کیفے بھی جاسکتے ہیں۔ یہ سمجھ لیں کہ یہ ان کی اپنی اور بالکل حقیقی دنیا ہے جہاں وہ اپنی مرضی اور آزادی سے زندگی بسر کرتے ہیں۔

اس گاؤں میں لگ بھگ 250ارکان پر مشتمل اسٹاف ہے۔ ان سب کا یہ کام ہے کہ یہ یہاں رہنے والے مریض مکینوں کو یہ احساس دلائیں کہ یہ بہت اچھی جگہ ہے اور یہ کہ Hogewey میں وہ آرام سے رہ رہے ہیں۔ یہاں کے لوگ جب موج میں آتے ہیں تو اپنے گزرے حالات کو یاد کرتے ہیں، ان کی باتیں کرتے ہیں، ظاہر ہے ان میں بہت سی باتیں غلط بھی ہوتی ہیں، لیکن اسٹاف کا یہ کام نہیں کہ وہ ان ڈیمینشیا کے مریضوں کی غلطیوں کو درست کریں یا انہیں یہ بتائیں کہ وہ غلط سوچ رہے ہیں۔ انہیں ان مریضوں کی ہسٹری اور بیک گراؤنڈ سے کوئی غرض نہیں، بل کہ صرف ان کی باتیں سننی ہیں، انہیں خوش رکھنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ یہ آپ کی اپنی دنیا ہے جہاں آپ آزادی سے رہ رہے ہیں۔

لیکن ساتھ ساتھ اس عملے کو یہ تربیت بھی دی گئی کہ ان مریضوں سے جھوٹ نہ بولا جائے، انہیں دھوکا نہ دیا جائے۔ اگر کوئی مریض ان سے براہ راست اپنے بارے میں، اس جگہ کے بارے میں یا اپنی بیماری کے بارے میں کوئی سوال کرتا ہے تو اسٹاف کو یہ ہدایت ہے کہ اسے سچائی کے ساتھ یہ بتادیں کہ آپ لوگ ایک ایسی جگہ پر رہ رہے ہیں جہاں آپ کی ضروری دیکھ بھال کی جارہی ہے اور آپ کی شکایت (بیماری) کا علاج بھی کیا جارہا ہے۔

چوں کہ یہاں رہنے والے اکثر مریض یا تو الزائمر میں مبتلا ہیں یا ڈیمینشیا میں، اس لیے یہ لوگ اپنے حال کے بجائے ماضی کو یاد رکھتے ہیں اور اسے دہراتے بھی رہتے ہیں۔ اس لیے اگر اسٹاف ان کے سوالوں کے جواب سچائی سے بھی دے دے تو بھی وہ کچھ ہی دیر میں بھول جائیں گے۔

* تاریخ:

اس خصوصی مرکز یا گاؤں کے قیام کا آئیڈیا سب سے پہلے 1992 میں اس وقت ذہن میں آیا جب Yvonne van Amerongen اور اسٹاف کے ایک اور رکن، ان دونوں حضرات کی مائیں ایک روایتی نرسنگ ہوم میں دنیا سے چل بسیں۔ ان دونوں کو اپنی ماؤں کی اچانک موت کا دکھ تو ہوا تھا، مگر اس بات کی خوشی بھی تھی کہ ان کی ماؤں کو اسپتال اور ڈاکٹروں کے چکر میں زیادہ اذیت برداشت نہیں کرنی پڑی۔

اس کے بعد 1993 میں اس ضمن میں خاصی ریسرچ کی گئی اور متعدد بار بحث و تمحیص بھی ہوئی، کئی اجلاس ہوئے جن میں اس بات پر غور ہوا کہ انسان اکثروبیشتر ایک جیسے ذہن، ایک جیسے تجربات اور خیالات اور ایک جیسے پس منظر کے حامل افراد کے ساتھ مل کر رہنا پسند کرتے ہیں اور اس میں انہیں بڑی خوشی اور اطمینان بھی ملتا ہے۔

اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد ہالینڈ کے ایک گاؤں Hogeweyمیں ایسے مرکز کے قیام کی منصوبہ بندی کی گئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہاں ڈیمینشیا کے ایسے مریضوں کو رکھا اور ان کا علاج کیا جائے گا جو ایک جیسے ذہنوں کے مالک ہوں، ان کا تاریخی پس منظر بھی ایک ہو اور پسند ناپسند بھی ملتی جلتی ہو۔ ماہرین کا خیال تھا کہ اس صورت میں ڈیمینشیا کے بہت سارے مریض ایک ساتھ ایک جگہ رہ سکیں گے اور اس ماحول میں انہیں اپنائیت کا احساس ہوگا، نہ وہ خود کو تنہا محسوس کریں گے اور نہ یہ ماحول انہیں اجنبی لگے گا۔

Hogewey کے مقام پر یہ نیا مرکز معروف آرکی ٹیکٹسMolenaar&Bol&VanDillenنے ڈیزائن کیا تھا۔ یہ لگ بھگ چار ایکڑ کے پلاٹ پر تعمیر کیا گیا۔ دسمبر 2009 میں اسے کھول دیا گیا۔ Hogewey کا مرکز صحت دو منزلہ چھوٹی اینٹوں سے بنائی گئی عمارت پر مشتمل ہے جس میں دیگر سہولیات جیسے سپر مارکیٹ اور تھیٹر بھی شامل ہیں۔ اس مرکز کی تعمیر پر 19.3ملین یورو لاگت آئی ہے جس کے لیے ابتدائی طور پر ہالینڈ کی حکومت نے 17.8ملین یورو کے فنڈز فراہم کیے تھے۔ باقی 1.5ملین یورو کے فنڈز اسپانسر شپ سے اور مقامی فلاحی انجمنوں کی مدد سے حاصل کیے گئے۔

یہاں کا کیفے اور ریسٹورنٹ کسی حد تک عام لوگوں کے لیے بھی کھولا گیا ہے، جب کہ یہاں کا تھیٹر مقامی کاروباری ادارے کرائے پر لیتے ہیں جن کی وجہ سے موجودہ اخراجات پورے کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس مرکز صحت میں رہنے والے ہر مریض (ہر فرد) پر لگ بھگ پانچ ہزار یورو ماہانہ خرچ ہوتے ہیں جو اتنی زیادہ رقم نہیں ہے۔ اتنا خرچ تو روایتی نرسنگ ہوم میں بھی ہوجاتا ہے۔ اس مرکز صحت Hogeweyکا سارا نظم و نسق ایک سرکاری کمپنی چلارہی ہے جہاں ڈیمینشیا کے مریضوں کا علاج کام یابی سے کیا جارہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔