- پولر آئس کا پگھلاؤ زمین کی گردش، وقت کی رفتار سست کرنے کا باعث بن رہا ہے، تحقیق
- سندھ میں کتوں کے کاٹنے کی شکایت کیلئے ہیلپ لائن 1093 بحال
- کراچی: ڈکیتی کا جن قابو کرنے کیلیے پولیس کا ایکشن، دو ڈاکو ہلاک اور پانچ زخمی
- کرپٹو کے ارب پتی ‘پوسٹربوائے’ کو صارفین سے 8 ارب ڈالر ہتھیانے پر 25 سال قید
- گٹر میں گرنے والے بچے کی والدہ کا واٹر بورڈ پر 6 کروڑ ہرجانے کا دعویٰ
- کرپٹو کرنسی فراڈ اسکینڈل میں سام بینک مین فرائڈ کو 25 سال قید
- کراچی، تاجر کو قتل کر کے فرار ہونے والی بیوی آشنا سمیت گرفتار
- ججز کے خط کی انکوائری، وفاقی کابینہ کا اجلاس ہفتے کو طلب
- امریکا میں آہنی پل گرنے کا واقعہ، سمندر سے دو لاشیں نکال لی گئیں
- خواجہ سراؤں نے اوباش لڑکوں کے گروہ کے رکن کو پکڑ کر درگت بنادی، ویڈیو وائرل
- پی ٹی آئی نے ججز کے خط پر انکوائری کمیشن کو مسترد کردیا
- عدالتی امور میں ایگزیکٹیو کی مداخلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، فل کورٹ اعلامیہ
- وفاقی حکومت نے کابینہ کی ای سی ایل کمیٹی کی تشکیل نو کردی
- نوڈیرو ہاؤس عارضی طور پر صدرِ مملکت کی سرکاری رہائش گاہ قرار
- یوٹیوبر شیراز کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات
- حکومت کا بجلی کی پیداواری کمپنیوں کی نجکاری کا فیصلہ
- بونیر میں مسافر گاڑی کھائی میں گرنے سے ایک ہی خاندان کے 8 افراد جاں بحق
- بجلی 2 روپے 75 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
’’پل دو پل‘‘ کے شاعر ساحر لدھیانوی کو پرستاروں سے بچھڑے 34 برس ہوگئے
ممبئی: اپنی لازوال شاعری کی بدولت کروڑوں لوگوں کے دلوں کی ترجمانی کرنے والے ساحر لدھیانوی کو پرستاروں سے بچھڑے 34 برس ہوگئے۔
8 مارچ 1921 کو پنجاب کے شہر لدھیانہ میں جاگیردار گھرانے میں پیدا ہونے والے ساحر لدھیانوی کا اصل نام عبدالحئی تھا، انہوں نے ابتدائی تعلیم لدھیانہ سے ہی حاصل کی، کالج کے زمانے سے ہی انہیں معروف پنجابی ادیب امرتا پریتم سے عشق ہوگیا تھا جو مرتے دم تک برقرار رہا، اسی عشق کی بدولت وہ کالج سے نکالے گئے جس کے بعد وہ لاہور آگئے، انہوں نے شاعری تو کالج کے زمانے سے ہی شروع کردی تھی تاہم معاشرتی ناانصافیوں اور ناہمواریوں نے ان کے سیاسی اور سماجی شعور کو بتدریج پختگی بخشی اور پھر ان کا قلم عوامی جدوجہد کے لئے وقف ہوگیا۔ طالب علمی کے زمانے میں ہی ان کا شعری مجموعہ ’’ تلخیاں‘‘ شائع ہو چکا تھا۔ جس نے اشاعت کے بعد دھوم مچا دی تھی۔ اس شعری مجموعے کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ اشتراکی ذہن رکھنے والے ساحر لدھیانوی کے حکم جاری ہونے پر 1949 میں لاہور سے واپس بھارت جانا پڑا جہاں انہوں نے ممبئی میں مستقل سکونت اختیار کی۔
ساحر کی ادبی اور فلمی شاعری الگ الگ نہیں، انہوں نے جو مشکلات سہی تھیں انہوں نے اسے ہی اپنی شاعری کا موضوع بنایا، یہی وجہ ہے کہ ساحر لدھیانوی کو اپنے وقت کے ناقدینِ ادب نے مستند شعرا کی فہرست سے خارج کردیا لیکن برصغیر کی 3 نسلوں میں ان کے لکھے فلمی گیت آج بھی سب سے زیادہ مقبول ہیں، ان کی شاعری نے فلمی دنیا کے شائقین کو نئے ذائقے سے آشنا کیا۔ ساحر لدھیانوی اپنی شاعری میں محنت کا استحصال برداشت کرتے ہیں نہ ہی عورت کی بے بسی، ان کی شاعری میں کہیں خوف اور خواب کا تصادم ہے تو کہیں جنگ اور امن کے درمیان محاذآرائی، کہیں انہوں نے زرعی اور صنعتی رویوں کی کشمکش اپنی شاعری میں ڈھالا ہے، ان کی شاعری حیات آشنا بھی ہے اورموجودہ حالات سے ہم آہنگ بھی۔ ان کی شاعری میں زندگی کی کیفیات، بدلتے حالات اور اس کی ترجیحات کے واضح اشارے ملتے ہیں، انہوں نے انسانی احساس کے دائرے کو وسیع کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ’’پل دو پل کا شاعر‘‘ ’’ ہر ایک پل کا شاعر‘‘ بن گیا۔
ساحر لدھیانوی زندگی بھر امرتا پریتم کے عشق میں مبتلا رہے اور کبھی شادی نہیں کی،’’ٹھنڈی ہوائیں، لہرا کے آئیں، رت ہے جواں، تم ہو کہاں ‘‘،’’عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا ‘‘،’’میں پل دو پل کا شعر ہوں‘‘ ”کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے“، ”تیراملنا خوشی کی بات سہی“، ”تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں“ ’’چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں‘‘، ’’ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی‘‘، ’’چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو‘‘ ،’’ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں‘‘جیسے شہرہ آفاق گیتوں کے خالق کو دنیا سے گزرے 34 برس ہوچکے ہیں لیکن ان کے نغمے آج بھی عوام میں مقبول ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔