جوتا کتھا، پہلے جوتے سے آج تک، جوتا سازی کی کہانی

نسرین اختر  اتوار 26 اکتوبر 2014
جوتا سازی کی صنعت لاتعداد لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہے  فوٹو: فائل

جوتا سازی کی صنعت لاتعداد لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہے فوٹو: فائل

جوتے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر گئے تو رب العالمین نے فرمایا۔ ترجمہ: ’’تم اس جگہ جوتے اتاردو۔ اب تم طویٰ کی مقدس وادی میں ہو‘‘ (سورۃ طٰہٰ آیت 12)

جوتے کو کئی ناموں سے پکارا جاتا ہے، پہلے عربی میں اسے نعل کہتے تھے اب حذا کہتے ہیں۔ اسے پاپوش، کفش، شو بھی کہتے ہیں۔ زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ جوتے کی بہت سی قسمیں ہوگئی ہیں۔ بوٹ، شو، گرگابی، سلیم شاہی، ملتانی، مکیشن، پمپی، ناگرا، سینڈل، سلیپر، چپل، کھڑائوں وغیرہ۔ اردو کے شاعرحضرات نے بھی اپنی شاعری میں جوتے کو مختلف ناموں سے اور صورتوں میں برتا ہے۔ ایک شاعر کا کہنا ہے:

جان جائے گی ان کی جائے گی

میری پاپوش بھی نہ آئے گی

مولانا الطاف حسین حالی نے کہا :

کمال کفش دوزی علم افلاطوں سے بہتر ہے

اکبر الٰہ آبادی کیسے خاموش رہتے۔ بڑا مزے دار شعر کہہ گئے

بوٹ ڈاسن نے بنایا، میں نے اک مضموں لکھا

ملک میں مضمون نہ پھیلا اور جوتا چل گیا

اس زمانے میں ’’ڈاسن‘‘ جوتے بنانے اور بیچنے والی ایک بہت بڑی کمپنی ہوا کرتی تھی۔ اس کے جوتے بہت مشہور تھے لوگ بڑے شوق اور فخر سے پہنتے تھے، اکبرالٰہ آبادی نے اس شعر میں علم کی ناقدری کی طرف اشارہ کیا ہے اور جوتے سے وابستہ ایک محاورہ بھی استعمال کیا ہے ’’جوتا چل گیا۔‘‘ جوتا واقعی چل گیا۔ آج کل لیڈروں کو جوتے پڑتے ہیں تو یہ محاورہ ضرور یاد آتا ہے۔ اساتذہ اور دیگر بزرگوں کی جوتیاں سیدھی کرنا باعث عزت سمجھا جاتا ہے۔

ایک وقت تھا جب پاؤں میں جوتا صرف امراء اور انہی کے عزیز و اقارب کے نصیب میں تھا۔ جو اپنے اعلیٰ ترین ملبوسات کے علاوہ عمدہ قسم کے جوتے بھی ترقی یافتہ ممالک سے منگوانے کا اہتمام کیا کرتے تھے، جب کہ عام عورتیں اور عام افراد تو طویل سفر بھی ننگے پائوں طے کرنے پر مجبور تھے جس سے راستے کے کنکر، پتھر، کیل، کانٹے اور دھول مٹی سے پائوں زخمی اور گردآلود ہوکر تکلیف اور کئی بیماریوں کا سبب بنتے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ کسی بادشاہ کے زمانے میں یہی صورت حال تھی، مگر بادشاہ تو بادشاہ تھا اسے عام انسانوں کی طرح ننگے پائوں چلنا اچھا نہیں لگتا تھا، لہٰذا اس نے سیکڑوں جانور ذبح کروائے، ان کی کھالیں اتروائیں، ان کھالوں کو نرم کروایا اور ان کے بڑے بڑے ٹکڑے کرواکر اپنے سیکڑوں غلاموں کے حوالے کردیے، بادشاہ جب باہر نکلتا تو تو غلام اس کے آگے آگے چمڑے کے ٹکڑے بچھاتے جاتے تھے اور بادشاہ ان ٹکڑوں پر پاؤں رکھتا ہوا چلتا جاتا تھا۔ یوں بادشاہ زمین پر قدم رکھے بغیر سفر کرلیتا تھا۔

دنیا کے دوسرے بادشاہوں نے بھی اپنے لیے چمڑے کے ٹکڑوں کے اسکواڈ بنالیے، جو بادشاہوں کو چلنے پھرنے میں سہولت فراہم کرتے تھے۔ اس دور میں غالباً روم کے ایک بادشاہ نے اپنی سلطنت کے دورے کا اعلان کردیا، اس سفر کے لیے کروڑوں، اربوں جانوروں کی کھالیں درکار تھیں اور پھر بادشاہ کے قدموں میں چمڑے کے پارچے بچھانے کے لیے لاکھوں غلام بھی چاہیے تھے، چناںچہ اس اعلان کے بعد وزیر، مشیر سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ ایک وزیر نے اس مسئلے کا ایک شان دار حل تجویز کیا۔ وزیر نے خرگوش کی نرم کھال کے موزے تیار کیے اور یہ موزے لے کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔

وزیر نے بادشاہ کو موزے پہننے کا مشورہ دیا کہ اس سے آپ کے پائوں بھی محفوظ رہیں گے اور کروڑوں جانوروں کی جان اور لاکھوں غلاموں کی مشقت بھی بچ جائے گی۔ بادشاہ کو موزے کا آئیڈیا پسند آگیا اور وہ چمڑے کے نرم موزے پہن کر سیر کے لیے نکل گیا۔ بس اس موزے نے دنیا کے پہلے جوتے کا اعزاز پایا۔ پھر بادشاہ کی دیکھا دیکھی وزیروں نے جوتے بنوائے پھر مشیروں اور امیروں نے بنوائے، پھر فوج کے لیے جوتے بنوائے گئے اور آخر میں ساری عوام نے بھی جوتے پہن لیے اور یوں جوتے ہر پائوں کی ضرورت بن گئے، تو دنیا کی بہت بڑی انڈسٹری کی بنیاد رکھی گئی۔

ترقی یافتہ دنیا میں جوتے نہ صرف عوام الناس تک پہنچ چکے تھے، بل کہ ان کے نت نئے ڈیزائنوں پر بھی تجربات کیے جانے لگے۔ پہلے زمانے میں عورتیں سپاٹ جوتی پہنتی تھیں۔ یعنی جوتوں کی وضع عورت مرد سب کے لیے ایک جیسی ہوتی تھی۔ وقت بدلا، ذرائع ابلاغ نے ترقی کی تو خواص کے زیراستعمال جوتوں کا علم عوام الناس کو بھی ہونے لگا۔ پھر گزرتے وقت کے ساتھ فیشن ڈیزائنرز کی بڑی تعداد بھی میدان میں آگئی، جس سے شخصیت، فیشن، موقع محل، موسم اور مقام و مرتبے کے علاوہ لباس سے میچ کرتے شوز پہننے کا رجحان عام ہوا تب ہی فارمل شوز، برائیڈل شوز، ایوننگ شوز، ڈریس شوز، آئوٹ ڈور شوز، انڈور سلیپرز اور واکنگ شوز حتیٰ کہ رین اینڈ سِنو شوز کی وسیع ورائٹی بھی مارکیٹ میں دست یاب ہونے لگی۔

اس طرح لوگوں کو اپنی ضرورت اور جیب کے مطابق مختلف اقسام کے جوتوں کی وسیع رینج مل گئی جس سے جہاں تیز رفتار فیشن کا مقابلہ آسان ہوا وہاں آرام دہ انداز بھی ملا۔ پھر جدید سے جدید قسم کے سینڈلز، ہیلز، چیل، جاگرز، فلیٹس، پمپس، بوٹس وغیرہ مارکیٹ میں دست یاب ہونے لگے اور جوتے کی صنعت میں ایسا انقلاب آیا کہ اب بڑی بڑی کمپنیوں کے شوز کی نقل انتہائی ارزاں نرخوں پر تمام دکانوں اور ٹھیلوں پر بھی موجود ہے، جن کا معیار اگرچہ پست ہوتا ہے، لیکن اسٹائل بعض اوقات انتہائی پرفکیٹ ہوتا ہے کہ نقل پر اصل کا گمان ہونے لگے۔ اب لباس سے ہم آہنگ شوز ہر جگہ دست یاب ہیں جن میں مختلف شوخ رنگوں کے علاوہ ہیلز کی بھی کافی ورائٹی ہوتی ہے۔

بدلتے ہوئے زمانے اور ترقی کے دور کے ساتھ ہر چیز صنعت بن گئی ہے۔ جوتے بنانے کی صنعت نے بھی بڑی ترقی کی ہے۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں۔ لوگ جوتے بنا بناکر صنعت کار بن جاتے ہیں۔ امیر ہوجاتے ہیں، جوتا سازی کی صنعت نے بڑی تیزی سے ترقی کی ہے۔ کارخانوں کے علاوہ جوتا سازی نے گھریلو صنعت کا روپ اختیار کرلیا ہے، خصوصاً کراچی کے مختلف علاقوں میں لوگ گھروں میں جوتے بنانے کا کام کررہے ہیں۔

اس ضمن میں لیاقت آباد، لسبیلہ، سولجر بازار، رامسوامی، رنچھوڑ لائن، صدر، لائنز ایریا، عثمان آباد، جوبلی، گارڈن، بزنس روڈ وغیرہ گھریلو جوتا سازی میں مقبول علاقے ہیں۔ مکان یا فلیٹ میں لوگ اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر ہوتے ہیں اور وہیں جوتے بنانے کا کام بھی کرتے ہیں۔ جوتا سازی میں گھر کے تمام افراد شامل ہوتے ہیں اور سب مل کر جوتے بنانے کا کام کرتے ہیں، گھر کی خواتین بھی مردوں کے ساتھ کام کرتی ہیں حتیٰ کہ بچے بھی اس کام میں شامل ہوتے ہیں۔

گھریلو جوتا سازی سے جہاں لوگوں کو سستی چپلیں مل جاتی ہیں وہیں گھریلو جوتا سازی سے خطرات بھی جنم لیتے ہیں۔ جوتا سازی میں استعمال ہونے والا میٹریل، چمڑا، ربڑ، ریگزین، سلوشن اور دیگر کیمیکلز پر مشتمل ہوتا ہے، جو بہت جلد آگ پکڑ لیتا ہے، خاص طور پر سلوشن سے آگ لگنے کے بے شمار واقعات ہوچکے ہیں، جس سے نہ صرف مالی بلکہ جانی نقصان بھی ہوتا ہے۔ گھروں میں جوتا سازی اس لحاظ سے بھی خطرناک ثابت ہوتی ہے کہ گھروں میں کھانا پکانے کا کام بھی ہوتا ہے اور جوتے بنانے میں سلوشن ضروری ہوتا ہے۔

یوں سلوشن جلد ہی آگ پکڑ لینے کے باعث آگ لگنے کے واقعات جنم لیتے ہیں، جس کے باعث جوتا سازی میں کام آنے والے میٹریل کے علاوہ گھریلو سامان بھی جل جاتا ہے لیکن سب سے بڑا نقصان انسانی جانوں کا ہوتا ہے ان خطرات کے باوجود صرف کراچی شہر میں سیکڑوں گھروں میں جوتے بنانے کا کام زوروشور سے جاری و ساری ہے۔ یہی نہیں بل کہ گھروں میں جوتے بنانے کے باعث پڑوسیوں کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

خاص طور پر فلیٹ میں کام کرنے والے لوگوں کے پڑوسی اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں کیوں کہ اگر فلیٹ میں اوپر جوتے بنانے کا کام ہوتا ہے تو لازماً نیچے فلیٹ والوں کو ٹھوکنے پیٹنے کی آواز آتی ہے جس سے انھیں اذیت ہوتی ہے اور ذہنی سکون برباد ہوجاتا ہے، کیوں کہ جوتے بنانے والے اکثر رات کو دیر تک کام کرتے رہتے ہیں اور سیزن کے دنوں میں تو ساری ساری رات کام کرتے ہیں، جو نیچے کے فلیٹ کے رہائشیوں کے لیے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔

قانون پر عمل در آمد نہ ہونے کے باعث گھریلو جوتا سازی کی صنعت بڑھتی جارہی ہے جوتے کا معیار کیسا ہے؟ اس سے قطعی نظر گھریلو صنعت ایک طرف خطرات لیے ہوئے ہے تو دوسری طرف پڑوسیوں کی پریشانی کا باعث ہے، اخلاقی طور پر لوگوں کو خود بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان کی وجہ سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچ رہی ہے تو ایسی جگہ پر کام کریں کہ کسی کو پریشانی نہ ہو۔

بہ ہر حال، جوتا سازی کی صنعت لاتعداد لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہے۔ ضرورت بس اس بات کی ہے کہ اس حوالے سے قوانین پر عمل کیا جائے تاکہ جوتاسازی کا عمل یہ کام کرنے والوں کی صحت کو نقصان پہنچانے اور دوسرے لوگوں کے لیے اذیت کا باعث نہ بنے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔