(پاکستان ایک نظر میں) - تنقید کیجیے مگر غیر ضروری تنقید سے پرہیز کریں!

محمد عثمان فاروق  ہفتہ 25 اکتوبر 2014
یہ طرزعمل ہرگز ٹھیک نہیں کہ محض آپ جس کو پسند کرتے ہیں وہ بالکل ٹھیک اور جس سے آپ اختلاف کرتے ہیں وہ بالکل غلط ہو۔ ہر انسان میں خرابی اور خوبی کی گنجائش ہوتی ہے اور ہمیں اِس کا اعتراف کرلینا چاہیے۔ فوٹو: ایکسپریس

یہ طرزعمل ہرگز ٹھیک نہیں کہ محض آپ جس کو پسند کرتے ہیں وہ بالکل ٹھیک اور جس سے آپ اختلاف کرتے ہیں وہ بالکل غلط ہو۔ ہر انسان میں خرابی اور خوبی کی گنجائش ہوتی ہے اور ہمیں اِس کا اعتراف کرلینا چاہیے۔ فوٹو: ایکسپریس

کسی سیانے نے کہا تھا کہ بعض اوقات ہم کسی اچھے کام کی تعریف بھی صرف اس لیے نہیں کرتے کیونکہ یہ کام ہماری پسندیدہ سیاسی پارٹی نے نہیں کیا ہوتا اور بعض اوقات کسی کے غلط اقدام پر بھی اس لیے چپ رہتے کیونکہ یہ کام کرنے والے کو ہم اپنے دماغ میں ہیرو کا درجہ دے کر تمام غلطیوں سے ہمیشہ کے لیے پاک کرچکے ہوتے ہیں ۔

کچھ یہی حال اسوقت پاکستان کی اکثریت عوام کا ہوچکا ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان اسوقت سیاسی انتہا پسندی انتہاوں کو چھو رہی ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔ ہمارے نزدیک ایک سیاسی پارٹی یا تو سو فیصد درست ہے یا سو فیصد غلط ہے ۔ ہم نے کوئی درمیانی راستہ چھوڑا ہی نہیں ہے۔ حالانکہ انسان غلطیوں کا پتلا ہے وہ مکمل طور پر درست یا مکمل طور پر غلط ہو ہی نہیں سکتا ۔ لیکن ہماری قوم کی اکثریت اس بات پر قائل ہو چکی ہے کہ ہم جس پارٹی کو اپنے ذہن میں پسند کر چکے ہیں وہ سو فیصد درست اور اسکا ہر قدم ہر لفظ حرف آخر ہے اور جن پارٹیوں کو ہم اپنے دماغ میں ناپسند کرچکے ہیں وہ سو فیصد غلط اور انکا ہر قدم تباہی غداری اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔

اسکی ایک مثال پنجاب حکومت کی جانب آزادی چوک پر لوگوں کی نقل و حرکت کے لیے زیر زمین تیار کیا گیا راستہ ہے جو کسی بھی طرح سے دنیا کے معیار سے کم نہیں۔ بلکہ جب میں نے پہلی بار اُس مقام کی تصویر دیکھی تو مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ یہ پاکستان ہے میں تو اُسے دبئی کا کوئی مقام تصور کرتا رہا ۔۔۔ مگر مجھے سچ تو اُس وقت لگا جب مخالفین کی جانب سے تابڑتوڑ حملے کیے جانے لگے ۔ ٹھیک ہے آپ نون لیگ کو پسند نہیں کرتے ۔ آپ انقلاب یا نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں مگرا سکا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ ہر اچھے اور مثبت کام پر بھی تنقید کے ایسے ایٹمی میزائیل برسائیں کہ حکومت یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ اگر ہم نے فلاں جگہ کوئی پل کوئی سڑک یا ترقیاتی کام کر بھی ذلیل ہونا ہے ۔ ہم پر کرپشن کے الزامات لگنے ہیں تو کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ کچھ کیا ہی نہ جائے ۔

میٹروبس پر چاہے جتنی بھی تنقید ہو لیکن بہر حال اس میں عام آدمی کا فائدہ ہے اس میں عام آدمی کو سکون اور سہولت میسر آتی ہے ۔ دوسرے صوبوں کی نسبت دیکھا جائے تو یہ ایک بہترین اقدام ہے ۔نون لیگ کی حکومت ایک دن چلی جائے گی لیکن یہ میٹرو بسیں یہ فلائی اوور یہ پل یہیں رہیں گے ۔ انکا فائدہ ہوتا رہے گا ۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اپوزیشن پارٹیاں اور تنقید کرنے والے اسکو تحسین کی نظر سے دیکھتے لیکن چونکہ یہ کام ہمارے سیاسی مخالفین نے کیا ہے لہذا ہم نے اس پر تنقید لازمی کرنی ہے ۔ کہا جارہا ہے چوالیس ارب روپیہ میٹرو بس پر اڑا دیا گیا ہے تو جناب چلو اچھا ہے عوام کا چوالیس ارب تھا عوام کے فائدے کے لیے اڑایا ہے نا ۔۔۔ دوسرے صوبوں کی حکومتوں نے کتنے پیسے عوام کے لیے اڑائے ؟ کتنی سڑکیں اور کتنے فلاحی منصوبے بنائے؟ جب سڑکیں اور پل بنتے ہیں آمد ورفت میں آسانی ہوتی ہے لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے ہیں تجارتی مواقع بڑھتے ہیں معیشت پروان چڑھتی ہے۔ ایک سو پنسٹھ دن کی ریکارڈ مدت میں لاہور کا سگنل فری آزادی چوک جنکشن مکمل ہوتا ہے۔ یہ ایک بلاشبہ کارنامہ ہے اس سے لاکھوں عوام کو آمدورفت میں آسانی ہوگئی لیکن میں اسکی تعریف صرف اس صورت میں کروں گا اگر میرا تعلق نون لیگ سے ہے اگر میں نون لیگ سے نہیں ہوں چاہے یہ جتنا بھی مرضی بڑا کارنامہ ہے میں اسکی تعریف نہیں کروں گا ۔

آخر ہمارے رویے ایسے کیوں ہو گئے ہیں؟۔ تنقید کرنے کا یہ بھی تو طریقہ ہوسکتا ہے کہ ہاں جناب آپکے فلاں فلاں کام بہت اچھے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں میرا لیڈر اس سے بہتر کام کرسکتا ہے۔ اسوقت سوال یہ بھی ہے کہ چلیں کوئی توہے جو کام کررہا ہے۔ جوکچھ بھی نہیں کررہے انکوکیا کہیں؟ اگر طالبعلموں میں لیپ ٹاپ بانٹ دیئے تو کیا یہ برا کردیا۔ عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ تھا اس سے عوام ہی کو لیپ ٹاپ بانٹ دیئے تو کونسا برا کام کردیا۔ چلو کوئی تو ہے جو ’’بانٹ‘‘ رہا ہے ۔ باقی صوبوں والے یا پارٹیوں والے کیا کررہے ہیں ؟ انکے پاس بھی تو عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ تھا ۔ اگر انکو لگتا تھا کہ ان ٹیکسوں کے پیسے سے میٹرو بس چلانا یا پھر لیپ ٹاپ بانٹنا یا پھر فلائی اوور بنانا عوام کے لیے بہتر نہیں تو جو انکے نزدیک ’’ بہتر‘‘ تھاکیا انہوں نے وہ کیا ؟

میری تمام پاکستانیوں سے اپیل ہے کہ اپنی پارٹی اپنے صوبے اپنے مسلک سے اوپر آکر پاکستان کا سوچیں ورنہ یقین کیجئےگریبان پھٹتے رہیں گے معاشرے میں برداشت ختم ہوتی جائے گی کوئی بھی پارٹی برسرِ اقتدار آکر کوئی ترقیاتی کام نہیں کروائے گی کیونکہ اسے پتا ہوگا ترقیاتی کام کرکے بھی گالیاں ہی سننی ہے تو بہتر ہے نہ ہی کیا جائے ۔ ایسے حالات میں سہمے اور بھوک افلاس پر مبنی تقسیم در تقسیم ایسے جہالت زدہ معاشرے کا قیام عمل میں آئے گا جہاں اختلاف رائے کی سزا موت ہوگی۔ ہر شخص دوسرے کے لیے غدار کرپٹ یا واجب القتل ہوگا ۔اس لیے برداشت اور حوصلے سے کام لیجئے مان لیجئے ہم ایک ٹوٹے ہوئے گلاس کی طرح ٹوٹی ہوئی بکھری ہوئی قوم ہیں ۔ گلاس کو ٹوڑنا آسان اور جوڑنا مشکل ہوتا ہے ۔ ہمیں بھی جڑنے میں کچھ وقت لگے گا۔ صدق دل سے اچھے کام کی تعریف کیجئے اور غلط کام پر مثبت تنقید کیجئے سب پاکستانی ہیں اور سب اپنے ہیں ۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

عثمان فاروق

محمد عثمان فاروق

بلاگر قومی اور بین الااقوامی سیاسی اور دفاعی صورت حال پر خاصی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سائنس فکشن انکا پسندیدہ موضوع ہے۔ آپ ان سے فیس بک پر usmanfarooq54 اور ٹوئیٹر پر @usmanfarooq54 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔